لا قانونیت کے لئے جنگل کی مثال دی جاتی ہے۔ وہ جگہ جہاں جانور ایک دوسرے پر ظلم
اور بربریت کرنے کے لئے موقعہ کی تلاش میں رہتے ہیں تو ایسوں کا سردار وہی ہو سکتا
ہے جو ان میں سب سے زیادہ طاقتور، ظالم اور درندہ ہو۔ شیر کو جنگل کا بادشاہ ان ہی
خصوصیات کی بنا پر کہا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ جانور کی ضد انسان کہلاتا ہے۔ آئیے ذرا انسان
اور جانور کی خصلتوں کا جائزہ لیتے ہیں اس کے لئے ہم جانوروں کے حاکم اور انسانوں
کے حاکموں کا موازنہ کریں گے
جانوروں کا بادشاہ دوسرے جانوروں کو اپنا غلام نہیں بناتا- وہ اپنی مرضی سے جینے کا
حق رکھتے ہیں ۔ ۔ ۔ انسانوں کے حاکم مختلف قسم کے قوانین بنا کر دوسرے انسانوں کو
اپنا غلام بناتے ہیں
شیر اپنی زندگی قائم رکھنے کے لئے ہی دوسرے جانوروں کا شکار کرتا ہے اور جب پیٹ
بھرا ہو تو کسی کو بلا وجہ کچھ نہیں کہتا ۔ ۔ ۔ انسانوں کے حاکم اپنی طاقت‘ دولت
اور سلطنت میں اضافہ کرنے کے لئے معصوم انسانوں کا بے دریغ خون بہاتے ہیں
شیر قدرتی وسائل پہ قبضہ جما کر دوسرے کمزور جانوروں کو ان کے حق سے محروم نہیں
کرتا ۔ ۔ ۔ انسانوں کے حاکم نہ صرف اپنے ملک کے قدرتی وسائل کو اپنی ذاتی ملکیت
سمجھتے ہیں بلکہ بہتوں کی خواہش ہے کہ ساری دنیا کے وسائل پہ قبضہ کرکے عام انسانوں
کا استحصال کریں اور اسی کے لئے دنیا میں ایک جنگ کی کیفیت ہے جس میں جگہ جگہ بے
گناہ انسانوں کا خون بہہ رہا ہے۔
انسان کی فطرت اور ان حقائق کی روشنی میں یہ کیسے ممکن ہے کہ طاقتور انسان‘ انسانی
معاشروں میں عام انسان کی فلاح و بہبود کے لئے قوانین بنائیں۔ ایسے قوانین جو ان کے
مفادات سے ٹکرائیں۔ عام انسان یعنی پوری انسانیت کے لئے فلاحی قوانین وہی بنا سکتا
ہے جس کے مفادات انسانی مفادات سے نہ ٹکراتے ہوں اور وہ ذات وہی ہو سکتی ہے جو
انسانی فطرت اور اس کی ضروریات سے خوب واقف ہو اور وہ ایک ہی ذات ہے۔ ربِ کائینات
کی ذات جو انسان کی خالق بھی ہے۔ جس نے انسان کو پیدا کیا اس سے بڑھ کر انسانی فلاح
کے لئے قانون کون بنا سکتا ہے۔ نہ جانے مسلمان یہ بات کیوں نہیں سمجھتے اور مغرب کی
نقالی اور ان کے ایما پر جمہوریت میں اپنی فلاح ڈھونڈ رہے ہیں۔
ہو شفافیت
فلاحی معاشرہ
لاؤ شریعت |