وی آئی پی کلچر اور حضرت عمرؓ کا کردار
(Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
وہ ایک تاریخی اور سنہری گھڑی
تھی ، جب خلیفۂ عادل حضرت عمر فاروق ؓ نے بیت المقدس کی چابیاں وہاں کے
عیسائی پادری سے وصول فرمائیں ، یہ وہ وقت تھا ،جب مسلمانوں نے روم اور
فارس کی بڑی بڑی سلطنتوں کے شہرۂ آفاق سپہ سلار وں اور ان کے لشکروں ،قلعوں
اور چھاؤنیوں کو روندڈالا تھا، اب عالم عربی کے مغرب میں واقع منطقۂ شام کے
کنارے پر، فلسطین میں ادیان ِ سماویہ کا متبرک قبلہ ٔاول’’ بیت المقدس‘‘ کو
فتح کرنا باقی رہ گیاتھا، مسلم افواج حضرت ابو عبیدہ ؓ، حضرت خالد بن ولید
ؓ اور حضرت عمروبن عاص ؓ کی قیادت میں اس شہر کے دروازوں پر دستک دے رہی
تھیں ،اس اثناء میں شہر کے عیسائی راھب جووہاں کے قومی ،سیاسی او رانتظامی
سربرا ہ بھی تھے، نے سوچاکہ بیت المقدس کے تقدس کو کیسے بچایاجائے ، خون
خرابہ اور کشت وقتل کو کیسے روکا جائے ، سوچتے سوچتے اور اپنی مقدس کتب کا
مطالعہ کرتے ہوئے انہیں حل سمجھ میں آگیا ، چنانچہ انہوں نے لشکر اسلام کے
قائدین کے پاس پیغام بھیجا ،کہ اگر تمہارا خلیفۃ المسلمین خود چل کر القدس
الشریف آجائے ،توہم صلحاًبغیر کسی جنگ ،مقاومت ومقابلے کے القدس شہر اور اس
کی چابیاں ان کے حوالے کردینگے ، ان کی یہ درخواست اور اپیل خلیفۂ عادل تک
پہنچا ئی گئی ،قربان جاؤں اس امن پسند خلیفۃالاسلام پر ،کہ انہوں نے انہیں
ناامید نہیں ہونے دیا، حالانکہ ان دنوں وہ ایک عظیم فاتح لشکر کے سپریم
کمانڈر تھے ، وہ چاہتے، تو اپیل مسترد کرکے بیت المقدس پر حملے کا حکم صادر
کردیتے ، یاپھر اپنے کسی نائب کی صورت میں ان کی درخواست قبول کرتے ، وہاں
شہر کے باہر پراؤ ڈالے لشکر میں موجود حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ،حضرت خالد
بن ولید اور حضرت عمروبن عاص میں سے کسی ایک یا تینوں کو خلیفہ کی نیابت
کیلئے چابیاں لینے بیت المقدس روانہ فرماتے ، لیکن انہوں نے یہ سب کچھ نہ
کیا،اور وہ کچھ کیا، جو تاریخ میں سنہری داستاں،نیز سیاست ، تدبر ، تواضع،
سادگی ،کفایت شعاری اور عدل وانصاف کا ایک وہ شہ پارہ بن گیا ،کہ جب مجھ
جیسے لوگوں نے اسے تاریخ کے اوراق میں پڑھا ،یا نیٹ میں ’’فیلم عمر ‘‘ کے
عنوان سے مشاہدہ کیا ، توایک طرف فرطِ جذبات سے بے اختیار آنکھیں ڈبڈبا
گئیں ،آوازیں گلو گیر ہوئیں ،تودوسری طرف اسلام ،اکابر اسلام اور اسلامی
تاریخ کے متعلق دل ودماغ افتخار واعتزازسے معمور اور سرشارہوئے، حضرت عمر
بغیر کسی پر وٹول ،گارڈز، زرق برق لباس اور ہٹوبچو کے نعروں کے ،ایک کا
لاحبشی رفیق سفر بطورخادم ، ایک اونٹنی اور زاد ِراہ، جس میں پانی ، سوکھی
روٹی اور خشک کھجور یں تھیں ، لے کر مدینہ منورہ سے مؤرخین کیلئے ایک
نیاباب رقم کرنے نکل گئے ، بیابان ، دشت صحرا ، پتھر یلے پہاڑوں کی وادیاں
اور ریتیلے ٹیلوں کے میدانوں میں دن رات محوسفر تھے ، اسلحے کیلئے بندوبست
یہ کیاگیا ،کہ خادم ومخدوم راستہ بھر سورۂ یاسین کا وِرد کرینگے ،چشم فلک
نے عدل وانصاف کا عجیب وغریب نظارہ دیکھا ،اونٹنی پرسواری کیلئے تین نمبر
قائم کئے گئے :حضرت عمر ، خادم اور اونٹنی خود،کچھ وقت کیلئے حضرت عمر سوار
ہوتے ،کچھ وقت کیلئے خادم ،پھر اتنا ہی ایک تہائی وقت اونٹنی خالی پِیٹھ
چلتی ،تاکہ اسے بھی آرام مل جائے ، خدام اور حیوانات کے حقوق کی اس طرح کی
کوئی مثال لانے سے قدیم وجدید دنیا عاجزہے ،مدینے سے القدس کا 2400 کلو
میٹر کا یہ با مشقت طویل سفر ،سردوگرم ہواؤ ں کو برداشت کرکے خلیفۂ عادل
شام میں ابوعبیدہ کے لشکر کے قریب پہنچ گئے ،آگے پانی کا طویل وعریض
جوہڑآیا ، جیسے ہمارے یہاں پنجاب میں سیلاب کی وجہ سے کئی جگہوں پر اس قسم
کے جوہڑبن چکے ہیں ، جہاں ہمارے حکمراں ،وزراء اور سیاسی قائدین گھٹنوں تک
پلاسٹکی بوٹ پہن کر فوٹو گرافی کیلئے قدم رنجائی فرماتے ہیں ، لیکن اس
سفرمیں یہ لحظات ولمحات اس لئے بڑے اہم ہیں کہ اس وقت خلیفۂ عادل اونٹنی کا
لگام تھا مے ،اپنی کے مطابق، پانی میں کو دجاتے ہیں، پارنکلتے ہیں، توحضراتِ
ثلاثہ ابوعبیدہ ،خالد او رعمرو کھڑے ہیں ،حضرت فاروق کو اس حال میں، کہ
کیچڑ میں ان کی ٹانگیں لت پت ہیں، دیکھ کر ابوعبیدہ نے اخلاص ،ترس اور درد
میں کہا: ’’امیر المؤمنین آپ مزید سواری کا حکم فرماتے ،توکیا اچھا ہوتا،
کیونکہ ان عیسائیوں کو بھی تو دیکھناہے ، یہ آپ کی کیا حالت بنی ہوئی ہے
‘‘، یہ سن کر خلیفۂ عادل کا چہرہ غصے سے لال ہوگیا او رچلاّکر یہ تاریخی
الفاظ کہے: ’’خدا کی قسم اگر ابوعبیدہ آپ کے علاوہ کوئی اور شخص یہ الفاظ
کہتا ،تو میں اسے اہل اسلام کیلئے عبرت کا نشان بنا دیتا، ارے ہم کمزور وبے
تو قیر تھے ،اﷲ نے ہمیں اسلام کے ذریعے عزت وتوقیر عطافرمائی ،جب بھی اسلام
کے بغیر کہیں اور عزت وتوقیر اور رعب ودبدبہ تلاش کرینگے ،اﷲ تعلی ہمیں
ذلیل ورسوا کردے گا‘‘ ، ـــ․․․․․․․اﷲ اﷲ کیا بات ہے عمر کی ،عدالت ِعمرکی ،صداقت
اور شرافت عمر کی ، شریف یہ ہوتے ہیں ،اسلام کے جیالے ، پیغمبر ﷺ کے متوالے
، بغیر کسی گارڈز وپروٹوکول 2400 کلومیٹر کا سفر،یہ ہیں ٹائیگرز ،آج ہرکوئی
القاب بانٹتاہے ،تمغے اور شیلڈزتقسیم کرتے ہیں ،مدینے کے بیت المال میں اس
وقت ہزار وں اونٹنیاں اور گھوڑے تھے ،مگر کفایت ،جی ہاں کفایت شعاری ،․․اور
اب ذرہ سفرِ امریکہ اور غلامانہ ذہنیت کے خرچے دیکھیں ، توبہ توبہ۔
بہر حال کچھ دیر کیلئے خادم ، مخدوم اور سواری نے ابوعبیدہ کے خیمے میں
آرام کیا ،دیگر کمانڈروں سے بھی ملاقاتیں ہوئیں ، اور اب القدس کے مین گیٹ
کی طرف چل دیئے ، ایک فرلانگ کے بعد حضرت عمر کی سواررہنے کا ٹائم ختم ہوا،
حبشی غلام کا نمبرہے ، خلیفۂ عادل آگے آگے ہیں اونٹ کی رسی تھامے کھینچ رہے
ہیں ،پیرا بھی تک کیچڑزدہ ہیں اور پھٹے پرانے کپڑے ہیں ،اُدہراستقبال میں
القدس کے بچے ،بوڑھے ،مردوخواتین ،مذہبی وسیاسی اور انتظامی سربراہاں چشم
براہ ہیں ،․․․تاریخ ،خیالات اور خوابوں کا ایک البیلا اور بے مثل نظارہ ہے
، دنیا حیراں اور فلک انگشت بدنداں ہیں ، القدس کے بڑے پادری ’’صفر یانوس
‘‘ آگے بڑھے ،اونٹنی پر سوار کو دیکھ کر سجدۂ تعظیم کرنے لگے ،نیچے کھڑے
بائیں ہاتھ میں اونٹ کی رسی تھامے ،بوسیدہ لباس والے ، کیچڑ لگے ہوئے شخص
نے انہیں بڑے پیار سے منع کیا، کہا؛ ہمیں اﷲ نے اس لئے چنا ہے کہ ہم مخلوق
کو سجدہ کرنے اور سرجھکانے کے بجائے خالق کے سامنے جھکیں اور سر بجود ہوں ،اتنے
میں اوپر والا سوارآوا ز دیتاہے ، میں تو خادم ہوں ،یہی آپ کے سامنے
مسلمانوں کے خلیفہ ہیں۔
پادری اور استقبال والے دنگ رہ جاتے ہیں ،پادری اس سے سلام کرتاہے ،او
رالقدس کی چابیاں دکھا کر کہتاہے، ہماری کتابوں میں القدس کے فاتح کی تین
علامات ہیں ،(۱)داخلے کے وقت وہ پیدل اور اس کا خادم سوار ہوگا، (۲) جب وہ
آئے گا تو اس کی ٹانگیں کیجڑزدہ ہونگی ،(۳) اس کے کپڑوں میں متعدد پیوند
لگے ہوں گے ،(اس وقت اس پادری نے جب خلیفہ عادل کے لباس میں پیوند شمار کئے
تو 17 تھے )،گویا یہ تین سٹار زاس کے پاس ہوں گے ،تو وہ القدس کا تھری
سٹارز کمانڈرز ،مالک اور حکمراں ہوگا، چنانچہ انہوں نے بصد ادب ، احترام
اور تکریم چابیاں امیرالمؤمنین ،خلیفہ المسلمین حضرت عمر فاروق کو حوالے
کردیں ، اور خود جاکر ایک طرف رونے لگا، حضرت نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی
،تو وہ کہنے لگا کہ آپ کی آمد ، مسلمانوں کی فتح اور القدس کی چابیوں کے
حوالے کرنے پر نہیں رورہا، بلکہ اُن اسباب پر رو رہاہوں، جن کی وجہ سے آج
ہمیں یہ حرماں نصیبی دیکھنی پڑ رہی ہے ، لہذا ،قومیں جب اپنے اھداف ،مقاصد
اور نظریہ وکردار سے ہٹ جاتی ہیں ،اور دنیا کے تماشوں اور رنگینیوں میں لگ
جاتی ہیں، تو پھر انہیں ایسے دن دیکھنے پڑ تے ہیں ، گویا یہ ایک نوشتہ ٔدیوار
ہے یارانِ نکتہ داں کیلئے ۔ |
|