پاکستان: حج آپریشن 2014ءکا پہلا مرحلہ مکمل
(عابد محمود عزام, karachi)
دنیا بھر سے فریضہ حج کی ادائی
کے لیے عازمین حج کی حجاز مقدس آمد جاری و ساری ہے۔ مسجد حرام عازمین حج سے
کھچا کھچ بھر رہی ہے اور فرزندان توحید بیت اللہ کے طواف میں مصروف ہیں۔
مسجد حرام میں مقامی نمازیوں اور اندرون اور بیرون ملک سے آئے عازمین حج کے
رش میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ سعودی حکومت کے مطابق عازمین حج کی رہ نمائی
اور ان کی ہر ضرورت پوری کرنے کے لیے تسلی بخش انتظامات کیے گئے ہیں۔ حجاج
کرام کی خدمت پر مامور رضاکار اور سیکورٹی ادارے چوکس ہیں اور پوری تن دہی
سے اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق سعودی عرب میں سیکورٹی کے
غیر معمولی اور سخت حفاظتی اقدامات کیے گئے ہیں اور مکہ، منیٰ، مزدلفہ،
عرفات سمیت دیگر اہم مقامات کی سیکورٹی پر ایک لاکھ سے زاید اہلکار تعینات
کیے گئے ہیں۔ سخت سیکورٹی کے باعث ہی بغیر اجازت کے آنے والے 24 ہزار سے
زاید افراد کو واپس بھیجا جا چکا ہے۔ سیکورٹی چیک پوائنٹس پر ایسے عازمین
حج کو واپس کیا گیا، جن کے پاس حج کے لیے اجازت نامے نہیں تھے۔ رواں سال
چیک پوائنٹس پر پہلے سے ہی حفاظتی انتظامات سخت کیے گئے ہیں، تاکہ اجازت کے
بغیر آنے والے حاجیوں کو روکا جا سکے۔ ذرائع کے مطابق ایام حج قریب آتے ہی
بیرون اور اندرون ملک سے سعودی عرب میں عازمین حج کی آمد کا سلسلہ مزید تیز
ہو گیا ہے۔ سعودی عرب کے ڈائریکٹوریٹ آف پاسپورٹ کے مطابق 26 ستمبر تک 11
لاکھ 28 ہزار 742 عازمین حج کی اندرون اور بیرون ملک سے مکہ مکرمہ آمد کی
رجسٹریشن مکمل کی جا چکی ہے۔ بیرون ملک سے ہوائی جہازوں کے ذریعے 52 ہزار
109، زمینی راستے سے 12 ہزار 616 اور سمندری راستے سے 40 ہزار 537 عازمین
حج حجاز مقدس پہنچے ہیں۔ یہ تعداد گزشتہ برس کی نسبت 3 فی صد زیادہ ہے۔
ذرائع کے مطابق حج کے لیے سعودی عرب پہنچنے والے والوں میں 55ہزار سے
عازمین پاکستانی ہیں۔ قومی ائیر لائن پی آئی اے کا 28 اگست سے شروع ہونے
والاحج آپریشن بھی مکمل کر لیا گیا ہے۔ اس آپریشن کے ذریعے 55 ہزار سے زاید
عازمین حج کو خصوصی اور معمول کی پروازوں کے ذریعے حجاز مقدس پہنچایا گیا
ہے۔ پی آئی اے ترجمان کے مطابق 43 ہزار سے زاید عازمین کو 109 خصوصی اور 12
ہزار سے زاید عازمین کو معمول کی پروازوں کے ذریعے سعودی عرب پہنچایا گیا
ہے۔ پروازوں کی بروقت آمد و رفت کی شرح 85 فیصد رہی۔ پی آئی اے نے کراچی سے
14 پروازوں کے ذریعے6100، لاہور سے 17 پروازوں کے ذریعے 49 ہزار، اسلام
آباد سے 14پروازوں کے ذریعے 6400، پشاور سے 21 پروازوں کے ذریعے6600، کوئٹہ
سے 28 پروازوں کے ذریعے 10 ہزار، ملتان سے 12 پروازوں کے ذریعے 4 ہزار اور
سیالکوٹ سے 3 پروازوں کے ذریعے 1500 عازمین کو حجاز مقدس پہنچایا۔ چیئر مین
پی آئی اے اور مینیجنگ ڈائریکٹر نے پی آئی اے ملازمین کو قبل از حج آپریشن
کامیابی سے مکمل کرنے پر مبارکباد دیتے ہوئے ہدایت کی کہ تمام شعبہ جات بعد
از حج آپریشن کو بھی کامیابی سے مکمل کرنے کے لیے اسی جذبے کے ساتھ کام
کریں۔ ان کے مطابق حج آپریشن کے لیے پی آئی اے کے اپنے طیارے بوئنگ 747 اور
بوئنگ 777 استعمال کیے گئے۔ کوئی اور طیارہ لیز پر حاصل نہیں کیا گیا۔ حجاج
کو سعودی عرب سے واپس لانے کے لیے آپریشن کا آغاز 8 اکتوبر کو ہوگا، جو 8
نومبر کومکمل کر لیا جائے گا۔ واضح رہے کہ پاکستانی عازمین حج کی تعداد میں
گزشتہ سال کی طرح رواں سال بھی 20 فیصد کٹوتی کی گئی تھی۔ کٹوتی پالیسی پر
وفاقی وزیر برائے مذہبی امور سردار محمد یوسف نے پاکستان، جبکہ سعودی حکومت
کی جانب سے وزیرحج ڈاکٹربندر بن محمد الحجار نے دستخط کیے تھے۔ دونوں
حکومتوں کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت رواں سال ایک لاکھ 43 ہزار
368 پاکستانی فریضہ ِحج اداکریں گے، جبکہ پاکستانی عازمین صرف 40 روز سعودی
عرب میں قیام کرسکیں گے۔ معاہدے کے تحت اس سال سرکاری اسکیم کے تحت حج کرنے
والوں کی تین کی بجائے صرف ایک کیٹگری ترتیب دی گئی۔ جبکہ گزشتہ سال حاجیوں
کو تین کیٹگریز میں تقسیم کیا گیا تھا۔ گزشتہ سال تین کیٹگریز کی تفصیل کچھ
یوں تھی کہ بلیو کیٹگری جن کی رہائش میں مجموعی طور پر 2 ہزار 500 عازمین
تھے، جس کا حرم سے فاصلہ 900 میٹرکے اندر تھا، جبکہ گرین گیٹگری کا فاصلہ 9
سو میٹرسے 2 کلومیٹرتک تھا، جس میں 7 ہزار عازمین کی رہائش تھی، جبکہ 2
کلومیٹر سے باہر کا ایریا وائٹ کیٹگری میں آتا تھا، جو مختلف علاقوں میں
جہاں سے انہیں حرم آنے اور جانے کے لیے خصوصی طور پر بسیں فراہم کی گئی
تھیں۔
پاکستانی حج مشن کے افسر محمد سیف انور کے مطابق 80 فیصد پاکستانیوں کی
رہائش کا انتظام وسطی مدینہ میں ہوا ہے۔ جہاں مسجد نبوی قریب ہے، جبکہ باقی
20 فیصد کے لیے انتظام اطراف کے علاقوں میں کیا گیا ہے۔ حاجیوں کے لیے
پاکستان ہاﺅس 2 نامی عارضی کلینک بھی قائم کیا گیا۔ مشن کی طرف سے شکایات
کے لیے فری فون نمبر 0800-1166622 بھی فراہم کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق
پاکستانی حاجیوں کے لیے طبی سہولیات اور 18ریال روزانہ کے بدلے کھانے کی
سہولت کا ٹھیکہ چار کمپنیوں کو دیا گیا ہے۔ دوسری جانب ذرائع کے مطابق مکہ
مکرمہ میں ساڑھے چھ ہزار پاکستانی حاجیوں کے لیے قائم کینٹین ٹھیکیدار کی
غفلت کے باعث سعودی حکومت نے سیل کر دی ہے، جس کے باعث مذکورہ حاجیوں کو
ہفتے کے روز سے کھانے پینے کی سہولیات مکمل طور پر بند کر دی گئی ہیں، جس
کی وجہ سے پاکستانی عازمین حج دور دراز علاقوں سے کھانے پینے کی اشیا لانے
پر مجبور ہیں۔ٹھیکیدار نے حاجیوں کو کھانے پینے کی سہولیات دینے کے لیے
پاکستان سے کئی افراد کو بلایا تھا جن کے پاس کاغذات نہیں تھے،قواعد کی
خلاف ورزی پر سعودی حکومت نے چھاپا مار کر کچن میں کئی افراد کو گرفتار کر
کے کینٹین کو سیل کردیا۔عازمین حج نے احتجاج کیا تو سعودی عرب میں موجود
ڈائریکٹر حج مشن نے اعلیٰ حکام سے ساڑھے چھ ہزار پاکستانیوں کو متبادل
کھانا فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ خیال رہے کہ حج 2013 کے دوران 745حج
کمپنیوں نے عازمین حج کے لیے خدمات انجام دی تھیں، ان کمپنیوں میں سے 56
کمپنیوں کے خلاف سنگین نوعیت کی شکایات سامنے آئی تھیں، جس پر سعودی حکومت
نے ان کمپنیوں کو بلیک لسٹ قرار دیا تھا، جبکہ بعض کمپنیوں کو ناقص
کارکردگی پر پاکستانی وزارت مذہبی امور نے بھی بلیک لسٹ قرار دیا تھا،
حکومت نے بلیک لسٹ کمپنیوں کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کیا تھا، کیونکہ
مذکورہ کمپنیوں نے عازمین حج سے جو تحریری معاملات طے کیے تھے، ان کے مطابق
عازمین حج کو سہولتیں فراہم نہیں کیں تھیں۔ عازمین حج نے شکایت کی تھی کہ
ٹورآپریٹرز نے انھیں سہولتوں سے آراستہ ہوٹلوں میں نہیں ٹھہرایا، عازمین حج
کو اچھا کھانا اور بہتر سفری سہولتیں فراہم نہیں کی گئیں، جس سے عازمین حج
کو شدید مشکلات کا سامنا رہا۔سال رواں بھی اس قسم کی شکایات سامنے آرہی ہیں
جن کے مطابق عازمین حج کو کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ دوسری جانب مکہ چیمبر
آف کامرس کے مطابق اس مرتبہ تقریبا 20 لاکھ مسلمان مکہ آئیں گے، جس کی وجہ
سے آمدنی پچھلے سال کی نسبت تین فیصد زیادہ ہوگی۔ چیمبر آف کامرس مکہ کی
جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ19 لاکھ 80 ہزار حاجیوں میں سے
13 لاکھ 80 ہزار (ستر فیصد) حاجی بیرون ملک سے آئیں گے۔ بیرون ملک سے آنے
والا ایک حاجی حج کے پانچ دنوں میں اوسطاً 17381ریال، جبکہ مقامی حاجی 4948
ریال خرچ کرے گا۔ ان اخراجات میں خوارک، رہائش، تحائف اور فون بل شامل ہیں۔ |
|