ریاست جموں وکشمیرمیں آئے سیلاب
کی تباہ کاریوں کولفظوں میں بیان کرناممکن نہیں۔سیلاب کی وجہ سے سینکڑوں
نہیں ،ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کی انسانی جانیں تلف ہونے کااندیشہ ہے
۔ابتدائی طورپرتوسیلاب کی زدمیں آکرجاں بحق ہوئے افرادکی تعدادسینکڑوں میں
بتائی جارہی ہے لیکن کتنی اموات قدرتی قہر(سیلاب )کی وجہ سے ہوئی ہیں اس
کااندازہ لگانا فی الحال ناممکن ہے۔سینکڑوں لاشوں کوسیلاب زدہ وادی
کشمیرمیں پانی سے نکالاجارہاہے۔داستان غم زدہ کشمیرپرتوہزاروں نوحے لکھے
جائیں تووہ بھی کم پڑجائیں گے۔گذشتہ چنددِنوںسے سوچ رہاتھا کہ کچھ
لکھوںمگررنجیدہ دِل ودِماغ سے ہمت نہیں ہوتی تھی کیونکہ ریاست جموں
وکشمیرمیں قیامت سے پہلے ہونے والی قیامت سے متعلق کچھ لکھنامیرے قلم کے بس
کی بات نہیں۔یکم ستمبر2014 کے بعدسے ہونے والی قہرانگیزموسلادھابارشوں سے
بھاری تعدادمیں انسانی جانوں کاضیاع ہونے کے علاوہ اربوں روپیوں کی سرکاری
وغیرسرکاری املاک کونقصان پہنچنے سے ریاست کانقشہ ہی تبدیل ہوگیاہے۔سرکاری
عمارتیں، پانی اور بجلی کی ترسیلی لائنیں، پل اور سڑکیں تباہ ہونے کے ساتھ
ساتھ لوگوں کے گھرتباہ تہس ونہس ہوگئے ہیں۔دودہائیوں کے نامساعدحالات سے
چندہی برسوں پہلے ریاست اُبھرکرتعمیروترقی کی طرف گامزن ہوئی تھی لیکن
موجودہ قدرتی تباہی نے ریاست کوپچاس سال پیچھے دھکیل دیاہے۔جس پیمانے کی
تباہی وبربادی ریاست جموں وکشمیرمیں موسلادھاربارشوں سے ہوئی ہے اس پیمانے
کی تباہی وبرباد ی سے متعلق نہ کسی نے سناتھااورنہ کسی نے دیکھاتھا۔اس
تباہی کاآغازخطہ پیرپنچال سے ہوا،اب تک اس خطے جودوسرحدی اضلاع راجوری
اورپونچھ پہ مشتمل ہے ۔ضلع راجوری کے نوشہرہ کے لام گاؤں میں باراتیوں سے
کھچاکچھ بھری ایک مسافر بس مقامی نالہ میں آئی طغیانی میں بہہ گئی ۔ اس خبر
نے پوری ریاست کو ہلادیا اور ہرسوں بالخصوص خطہ پیر پنچال میں صف ماتم بچھ
گئی۔اس کے بعدجموں صوبہ کے علاقہ جات موسلادھاربارشوں کے سیلاب کی زدمیں
آئے اوردیکھتے ہی دیکھتے پوری ریاست میں سیلاب سے حالات ابترہوگئے۔ہرطرف سے
آہ وبقاءکی صدائیں بلندہونے لگیں،ہرطرف انسانی آبادی بھاگ رہی تھی ۔دریاﺅں
کے کنارے بسے ہوئے لوگوں پہ توآناً فاناً میں قیامت ہی ٹوٹ پڑی ۔بہت سے لوگ
سیلابی ریلوں کی زدمیں آکرلقمہ اجل بن گئے۔پانی کے ریلوں سے موت کے میلے کے
مناظرپیش کیے۔صوبہ جموں کے ضلع ادھمپورکے علاقہ پنچاری کاایک گاﺅں پوری طرح
سے پہاڑی کھسکنے سے زمین دوزہوگیا۔ابھی تک درجن کے قریب لاشوں کونکالاگیاہے
۔بتایاجاتاہے کہ 40 کے قریب گاﺅں ملبے تلے دب گئے ہیں اوراس ملبے کے نیچے
سوسے زائدانسانی جانوں کے تلف ہونے کااندیشہ ہے۔وادی کشمیرمیں بیس ہزارفوجی
جوان بچاﺅاورراحت کاروائیوں میں سرگرم عمل ہیں ۔کشمیرمیں جہاں فوج کی جانب
سے بچاﺅکاروائیوں میں قابل ستائش رول اداکیاہے وہیں مقامی نوجوانوں نے بھی
ہمت ودلیری کامظاہرہ کرکے لوگوں کی مددکےلئے خصوصی بچاﺅکاروائیاں شروع کرکے
سینکڑوں زندگیوں کوبچانے میں اہم رول ادکیاہے۔مقامی نوجوانوں نے اپنی مددآپ
کی ضرب المثل کوتقویت بخشی اوران نوجوانوں نے جس جذبے اورجوش کے ساتھ
سینکڑوں انسانی جانوں کوبچایاہے وہ جذبہ قابل سلام ہے۔ریاستی سرکارکی
انتظامیہ کے سینکڑوں افرادکاابھی تک اتہ پتہ نہیں ہے۔کئی وزراءبھی لاپتہ
ہیں۔وادی کشمیرمیں مواصلاتی نظام ٹھپ ہونے کے سبب کسی سے رابطہ نہ ہونے سے
ریاست کاہرشہری پریشان ہے۔ضلع ریاسی میں پسی گرنے سے آدھا درجن کے قریب
ہلاکتوں، اودھم پور کے پنچاری علاقہ میں ایک گاو ¿ں کا صفحہ ہستی سے مٹ
جانا، راجوری کے تھنہ منڈی میں ایک ہی کنبہ کے آدھا درجن سے زائد لوگوں کا
ملبے تلے دب جانے کی سنسنی خیز اور دلخراش واقعات اور اپنی آنکھوں کے ساتھ
لاکھوں اور کروڑوں روپے کی جائیداد پانی میں ملنے کا سلسلہ خطہ جموں تک ہی
محدود نہ رہا بلکہ اس نے وادی کشمیر کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا۔صوبہ جموں
میںبارشیں تھم جانے سے اب حالات کچھ قدرے بہترہوئے ہیں مگروادی کے ہزاروں
دیہات زیرآب ہیں اوردودومنزلہ عمارتیں پوری طرح سے پانی کے اندرچھپی ہوئی
ہیں۔ایک لاکھ کے قریب لوگوں کوفوج نے پانی سے نکال کرمحفوظ مقامات
پرپہنچایاہے ۔اتنے بڑے پیمانے پر ہوئی تباہ کاریوں کے بعد مرکزی وزیر داخلہ
راجناتھ سنگھ نے 6ستمبر اور پھردوسرے دن 7 ستمبر کو وزیر اعظم ہند نریندر
مود ی نے صوبہ جموں اور وادی کشمیرکا ہوائی جائزہ لے کر از خود نقصانات کا
جائزہ لیا۔ انہوں نے جموں و کشمیر میں آئے سیلاب کو’قومی آفت‘قرار دیتے
ہوئے متاثرہ لوگوں کی راحت اور بچاو ¿ اور بازآبادکاری کے لئے ریاستی حکومت
کو ایک ہزار کروڑ روپے کی اضافی امداد دینے کا اعلان کیا جبکہ ریاستی آفات
ریلیف فنڈ کے ذریعہ مہیا کرائی گئی 1100 کروڑ روپے بھی ریاست کے پاس موجود
ہے۔ قومی آفت قراردیئے جانے کامطلب صاف ہے کہ جس پیمانے پرتباہی ہوئی ہے اس
کوبرداشت کرناریاستی سرکارکے بس کی بات نہیں ہے۔مختلف ریاستوں کی سرکاروں
نے کروڑوں روپے امداددینے کااعلان کیاہے جوکہ خوش آئندبات ہے۔وزیر اعظم نے
ریلیف فنڈ سے مرنے والوں کے قریبی پسماندگان کو دو لاکھ روپئے اور شدید
زخمی ہونے والوں کو پچاس ہزار روپئے فی کس دیئے جانے کا بھی اعلان کیا ۔اس
وقت پوری قومی میڈیا کی نظریں ریاست جموں وکشمیر کی بحرانی صورتحال پر ہیں
اور پل پل کی خبریں دی جارہی ہیں لیکن تباہی اتنے بڑے پیمانے پر ہوئی ہے کہ
اخبارات، ٹیلی ویژن ،ریڈیو او ر سرکاری ذرائع سے جاری ہونے والی خبروں اور
اعداد وشمار بہت کم ہیں جبکہ نقصان اور متاثرین کی تعداد اس سے کئی گناہ
زیادہ ہے ، ایسے بھی علاقے ہیں جہاں تک نہ کوئی پہنچا اور نہ وہاں کے بارے
میں کوئی جانکاری ہے۔ از خود اس بات کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ جہاں
اوسطاً سطح آب 10-12فٹ ہو وہاں پر جانی ومالی نقصان کتنا ہوا ہوگا۔ کتنی
قیمتی جانیں تلف ہوئی ہوں گی، کتنے مال مویشی ہلاک ہوئے ہونگے۔ وادی اور
جموں کے نشیبی علاقہ جات میں فصلیں مکمل طور تباہ ہوگئی ہیں۔ میوہ جات بھی
ختم ہوگئے ہیں۔ فی الحال بھوک، پیاس، آہ وپکار، اپنے عزیز واقارب کوکھونے ،
پوری عمر کے خون پیسنے کی کمائی سے تنکا تنکا چن کر کے کھڑے کئے گئے آشیانے
کے برباد ہوجانے کی وجہ سے پوری ریاست میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ مصیبت کی
اس گھڑی میں وقت کی اہم ضرورت ہے کہ تمام تراختلافات، آپسی رنجشوں، سیاسی
نظریات /وابستگیوں، مذہب، علاقہ، ذات ، پات، رنگ ونسل سے بالاترہوکر
متاثرین کی مدد کی جائے اور ریاست کو پھر سے پٹری پر لانے کیلئے اپنی سطح
پر انفرادی اور اجتماعی کوششیں کی جائیں۔جہاں حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ
فوری طور متاثرہ علاقہ جات میں اولین ترجیحی سیلا ب میں پھنسے افراد کو
نکالنے اور پھر انہیں محفوظ مقامات پر منتقل کرے وہیں حزب اختلاف ، سماجی
کارکنان کا فرض ہے کہ وہ اس عمل میں حکومتی مشینری کا بھر پور تعاو ن دیں
تاکہ مستحق متاثرین کو راحت مل سکے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اپنے اپنے
رول کو اللہ کو حاضر وناظر رکھ کر اپنی خدمات کو انجام دیں۔پنچایتی ممبران،
سیاسی، سماجی کارکنان اور رضاکار ورکر متعلقہ علاقوں میں نقصانات اور
متاثرین کا صحیح اعدادوشمار حکومت تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کریں ۔
تعلیم یافتہ نوجوانوں کا فرض اولین ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں راحت
کاریوں اور امدادی کاررائیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ اس وقت اتحاد واتفاق
اور امداد کی سخت ضرورت ہے، صنعتکاروں، تاجروں اور دیگر صاحب ثروت حضرات کو
چاہئے کہ وہ اس وقت متاثرین کو ہر ممکن دست تعاون پیش کریں۔ ریاست جموں
وکشمیر کے ہر شہری کیلئے یہ آزمائش کی گھڑی ہے ، آج اگر ہمارا پڑوسی مصیبت
سے دوچار ہے، کھلے آسمان تلے بے یارومددگا راتیں گذارنے پر مجبور ہے تو کل
ہم بھی اس کے شکارہوسکتے ہیں۔اس وقت وادی کشمیرکی انتہائی خوفناک صورتحال
سے نمٹنے کےلئے بیس ہزارفوجی جوان مصروف ہیں ۔چندروزقبل سابق مرکزی وزیرصحت
غلام نبی آزادنے پریس کانفرنس کے دوران ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ
بات کرتے ہوئے مرکزی سرکارکے ابتدائی تعاون کوسراہاتھااوراس وقت تمام
سیاستدانوں سے اپیل کی تھی کہ وہ اس مصیبت کی گھڑی میں سیاست نہ کریں ۔انہوں
نے کہاتھاکہ اگر20ہزارسے بڑھاکر80ہزارتک فوجی جوانوں کواور20ہیلی کاپٹروں
کی تعدادکو50 کیاجائے توبچاﺅوراحت کاری کے کام میں لگایاجائے تبھی زیادہ سے
زیادہ انسانی جانیں بچ سکتی ہیں اوراگرافرادی قوت اورہیلی کاپٹروں کی
تعداداتنی ہی رہی تواموات کی تعدادناقابل بیان ہوجائے گی اورحالات نہایت ہی
سنگین ہوجائیں گے۔انہوں نے مرکزی سرکارسے اپیل کی تھی کہ وہ کشمیرمیں
انسانی جانوں کوبچانے کےلئے زیادہ سے زیادہ امدادفراہم کریں۔بتایاجاتاہے کہ
ابھی وادی کے کچھ علاقوں میں پانی کی سطح آہستہ آہستہ کم ہورہی ہے جوکہ
اچھی خبرہے۔اللہ تعالیٰ سے دُعاکرتاہوں کہ سیلاب میں پھنسے لوگوں کومحفوظ
فرمااوراس سیلاب کی زدمیں آکرموت کی آغوش میں چلے جانے والے افرادکے
لواحقین کوصبروجمیل عطافرما۔آمین۔ |