بھارت کی مرکزی ریاست مدھیہ پردیش کے دیہی علاقےدکاچیہ
میں تقریباً دو سو دیہاتیوں نے مقامی مندر میں رہنے والے ایک بندر کی موت
کے غم میں اپنے سر منڈوا دیے ہیں۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق بندر کی موت ایک تالاب میں ڈوب جانے کی وجہ سے
ہوئی جب وہ کچھ کتوں سے اپنا پیچھا چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا۔
|
|
اس خوف سے کہ بندر کی موت ان کے لیے بدقسمتی لا سکتی ہے، دیہاتیوں نے ہندو
رسومات کے مطابق بندر کی لاش کو جلا دیا۔ اس موقع پر 700 دوسرے لوگوں نے
بھی اپنے سر منڈوائے۔
ہندو رسم و رواج کے مطابق بندروں کو مقدس سمجھا جاتا ہے اور بھارت بھر میں
بندر دیوتا یعنی ہنومان کے لیے مندر کھڑے کیے جاتے ہیں۔
ہنومان کو عام طور پر ایک انسانی جسم کے ساتھ دکھایا جاتا ہے، جس کے ساتھ
بندر کا سرخ چہرہ اور ایک دم ہوتی ہے۔ ہنومان کے پیروکاروں کا یقین ہے کہ
ان کی عبادت کرنے سے وہ کسی بھی خوف یا خطرے سے محفوظ رہتے ہیں۔
مقامی رہائشی متھن پٹیل کا کہنا تھا کہ مرا ہوا بندر دکاچیہ کے علاقے میں
کے مندر میں رہنے والے دو بندروں میں سے تھا۔
|
|
بندر دو ستمبر کو ڈوبا تھا اور اس کی لاش دیہاتیوں نے اگلے دن دریافت کی۔
متھن نے کہا کہ ’گاؤں کے بزرگوں نے کہا کہ گاؤں کے اندر بندر کا مرنا برا
شگون ہے ۔ ہمیں ڈر تھا کہ کہیں ہم پر کوئی بدقسمتی یا قدرتی آفت نہ آجائے۔
اس لیے ہم نے بندر کی روح کو مطمئن کرنے کے لیے اس کو جلانے کا فیصلہ کیا
تا کہ ہمارا گاؤں کسی بھی قسم کی آفت سے بچ جائے۔‘
بندر کو جلانے کے بعد، مقامی مردوں نے سوگ کی علامت کے طور پر اپنے سر اور
داڑھیاں منڈوا دیں۔
کچھ دیہاتیوں نے ہندوؤں کے مقدس علاقے ’ہردوار‘ کا سفر کیا جہاں انھوں نے
بندر کی راکھ کو مقدس دریائے گنگا میں غرق کیا۔
متھن کا کہنا تھا کہ روایتوں کے مطابق بندر کی روح کے لیے دعا کرنے کے
11ویں دن کو اتوار کو رکھا گیا تاکہ بچے بھی شرکت کر سکیں۔
|
|
چار قریبی دیہاتی علاقوں سے ہزاروں لوگوں نے بھی دعا اور کھانے میں شرکت کی،
جس کا انتظام کرنے کے لیے 2,456 ڈالر خرچ کیے گئے۔
متھن کا کہنا تھا کہ دعا اور کھانے کا خرچ گاؤں والوں کی مہربانی سے ہی
ممکن ہوا۔ |