اے ابن آدم
اے ابن آدم رب کریم نے تجھے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے مختلف رنگوں سے
کائنات کو تیرے لیے سجایا ہے تجھے تمام مخلوق پر فضیلت بخشی اور بے شمار
چیزوں کو تیرے آرام و سکون کا ذریعہ بنایا۔
لیکن افسوس تو مصروف ہے اپنے رب کی دی ہوئی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے میں
اور تیرے پاس اتنا بھی وقت نہیں کہ تو ان نعمتوں کا شکرانہ ادا کرے ۔دنیا
داری بھاگئی تجھے تو اک پل کے لیے بھی یہ کیوں نہیں سوچتاکہ یہ دنیا تو
میری آزمائش کا گھر ہے یہ دنیا تو پھولوں کے روپ میں کانٹوں کی محفل ہے۔
یہاں تو ہم چند دن کے لیے آئے ہیں اور ایک دن یہ سب کچھ یہیں چھوڑ جانا ہے۔
پھر بھی اپنے رب کی کرم نوازی دیکھیے اس مسافر خانے میں بھی ہمیں تنہا نہیں
چھوڑتے۔
اے ابن آدم: اللہ رب العزت اپنے ہر بندے کو ہر وقت دیکھ رہا ہوتا ہے وہ کس
وقت کیا کرتا ہے؟ وہ کیا چاہتا ہے؟ کیا مانگتا ہے؟ کیا عمل کرتا ہے؟ اللہ
رب العزت اپنے مخلوق بے پناہ محبت رکھتے ہیں۔ ہم میں جب کوئی لوگوں کے ساتھ
پیار محبت اور نرمی سے پیش آتے ہیں تو اللہ تبارک تعالی اتنے عظیم الشان
ہیں کہ فورا اپنی رحمت سے نوازتے ہیں۔ ہماری چھوٹی سی نیکی سے اللہ پاک
اتنے خوش ہوجاتے ہیں کہ ہمارے گناہوں کی بخشش فرمادیتے ہیں اخلاق کو اچھا
بنانے کے لیے انسان کو صرف اپنے دل کو سمجھانا پڑتا ہے نہ اسے کوئی مشقت
کرنی پڑتی ہے نہ کوئی پیسے خرچ ہوتے نہ عزت میں کمی آتی ہے ۔ بس تھوڑی سی
برداشت اور صبر کے ساتھ خود کو سنوار لے اور ہر مشکل سے گذرنے کا حوصلہ
پالے ۔اللہ پر کامل یقین رکھنے والوں کو دنیا کی کوئی مشکل پریشان نہیں
کرسکتی۔
آج آدم کی اولاد جس پریشانی میں بھی مبتلا ہے اس کی وجہ ایمان کی کمزوری
برے اخلاق ہی نہیں بلکہ اللہ پاک سے دوری ہے ۔ہم دنیا کمانے کے چکر میں
آخرت کو کھو دیتے ہیں ہم دولت کمانے کے چکر میں عزت کو کھودیتے ہیں اور یوں
تھوڑا تھوڑا کر کے ہم اپنے رب سے دور ہوجاتے ہیں اور یوں وقت کی بے برکتی
اور خوف خدا سے دور ہونے کی وجہ سے مختلف تکالیف اور پریشانیوں میں مبتلا
ہوجاتے ہیں۔
اے لوگو!پوچھ کر دیکھو کبھی اللہ والوں سے کہ ان کے دل کیوں مطمئن ہیں ؟ ان
کے چہرے کیوں روشن ہیں؟ ان کے دل کیوں مضبوط ہیں؟ انہیں دنیا والوں سے ڈر
کیوں نہیں لگتا۔؟
ذرا غور کیجیے جو دنیا والوں سے ڈرتا ہے وہ اللہ پاک سے نہیں ڈرتا اور جس
کے دل میں خوف خدا ہو وہ دنیا والوں سے نہیں ڈرتا ۔مسلمان کو زیب نہیں دیتا
کہ وہ برائی میں ہاتھ ڈالے اور خود کو ہلاک کرے۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ایمان دار آدمی کے شایان شان نہیں کہ اپنے آپ کو ذلیل کرے ۔یعنی اس بلا میں
ہاتھ ڈالے جس کے مقابلے کی طاقت نہ ہو، مومن آدمی برائی سے دور رہتا ہے
کیوں کہ وہ برائی سے مقابلہ نہیں کرنا چاہتا۔ وہ جانتا ہے برائی میں صرف
ذلت ہوگی۔ عزت دار انسان اپنے دامن کو ہر وقت گناہوں سے بچانے میں لگا رہتا
ہے حق اور سچ بات کا ساتھ دیتا ہے اور اپنے رب کو حاضر جانتا ہے خوف رکھتا
ہے اللہ کی ناراضگی کا کہ غلط کام میں ہاتھ ڈالوں گا تو میرا رب ناراض نہ
ہوجائے اور میں ایسے برباد نہ ہوجاؤں۔
انسان غور و فکر ہی نہیں کرتا اور بے شمار گناہ کرجاتا ہے کبھی نہیں سوچتا
کہ آج کا دن میں نے کن کاموں میں گزرا کیا اپنے لیے کیا اور کیا اپنے رب کی
رضا کے لیے کیا۔
مسلمانو! رات کو سونے سے پہلے ذرا اپنے گذرے ہوئے دن پر نظر دوڑایا کرو کہ
کون سے کام اچھائی کی طرف لے جائیں گے اور کون سے کام برائی کی طرف لے
جائیں گےہمیں غلط اور صحیح کا ہر وقت خیال رکھنا چاہیے حق کا ساتھ دینا
چاہیے تاکہ زندگی میں کبھی بھی اپنے ضمیر کی عدالت میں مجرم بن کر نہ کھڑے
ہونا پڑے۔ جب پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں بچتا۔
اپنے نفس کو راضی نہ کرو اپنے رب کو راضی کرو ۔یہی بہتر راستہ ہے اپنے
اعمال کا محاسبہ ضرور کرو اور گناہ سے بچو حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ
اللہ فرماتے ہیں۔
جب کوئی بندہ گناہ کے وقت اپنے دروازوں کو بند کرلیتا ہے اور پردے ڈال کر
مخلوق سے چھپ جاتا ہے تو حق تعالی فرماتے ہیں:
اے ابن آدم! تو نے اپنی طرف دیکھنے والوں میں سب سے زیادہ مجھ کو کم تر
سمجھا ہے کہ سب سے پردہ کرتا ہے اور مجھ سے مخلوق کے برابر بھی شرم نہیں
کرتا۔
انسان اگر ہر کام کرتے وقت یہ سوچ لے کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے اور اس
برائی کا بدلہ مجھ سے کتنا بھی بڑا لے سکتا ہے تو دل گناہ سے خودی رک جائے
گا اور یوں لمحے لمحے کے فکر سے زندگی گناہوں سے بچ جائے گی۔
یہ دنیا مسافر خانہ ہے یہاں کسی چیز میں ہمیشگی نہیں سب عارضی ہے حضرت
عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں: سفر دو قسم کا ہوتاہے دنیا اور آخرت کا
دونوں کے واسطے توشہ درکار ہے سفر دنیا میں توشہ ہمراہ رکھنا چاہیے، اور
سفر آخرت میں روانگی سے پہلے بھیج دینا چاہیے ۔ہمیں دنیا میں رہ کر صرف
دنیا کی فکر نہیں میں نہیں کھونا چاہیے کچھ آخرت کی فکر بھی ضروری ہے بہت
سے لوگ تنگ آکر آخر موت کی تمنا کرتے ہیں لیکن ان سے پوچھیے کہ ان کی کیا
تیاری ہے موت کی؟ جو یہ اسے مانگتے ہیں کیا کچھ سامان جمع کر رکھا ہے جو
انہوں نے موت کے سفر کے لیے۔
غم دنیا دل کو تاریک اور غم عقبیٰ دل کو روشن کرتا ہے
مومنو! زندگی بہت مختصر ہے کوئی نہیں جانتا کہ سفر کتنا طویل ہے یا کتنا
مختصر ہے؟ زندگی کا کیا بھروسہ کب کہا ں اس کی شام ہوجائے تو ہر وقت موت کو
یاد رکھواور سفر آخرت کی فکر کرو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یاد
کرو لذتوں کو کھودینے والی چیز کو یعنی موت کو، جب دنیا کا سفر بغیر توشے
کے نہیں گذرسکتا تو سوچو آخرت کا سفر کیسے گذرے گا ؟اس میں بھی توشہ درکار
ہے اچھے اعمال اور اللہ پاک کا ذکر ہی آخرت سفر کا بہترین توشہ ہے اپنے رب
کو یاد کرو بے شک اللہ پاک کے ذکر میں ہی دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے
اپنے اعمال میں بہتری لاؤ اور جنت کا راستہ پاؤ۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں |