غربا اور مساکین
(Md Jahangir Hasan Misbahi, New Delhi)
اگرہم اپنی خوشی کی محفلوںمیں
صرف مالداروں کوشامل کریں اور غرباو مساکین کونظرانداز کردیں،تو ہمارایہ
عمل اللہ ورسول کے نزدیک پسندیدہ نہیں
اللہ تعالیٰ کے نزدیک مالداراورمحتاج سب برابر ہیں۔ کیوں کہ اُس کا کوئی
بھی بندہ اُس کےانعام سے محروم نہیں،بلکہ اُس کےہربندے کوحاجت وضرورت کے
مطابق انعامات الٰہیہ سےخاطرخواہ حصہ مل رہاہے۔ ہم ذیل میں کچھ ایسی احادیث
پیش کررہے ہیں جو غربااورمساکین کے ساتھ نیک سلوک اور خیرخواہی کرنے کی
ترغیب دیتی ہیں:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے ارشادفرمایا:
إِنَّ فُقَرَاءَ الْمُسْلِمِيْنَ أَوِالْمُهَاجِرِيْنَ يَدْخُلُوْنَ
الْجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِيَائِهِمْ، بِمِقْدَارِ خَمْسِ مِأَةِ
سَنَةٍ۔(سنن ابن ماجہ ،باب منزلۃ الفقراء)
ترجمہ:محتاج مسلمان،یامحتاج مہاجرین مالداروں سے پانچ سو سال پہلےجنت میں
داخل ہوں گے ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
فرماتے ہیں:
احْتَجَّتِ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ،قَالَتِ النَّارُ: يَلِجُنِي
الْجَبَّارُونَ، وَيَلِجُنِي الْمُتَكَبِّرُونَ، وَقَالَتِ الْجَنَّةُ:
يَلِجُنِي الضُّعَفَاءُ، وَيَلِجُنِي الْفُقَرَاءُ،قَالَ اللهُ تَبَارَكَ
وَتَعَالى لِلْجَنَّةِ: أَنْتِ رَحْمَتِي أَرْحَمُ بِكِ مَنْ أَشَاءُ،
ثُمَّ قَالَ لِلنَّارِ: أَنْتِ عَذَابِي أُعَذِّبُ بِكِ مَنْ
أَشَاءُ۔(الادب المفرد،باب الکبر(
ترجمہ:جنت اور جہنم نےآپس میں احتجاج کیا،توجہنم نے کہا کہ مجھ میں ظالم
اورگھمنڈی لوگ داخل ہوں گے اور جنت نے کہا کہ مجھ میں کمزوراور محتاج لوگ
داخل ہوں گے ۔ اس پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے جنت سےفرمایاکہ تو میری رحمت ہے،
جس پر میں چاہوں تمہارے ذریعے رحم کروں گا،پھرجہنم سے فرمایاکہ تو میرا
عذاب ہے،جس کو میں چاہوں تمہارے ذریعے عذاب دوں گا۔
اس حدیث پاک سے دوباتیں معلوم ہوتی ہیں:
۱۔کمزوروں اورمحتاجوں کے ساتھ خیرخواہی کرنے سے جنت ملتی ہے اور اُن کے
ساتھ خیرخواہی کرنے والے اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت وعنایت کے حقدارہوتےہیں۔
۲۔ظلم اورگھمنڈجہنم کی طرف لے جاتا ہےاور ظالم و گھمنڈی پر اللہ تعالیٰ
کاسخت غضب نازل ہوتاہے۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم ارشادفرماتے ہیں:
اطَّلَعْتُ فِي الجَنَّةِ فَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَهْلِهَا
الفُقَرَاءَ۔(سنن ترمذی،باب اکثراہل النار)
ترجمہ:میں نے جنت کو دیکھاتو اُس میں کثرت سے محتاجوں کو پایا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کاارشادہے:
وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَأَخْفَاهَا،حَتّٰى لاَ تَعْلَمَ شِمَالُهٗ
مَا صَنَعَتْ يَمِينُهٗ، وَقَوْلِهٖ:إِنْ تُبْدُواالصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا
هِيَ، وَإِنْ تُخْفُوْهَا وَتُؤْتُوْهَا الفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ۳۷
(بقرہ) (صحیح بخاری،باب صدقۃ السر)
ترجمہ:اگرکوئی شخص کچھ صدقہ کرے تو اُس کو اِس قدر چھپائے کہ اُس کا
داہناہاتھ یہ نہ جان پائےکہ اُس کے بائیں ہاتھ نے کیا کیا۔ اللہ تعالیٰ کا
ارشادہے کہ اگر تم صدقہ وخیرات کرو تو یہ نیک عمل ہے اوراگر تم اپنے صدقہ
کو چھپاکرمحتاجوں کو دو تو یہ تمہارے حق میں زیادہ بہترہے۔
یہاں پوشیدہ طورپر صدقات وخیرات دینے کی جو بات کہی گئی ہے ،اُس کےدواسباب
ہیں:
۱۔ صدقہ لینے والوں کو کسی خفت وشرمندگی کاسامنانہ کرنا پڑے ، کیوں کہ بہت
سے محتاج ومسکین ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں صدقات وخیرات کی حاجت تو ہوتی ہے
لیکن وہ اعلانیہ طورپر صدقات وخیرات لینے میں جھجھک محسوس کرتے ہیں ۔
۲۔ممکن ہے کہ صدقات وخیرات دینے والے کبرو غرور میں مبتلا ہوجائیں اور وہ
صدقات وخیرات جو نیک نیت کے ساتھ دیے گئے ہیں اَکارت ہوجائیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،وہ کہا کرتے تھے کہ :شَرُّ
الطَّعَامِ طَعَامُ الوَلِيمَةِ، يُدْعَى لَهَا الأَغْنِيَاءُ وَيُتْرَكُ
الفُقَرَاءُ۔)صحیح بخاری، با ب من ترک الدعوۃفقدعصی اللہ ورسولہ)
ترجمہ:سب سے برا کھانا اس ولیمے کا کھاناہے جس میں مالداروں کو بلایاجائے
اور فقراکو چھوڑدیاجائے۔
دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہاجاسکتاہے کہ اگرہم اپنی خوشی کی محفلوںمیں صرف
مالداروں کوشامل کریں اورغرباومساکین اورمحتاجوں کونظرانداز کردیں، تو
ہمارایہ عمل اللہ ورسول کے نزدیک پسندیدہ نہیں۔
حضرت عبداللہ ابن عمررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ
خیبرمیں مال غنیمت پانے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے
اور اس مال کے بارے میں آگاہ کیا،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنْ شِئْتَ تَصَدَّقْتَ بِهَا،فَتَصَدَّقَ بِهَا فِي الفُقَرَاءِ
وَالمَسَاكِيْنِ وَذِي القُرْبٰى وَالضَّيْفِ۔(صحیح بخاری،باب الوقف للغنی
والفقیروالضیف)
ترجمہ:اگرتم اُس کو صدقہ کرناچاہتے ہوتویہ مال فقرا، مساکین،رشتےدار اور
مہمان کے درمیان صدقہ کرو ۔
حضرت عبداللہ ابن عمررضی اللہ عنہ کابیان ہے:
فَتَصَدَّقَ بِهَا عُمَرُ فِي الْفُقَرَاءِ، وَالْقُرْبٰى، وَالرِّقَابِ،
وَفِي سَبِيلِ۔(مسنداحمد،عبداللہ ابن عمر)
یعنی حضرت عمرنے اُس مال غنیمت کومحتاجوں،رشتےدار، غلام آزادکرانے اور
اللہ کی راہ میں صدقہ کردیا۔
غرض کہ زندگی کے ہر موڑپرہمیں غریبوں اورمحتاجوں کی حاجت کاخیال
رکھناچاہیے،لیکن بالخصوص شادی بیاہ جیسی محفلوں اورتقاریب کے مواقع پر
محتاجوں اور مسکینوں تک صدقات وخیرات پہنچانابطورِخاص ضروری ہے ، تا کہ
انھیں اپنی محتاجی اور کم مائیگی کا احساس نہ ہو،اوروہ بھی اپنے اہل وعیال
کے ساتھ شادی بیاہ جیسی محفلوںاورتقاریب سے لطف اندوز ہوسکیں۔کیوںکہ ایسا
کرنےسےنہ صرف ملک وملت اور سماج ومعاشرے میں غرباپروری کا رجحان بڑھے گا
بلکہ دینی اور اصلاحی تقاضے بھی پورے ہوں گے۔(مدیرماہنامہ خضرراہ الہ
آباد) |
|