حج اسلامی نظام عبادات میں تن تنہا ایک
ایسا فریضہ ہے جس میں روحانی ،اخلاقی سیاسی ، سماجی جیسے منافع وبرکات بیک
وقت پائے جاتے ہیں ،دنیا کی وہ تمام سعید روحیں جنہوں نے حضرت ابراہیم
السلام کی صدا پر لبیک کہاتھا آج وہ خانہ کعبہ کا رخ کررہی ہیں۔ دنیا میں
بے شمار اجتماع گاہ ، سیر وسیاحت کے اڈے ، اور عبادتی مقامات ہیں مگر جو
خصوصیت واہمیت ، عظمت وفضیلت ،آفاقیت وشہرت اور عزت وروحانیت حضرت ابراہیم
علیہ السلام کے دست اقدس سے بنے ہوئے حج کعبہ کو حاصل ہے عالمی تہذیبیں اس
کی نظر نہیں پیش کر سکتی ، بقول اقبال
تہی وحدت سے ہے اندیشۂ غرب کہ تہذیب فرنگی بے حرم ہے
عرب کے سوز میں ساز عجم ہے حرم کا راز تو حید امم ہے
حج اصلاح وتربیت ، عجزوانکساری ، نخوت وتکبر سے تخلی ، اور اظہار بندگی کا
ایک عظیم ذریعہ ہے لہذا ایک حاجی جب احرام کی دو چادریں پہنتا ہے تو وہ
بندگی وسرافند گی کی اس دہلیز پر قدم رکھ دیتا ہے جہاں سے خودی مٹ جاتی ہے
اور بے خودی شروع ہو جاتی ہے ، وہ لباس فاخرہ ، آسائش تعیش ، سامان زیب و
زینت حصول اموال کی سعی ، شہرت دنا موری کی فکر ،قیادت و منصب کی آرزو اور
سیاسی وسماجی مقام سے لا پرواہ ہوکر سادگی وروحانی ،عجزوبے نیازی اور عشق
ومحبت کی وارفنگی میں گم ہوجاتا ہے ،اس کے پیش نظر اپنی جاہ حشمت اور
علومرتبہ کے بجائے خدائے پاک کا جلال وجمال اور ان کی رضا خوشنودی مقصود
ہوتی ہے ۔
حاجی کو ارکان حج کی ادائیگی میں جہاں پروردگار عالم کی رضا وخوشنودی اور
آخرت کی لازوال نعمتیں میسر ہوتی ہیں وہیں ایک پرا ثر اور شعور انگیز پیغام
بھی ملتا ہے جسے ایک حاجی اچھی طرح محسوس کرتا ہے ۔
چنانچہ حاجی جب رکن طواف کرتا ہے تو وہ اس حقیقت کا ادراک کرتا ہے کہ دنیا
کے سارے لوگ اپنے مفادات ، اپنی ضروریات اپنے اہل وعیال اور مال ومتاع کی
خاطر چکر لگاتے ہیں یہاں تک اس کی عمرپوری ہوجاتی ہے گردش تمام نہیں ہوتی
،لیکن کعبہ کے ارد گرد لگایا جانے ولا یہ چکر دنیا وی مصروفیات اور قلبی
خواہشات کے بجائے محض اﷲ کی رضا اور تقرب الی اﷲ کے لیے ہوتا ہے ۔ اسی طرح
جب رکن سعی الی الصفا والمروہ ادا کرتا ہے تو اس کے نہاں خانہ دل میں
موجودبئر زمزم کاوہ واقعہ چٹکیاں لینے لگتا ہے جو ایک معصوم خاتون حضرت
ہاجرہ رضی اﷲ تعالی عنہا اور لخت جگر شیر خوار حضرت اسماعیل علیہ السلام کی
سبق آموز داستان پر مشتمل ہے ۔حج کارکن اعظم وقوف عرفہ ہے ، جب حاجی وہاں
پہنچتا ہے اور طلوع شمس سے لے کر غروب آفتاب تک ٹھہر تا ہے ، انوار وتجلیات
اور رحمتوں کی برسات سے اپنے دل کو منور کرلیتا ہے اپنے میل کچیل اور قلبی
آلائشوں کو توبہ واستغفار کے پانی سے دھولیتا ہے تو اسے طبعی سرور اور قلبی
سکون حاصل ہوتا ہے ، پھر مسجد نمرہ کے امام کی زبانی سرکار دوعالم صلی اﷲ
علیہ وسلم کا وہ عالم گیر خطبہ سنتا ہے جو حقوق انسانی کی حفاظت کے لیے
عالمی منشور ہے ، آج دنیا میں طاقتور کے حقوق کی پاسبانی ہورہی ہے اور
کمزور کے حقوق تلف ہورہے ، نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس ظالمانہ رواج
کے خلاف آج سے چودہ صدی قبل ہی اپنا آفاتی پیغام سنادیا تھا۔
’’سنو!تمہارا خون ، تمہارا مال اور تمہاری عزت وآبرو ایک دوسرے پر اسی طرح
حرام ہیں جس طرح آج کامقدس دن، یہ مہینہ اور اس شہر مکہ میں تم ایک دوسرے
پہ حرام ہو ۔ تم میں سے جو لوگ موجود ہیں وہ پیغام ان لوگوں تک پہنچادیں
جوموجود نہیں ہیں‘‘ (بخاری کتاب العلم ،بحوالہ سفر حجاز)۔
اگر آج کے حکمران عالم آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کے اس کلیدی خطاب پر عمل پیرا
ہوتے ہوئے حکومت کی باگ ڈور سنبھالیں تو حقوق انسانی کی پاسداری کے لیے کسی
عالمی تحریک کی ضرورت پڑے گی ، نہ کسی کانفرنس کی ، اورنہ ہی دہشت گردی کے
اس قدر واقعات رونماہوں گے ، جس کی زد میں آج دنیا کے تقریبا سبھی ممالک
شامل ہیں ۔ حاجی وقوف عرفہ کے بعد مزدلفہ پہاڑی کی چکر لگاتاہے ۔ جہاں
بارگاہ ایزدی میں گریہ وزاری کرکے اپنے سینے سے جراثیم کو نکالتا ہے اور
انوار وتجلیات سے اپنے قلب کو معمور کرتا ہے ، پھررمی جمارکرتا ہے جسے حضرت
ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ پیش آئے واقعہ کی یاددہانی تو کہا جاسکتا ہے
لیکن اس کارد عمل نہیں ، البتہ یہ اپنی زندگی میں پیش آنے والے شیطانی
وساوئس کا رد عمل ضرور ہے ۔ حاجی کو صبح وشام ، رات ودن ،بیداری ونوم اور
قیام وقعود سبھی حکم خداوندی کی تعمیل میں ہی گزرتی ہے ، جس میں عشق کی لذت
اور محبت کا سرورملتا ہے ، اور یہی مدینے کے مسافر کا اصل سرمایہ ہے ۔ |