سوئے حرم کے راہی ۔۔۔ یاد رکھنا
(محمد کلیم اللہ , sargodha)
مولانا محمد الیاس گھمن
امیر عالمی اتحاد اہل السنت والجماعت
کتنی خوش نصیبی ہے کہ اس ذات نے اپنے گھر اور اپنے محبوب صلی اللہ علیہ
وسلم کے در کی زیارت کا موقع عطا فرمایا ۔ ہزارہا گناہوں میں لتھڑے لاکھوں
لوگ رنگ ، نسل ،قوم قبیلہ ، برادری ، زبان وغیرہ کے فرق کو مٹا کر دیوانہ
وار ، ژولیدہ مو ، بے خودی کے عالم میں احرام کی چادروں میں اپنے عصیاں کی
گٹھڑیاں چھپائے برستی آنکھوں اور لرزتے ہونٹوں کے ساتھ زبان کو یوں جنبش دے
رہے ہوتے ہیں :لبیک اللھم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک
والملک لاشریک لک
کعبۃ اللہ پر برسنے والی ذوالجلال کی جلالی تجلیاں ، کسی کی آنکھ کو اوپر
کہاں اٹھنے دیتی ہیں ، انسانوں کا ہجوم اپنے گناہوں کے اعتراف کے ساتھ سچے
دل سے معافی کے خواستگاربن کر عرق ندامت میں غوطہ زن ہوتا ہے ۔ جسم کی ایک
ایک روں اپنے مالک، خالق اور رب کے سامنے جھکی ہوئی ہوتی ہے ۔ ماضی میں
سرزد ہوئے سارے گناہ عقل و یادداشت کی پردے پر ابھر رہے ہوتے ہیں ، خدا کی
نافرمانیاں ، اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں اور طرزِ زندگی سے
دوری کا انجام دکھائی دے رہا ہوتا ہے ۔
اس غم کو غلط کرنے کیلیےمنیٰ میں احرام باندھا جا رہا ہوتا ہے تو کبھی زبان
پر تلبیہ کی صدا محبوب کے وصال کی طلب گار دکھائی دیتی ہے ، عرفات کے چٹیل
میدان میں سچی عاشقی کا نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے تو کبھی مزدلفہ کا وقوف اس
کی منزل کا سنگ میل نظر آ رہا ہوتا ہے ۔ اپنے دشمن سے نبرد آزما ہو کرجمرات
پر رمی کی جارہی ہوتی ہے توکبھی شکرانے میں قربانی کا خون بہایا جا رہا
ہوتا ہے ۔ مقام ابراہیم پر آکر خلیل اللہ کی محبتوں کا تصور توکبھی زمزم کے
جام پیے جا رہے ہوتے ہیں ۔صفا و مروہ کے درمیان رحمت ربی کی طرف دوڑنے کی
تربیت تو کبھی بیت اللہ کے گرد گھوم گھوم کر خدا کو منانے کا مظہر ہویدا ہو
رہا ہوتا ہے ۔ جلال الہٰی سے دل معمور ہوجائے تو جمال حبیب کی لذت آشنائی
کا وقت آجاتا ہے ۔ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری،محسن و مشفق نبی
کے در پر صلوٰۃ و سلام کی اذن یابی،رحمۃ للعالمین کے حضور شفاعت کی درخواست
اور ان کے توسل سے نامہ اعمال میں اخروی کامیابی کا حصول ۔
سبز گنبد کو دیکھتے دیکھتے انسان 1400 سو سال پیچھے کی طرف چلا جاتا ہے ۔
جب اسی حجرہ میں آخر الزمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نزع کا عالم طاری
تھااور اس وقت نبی اپنی گناہگار امت کے حق میں دعائیں مانگ رہا تھا ۔ وہی
نبی جس کو معراج جیسی عظیم دولت سے نوازا گیا تو اپنی امت کو یاد کرتا رہا
، سبز گنبد میں وہی نبی آرام فرما ہیں جو روز محشر یا رب امتی یا رب امتی
کی دعا ئیں کر رہا ہوگا ۔ جس نے کسی بھی وقت اپنی امت کو فراموش نہیں کیا ۔
آج وہی امت اس نبی سے کیا سلوک کر رہی ہے ۔ تعلیم اس نبی والی نہیں ، تہذیب
اس نبی والی نہیں ، عادات و اطوار اس نبی والے نہیں ، اخلاقیات و معاملات
اس نبی والے نہیں ۔ طرز معاشرت اس نبی والی نہیں ، جو نبی معراج پر جا کر
ہمیں نہیں بھولا ہم نے دنیا کی جھوٹی خوشیوں میں اسے بھلا رکھا ہے ، جو موت
کی سختی میں ہمیں نہیں بھولا تھا ہم نے زندگی کی آسائشوں میں اسے بھلا رکھا
ہے ۔جو حشر کی تلخیوں میں ہمیں نہیں بھولے گا ہم نے یہاں رہ کر اسے بھلا
دیا ہے ۔ اے سوئے حرم کے راہی ۔ کیف و سرور کے تمام مراحل میں، وصل و وصال
کے ہر لمحے میں ، استجابت کے ہر مقام پر ۔ ہمیں یاد رکھنا ۔ مکین ِ گنبد
خضری کے حضور ہمارے عاجزانہ سلام پیش کر کے شفاعت کی استدعا کرنا ۔ اے سوئے
حرم کے راہی ۔ ہمیں بھی یاد رکھنا !!! |
|