زندگی کا تحفط

زندگی خُدا کا عطا کردہ انمول تحفہ ہے اور یہ انمول تحفہ خُدا کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔اور اس زندگی کا تحفظ کرنا ہم پر فرض ہے پھر ہم جس بھی حال میں بھی ہوں زندگی کا تحفظ ہم پر فرض ہے۔لیکن اگر آج کے اس تیز ترین دور کو دیکھا جائے توانتہائی دُکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان کو دوسرے کی کوئی پروا نہیں ہے ۔آج اگر کوئی بھوک سے مر رہا ہے تو اُس کی بھوک مٹانے والا کوئی نہیں لیکن گلہ گھونٹ کر مارنے والے بہت ہیں۔

انسان کوـ’’ اشرف المخلوقات ‘‘کیوں کہا جاتا ہے؟
انسان کوـ’’ اشرف المخلوقات ‘‘اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ دنیامیں پائے جانے والی تمام مخلوقات میں سب سے’’ افضل مخلوق‘‘ ہے۔یقیناََجو انسان سوچ سکتا ہے وہ کوئی اور مخلوق نہیں سوچ سکتی! تو پھر آج کیوں انسان ، انسان کا دشمن ہو گیا ہے؟ کیوں ایک انسان دوسرے کو مار رہا ہے؟ کیوں ایک انسان دوسرے کا حق چھین رہا ہے؟ ہم کسی کا حق اُسے دینے کی بجائے اُس کو دھوکہ دے رہے ہیں ۔ہم انصاف کی بجائے نا انصافی پر تولے ہوئے ہیں۔

تہذیب وتمدن کے پیمانے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر وقت کی ناقدری کا گلہ کر رہے ہیں ہم زوال کی آخری حدوں کے بھی آخر میں پہنچ چُکے ہیں ۔ہر طرف سے یہی صدائیں سنائی دے رہی ہیں بھوک ،انصاف ،حق۔۔۔۔۔۔۔۔۔زندگی کے بارے میں صدف غوری صاحبہ نے کیا خوب لکھا ہے:۔
زندگی کی یہ سحر ہے اور ہم
کیف کی اک رہ گزر ہے اور ہم
چاہتوں کے بن گئے ہیں کارواں
کارواں اک ہمسفر ہے اور ہم
بخشی ہے عشق نے آسودگی
رونقِ ہر بام ہے اور ہم
آرزؤں کے نگر میں آگئے
آرزؤں کا نگر ہے اور ہم
؂اپنے حصے کی مسفت کرچکے
پھر صدف کیوں یہ ڈگر ہے اور ہم

آج کے اس معاشرے میں زندگی گزارنا بہت مشکل ہوگیا ہے جیسے وقت گزرتا چلا جارہا ہے ویسے زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔سانس لینا بھی مشکل ،ضروریاتِ زندگی کی اشیاء خریدنا بھی مشکل،بچوں کا پیٹ پالنا بھی مشکل۔۔۔۔ غریب غریب سے غریب تر ہوتا چلا جا رہا ہے زندگی کو تحفظ دینے والے لمبی تان کر سو رہے ہیں درد مند انسان اپنی مدد آپ کے تحت زندگی کے بچے کچھے دن کاٹ رہا ہے۔

آج کے اس دور میں ہم کسی کا تحفظ کرنا پسند ہی نہیں کرتے بلکہ ایک شریف انسان کو ناانصافی کے ذریعے بُرا بنا دیتے ہیں۔یہ بات بلکل سچ ہے کہ جب کسی مظلوم کو انصاف نہیں ملتا تو وہ برائی کا راستہ اختیار کر لیتا ہے اور ہر وہ کام کرتا ہے جو اُس کی شخصیت کے بالکل خلاف ہوتا ہے۔

اگر ہم زندگی کا تحفظ چاہتے ہیں تو ہمیں ایک ساتھ رہنا ہو گا ۔قدم سے قدم ملا کے چلنا ہو گا ۔اس معاشرے میں امن کے ساتھ رہنا ہو گا ۔۔ ضرورت کے وقت ایک دوسرے کے کام آنا ہو گا ۔انا پرستی چھوڑنی ہو گی۔ایک دوسرے ک دکھ درد میں شامل ہونا ہوگا،کمزور کو طاقتور سے انصاف دلانا ہو گا ۔کسی دوسرے کے درد کو اپنا درد سمجھنا ہو گا۔پھر ہی ہم زندگی کو تحفظ دے پائیں گے۔بس آخرمیں یہی کہونگا کہ زندگی اور موت پر ہمارا یقین ہے یہ زندگی ایک بار میل ہے پھر نہیں ملے گی تو ہمین چاہیے کہ زندگی کا جو حصہ بچ گیا ہے اس کو خدا کی مخلوق کیلئے وقف کر دیں تاکہ بہت سی زندگیوں کو تحفظ مل سکے۔
ShahRoz Raza Rai
About the Author: ShahRoz Raza Rai Read More Articles by ShahRoz Raza Rai: 3 Articles with 3261 views RAdio Jockey, Voice Over Artist, Journalist, Poet, Artist, Singer, Advertiser , Sketcher, Am I...? :) Just A Spirit Flowing In The Universe......!
In
.. View More