(3) حضرت صالح علیہ السلام سے
منسوب اونٹنی کی یاد:-
روایات سے یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ اللہ کے برگزیدہ نبی اور پیغمبر سے نسبت
کی برکت ہمیشہ قائم رہنے والی ہے، اور ایسی نسبتوں کے ادب اور ان سے حصولِ
برکت کا درس خود آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِرشادات سے
ثابت ہے۔ ذہن نشین رہے کہ یہاں جس کنویں کی بات ہو رہی ہے اُس سے حضرت صالح
علیہ السلام کی اونٹنی پانی پیتی تھی، خود حضرت صالح علیہ السلام کا اس
کنویں سے پانی پینا مذکور نہیں۔ یہ واقعہ گزرے ہزاروں سال بیت گئے، خدا
جانے اس دوران میں پانی کتنا بدل گیا ہوگا، اور اونٹنی کا بچا ہوا پانی رہا
بھی ہوگا یا نہیں، مگر محض پیغمبر سے منسوب اونٹنی کی نسبت اس قدر اہم ہے
کہ ایک طویل زمانہ گزرنے کے بعد بھی اس کے تصور میں پانی کا ادب اور اس کی
برکت اسی طرح قائم ہے۔
(4) قومِ ثمود پر عذاب کے تصور سے کیفیاتِ غم وارِد کرنے کا حکم:-
غزوۂ تبوک کے موقع پر قومِ ثمود کو گزرے ہزاروں برس بیت چکے تھے، اب وادئ
حجر میں عذاب نازل ہو رہا تھا نہ کافروں کی اُس بستی اور اُس نسل میں سے
کوئی وہاں تھا جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی نشانی حضرت صالح علیہ السلام کی
اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالی تھیں۔ لیکن جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم اِس بستی کے قریب پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ رضی
اللہ عنھم کو اُس قوم کے گھروں میں داخل ہونے سے منع کر دیا اور فرمایا کہ
وہ اس عذاب والی بستی سے روتے، گڑگڑاتے اور آہ و بکاء کرتے ہوئے گزریں۔
گویا وہاں اب بھی عذاب نازل ہو رہا ہے۔
1. حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لا تدخلوا مساکن الذين ظلموا أنفسهم إلا أن تکونوا باکين، أن يصيبکم مثل ما
أصابهم.
’’جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، ان کے گھروں میں داخل نہ ہو مگر
روتے ہوئے، مبادا جو مصیبت اُن پر آئی وہ تمہارے اوپر بھی آجائے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول اﷲ : وإلي ثمود أخاهم صالحا، 3 :
1237، رقم : 3200، 3201
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزهد، باب لاتدخلوا مساکن الذين ظلموا أنفسهم، 4 :
2285، 2286، رقم : 2980
3. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 96
4. ابن حبان، الصحيح، 14 : 80، رقم : 6199
5. روياني، المسند، 2 : 407، رقم : 1409
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان اس بدبخت قوم کی جائے
سکونت کے بارے میں تھا، جن پر اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے عذاب نازل ہوا
تھا۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو
تلقین فرمائی کہ وہ اس بستی سے روتے ہوئے گزر جائیں۔ اس سے حضور نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ذریعے امت کو
نصیحت فرمائی کہ تمہیں گزشتہ قوموں کے ساتھ ہونے والے واقعاتِ عذاب یاد کر
کے اپنے اوپر کیفیتِ غم اور حالتِ گریہ و زاری طاری کر لینی چاہیے اور ایک
نفسیاتی فضا قائم کر کے اﷲ تعالیٰ کے حضور عاجزی سے گڑگڑانا چاہئے تاکہ وہ
عذاب جو سابقہ نافرمان قوموں پر آیا تم پر نازل نہ ہو۔ یہ حدیثِ مبارکہ
اُمت کو یہی تعلیم دے رہی ہے۔ اگرچہ بظاہر کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی تھی
اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجودِ مسعود کے باعث کسی
عذاب کا کوئی امکان نہ تھا پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ
کرام رضی اللہ عنھم کو ایسے غم انگیز جذبات، اِحساسات اور کیفیات پیدا کرنے
کی تلقین فرمائی۔ اس سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام
میں غم و اندوہ کی وہ کیفیات جاگزیں دیکھنا چاہتے تھے جن سے وہ قومیں دوچار
ہوئیں۔
یہ مضمون قلب و روح کے جذبات و محسوسات سے متعلق ہے۔ امام مسلم نے یہ روایت
’’الصحيح‘‘ کی کتاب الزھد والرقائق میں درج کی ہے جس کے ذریعے وہ یہ پیغام
دینا چاہتے ہیں کہ یہ حدیث ان اعمال و افعال کی انجام دہی اور بجا آوری کی
بنیاد ہے جن کے روحانی اثرات دل اور روح پر مرتب ہوتے ہیں۔ اس نوع کے
واقعات کا ذکر کر کے قلب و باطن کے اندر وہ خاص کیفیات و محسوسات اور جذبات
پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے جو روحانی طور پر زندگی بدل دیں۔ اگر ایسے واقعات
روح اور من کی دنیا پر اثر انداز نہیں ہوتے اور ان کا کوئی نفسیاتی اور
روحانی فائدہ نہ ہوتا تو پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیا
ضرورت تھی کہ آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے قلب و باطن اور روح کو اس قسم
کے احساس سے آشنا فرماتے، پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں
اس قسم کا حکم اِرشاد نہ فرماتے جس میں قلب و باطن کی تطہیر و تہذیب اور
اثرپذیری کی کوئی صورت نہیں تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم
دینے کا مطلب ہی یہ ہے کہ یہ کیفیات لازماً دل اور روح پر اثرات مرتب کرتی
ہیں۔
2. حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے ہی روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لا تدخلوا علي هؤلاء المعذبين إلا أن تکونوا باکين، فإن لم تکونوا باکين
فلا تدخلوا عليهم، لايصيبکم ما أصابهم.
’’تم ان عذاب زدہ لوگوں پر روتے ہوئے گزرا کرو۔ پس اگر تمہاری رونے کی حالت
نہ ہو تو ان پر نہ گزرو، مبادا جس مصیبت سے وہ دو چار ہوئے تھے تمہیں بھی
پہنچ جائے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب المساجد، باب الصلاة في مواضع الخسف والعذاب، 1 :
167، رقم : 423
2. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب نزول النبي صلي الله عليه وآله وسلم
الحجر، 4 : 1609، رقم : 4158
3. مسلم، الصحيح، کتاب الزهد، باب لاتدخلوا مساکن الذين ظلموا أنفسهم، 4 :
2285، رقم : 2980
4. بيهقي، السنن الکبري، 2 : 451
5. عبد بن حميد، المسند، 1 : 255، رقم : 798
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عذاب یافتہ قومِ ثمود کی بستی
اور مکانات میں داخل ہونے سے اِس طرح منع فرمایا جیسے قومِ ثمود اب بھی
وہاں سکونت پذیر ہو اور صحابہ ان کے گھروں میں داخل ہونے جا رہے ہیں۔ اِس
لیے اس قوم کا تصور کر کے ان کی بستی میں داخل ہونے سے منع فرما دیا کیوں
کہ اس قوم کے افراد کو حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کونچیں کاٹ کر
موت کے گھاٹ اتارنے کے جرم کی پاداش میں عذابِ خداوندی کا نشانہ بننا پڑا
تھا۔ اگرچہ اِس واقعہ کو گزرے صدیاں بیت چکی تھیں لیکن حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو اُس عذاب و عتابِ
اِلہی کا تصور ذہن میں لاکر خوف و خشیت کی کیفیت پیدا کرنے کا حکم دیا تاکہ
وہ اپنے دل و دماغ پر وہی کیفیت طاری کرکے اُس بستی سے روتے ہوئے گزریں۔
اور اگر وہ رونے کی کیفیت طاری نہ کر سکیں تو وادئ ثمود میں داخل ہی نہ
ہوں۔
3۔ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا کہ جنہیں رونا نہ آئے وہ کیا
کریں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
فإن لم تبکوا فتباکوا، خَشْيَةَ أن يصيبکم مثل ما أصابهم.
’’اگر تمہیں رونا نہ آئے تو رونے کی کیفیت اپنے اوپر طاری کرلو، اِس ڈر سے
کہ جو مصیبت اُن پر آئی تم پر نہ آجائے۔‘‘
1. ابن کثير، البداية و النهاية، 1 : 138
2. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 557
3. عسقلاني، فتح الباري، 6 : 380
پس بہتر تو یہی ہے کہ گریہ وزاری سے کام لیا جائے، تاہم اگر کسی پر یہ
کیفیت طاری نہیں ہوتی تو وہ اپنے اوپر رونے کی حالت طاری کرلے یعنی اپنی
شکل ہی رونے والی بنالے۔ اصل مقصود یہ تھا کہ ہر کوئی اُس عذاب کا تصور کر
کے اپنے اوپر خوف و خشیتِ الٰہی کی کیفیت طاری کر کے اللہ تعالیٰ کے حضور
گڑگڑائے، اُس کے عذاب سے پناہ مانگے۔ |