یوسف ایک کاوباری آدمی ہے ۔ٹھیکیداری
کے پیشہ سے وابستہ ہے ۔۱۰۰ فراد اس کے ماتحت کام کرتے ہیں ۔مہینہ میں
لاکھوں روپے آمدنی ہے ۔اس کے ۴ بیٹے اور ۳ بیٹی ہے ۔تمام بچے اچھے تعلیمی
اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔مہنگاسوٹ پہنتے ہیں ۔ہر ماہ ہزاروں روپے
کی شاپنگ کرتے ہیں ۔گھر میں روز تین قسم کا کھانا بنتا ہے ۔روز بچوں پر
ہزاروں روپے اڑاتاہے ۔
علی حسین یوسف کا چھوٹا بھائی ہے،اسکے تین بچے ہیں ۔دو بیٹا اور ایک بیٹی ،علی
حسین کا اپنا ذاتی مکان نہیں ہے ،اپنے بڑے بھائی کے گھر کرایہ پر رہتاہے ۔رنگ
و روغن کے پیشہ سے وابستہ علی حسین روز گار کی تلاش میں روز اپنے بھائی کی
راہ تکتاہے ،مہینہ میں پندرہ روز علی حسین کے گھر فاقہ ہوتاہے ،اسکے بیوی
بچے عید میں بھی نئے کپڑے نہیں پہن سکتے ۔علی حسین اپنے بچوں کی کفالت سے
مجبو رہوکر اپنے دس سالہ بیٹے کو یتیم خانہ میں داخل کروانے کا ارادہ
کرتاہے ۔اس سے اپنے بچوں کی بھوک نہیں دیکھی جاتی ،جب اس کے بچے اپنے باپ
سے دو روپے کا تقاضہ کرتے ہیں تو علی حسین افلاس سے اپنا سر جھکا لیتا ہے ۔دوسری
طرف علی حسین کا بڑا بھائی یوسف روز اپنے بچوں پر بے حساب پیسہ لوٹاتاہے ۔
یہ ہے تصویر کا بھیانک رخ جو ناقابل بیان بھی ہے اور انتہائی تکلیف دہ
بھی۔سگا بھائی اپنے بھائی سے گھر کا کرایہ وصول کررہا ہے ۔ایک کا بچہ پیسے
نہ ہونے کی وجہ سے یتیم خانہ کی راہ دیکھ رہا ہے ۔دوسرے کا بچہ عیاشیوں میں
اپنے باپ کی دولت اڑارہاہے ۔یوسف اگر چاہے تو اپنے بھائی کو بہترین روز گار
دلاسکتاہے ۔اپنے اولاد کی طرح اپنے بھائی کے بچوں کی تعلیم کا خرچہ
اٹھاسکتاہے ۔اپنے بچوں کی طرح بھائی کے بچوں کی کفالت کرسکتاہے ،لیکن جب
احساس مردہ ہوجائے تو مردہ کی کھال بھی نوچ لیا جاتاہے ۔ضمیر کی آواز دستک
نہ دے تو خون سفید ہوجاتاہے ۔پھر اپنے دور پرائے بھلے لگتے ہیں ۔دولت کا
گھمنڈ میں انسان نہیں جانور سے بد تر ہوجاتاہے ۔ہجرت مدینہ کے موقع پر حضور
اکر م ﷺْ نے جو مواخاۃ کا رشتہ قائم فرمایا تھا اس میں کالے گورے ،چھوٹے
بڑے کی تمیز کو ختم کرکے بھائی بھائی بنادیا تھا ،پھر انہوں نے اپنے جائداد
اور مال میں بھی دوسرے بھائی کو شریک کرلیا تھا ۔یہاں سگا خون اپنے درد سے
ناآشنا ہے ،تف ہے ایسی دولت پرجو اپنوں کا دکھ اور در د نہ سمجھے ۔یہ صرف
ایک کردار نہیں جابجا آ پکو ایسے کردار نظر آئی گے ۔آج ہم سماج کا نعر ہ
لگاتے ہیں ۔سماج کا کردار پنے گھر سے شروع کرناہوگا ،صر ف نعرہ سے کچھ نہیں
ہوگا ۔اپنے چھوٹے بڑے کا خیال اور دکھ درد کو سمجھ کر ایک قوم بن سکتے ہیں
،۔ورنہ کل کو ہمارے بچے بھی دوسروں کی راہ تکے گے ۔ |