اللہ کے نام سے شروع، جو بڑا
مہربان ہے اور جس کی شفقت ابدی ہے
قرآن مجید کی ابتدا "بسم اللہ الرحمن الرحیم" کے جملے سے ہوتی ہے۔ اس کا
ترجمہ ہے، "اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہے اور اس کی شفقت ہمیشہ
رہنے والی ہے۔" اس مختصر سے جملے کو کسی بھی خدا پرست انسان کی شخصیت میں
بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ایسا انسان جو خدا پر یقین رکھتا ہے، اس کا ہر کام
خدا کے نام سے ہی شروع ہونا چاہیے۔
انسان جب کوئی کام شروع کرتا ہے تو وہ ایسا کسی سہارے کی بنیاد پر کر رہا
ہوتا ہے۔ یہ سہارا انسان کی ذہنی و جسمانی صلاحیتیں بھی ہو سکتی ہیں، اس کا
مال و دولت بھی ہو سکتا ہے، اس کے دوست اور ساتھی بھی ہو سکتے ہیں اور اس
کے گرد و پیش میں موافق حالات بھی ہو سکتے ہیں۔ قرآن مجید انسان کو یہ درس
دیتا ہے کہ وہ ان تمام چیزوں پر تکیہ کرنے کی بجائے صرف اور صرف اپنے رب کے
سہارے پر کام کا آغاز کرے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے بسم اللہ کے بغیر شروع کیے جانے والے کام کو برکت سے خالی قرار دیا
ہے۔
قرآن چونکہ اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے اور اس کا بنیادی مقصد انسان کو
اپنے رب کے حضور جواب دہی کے لئے تیار کرنا ہے اس لئے اس کا آغاز اللہ کے
نام سے کیا گیا ہے۔ یہ کتاب اللہ کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے اللہ کے نام کی اتھارٹی کے ساتھ پیش کی ہے۔
خدا کے نام سے آغاز کرنے کا تصور صرف اسلام ہی میں نہیں بلکہ تمام خدا پرست
مذاہب میں موجود ہے۔ اللہ، خدا، یزداں، گاڈ، پرمیشور، رام ایک ہی ہستی کے
نام ہیں جو مختلف زبانوں میں قدیم زمانے سے استعمال ہو رہے ہیں۔ دنیا بھر
میں اب بھی بہت سے خدا پرست لوگ اپنے نیک کاموں کا آغاز اسی کے نام سے کرتے
ہیں۔
اس جملے میں اللہ کی ایک خاص صفت پر زور دیا گیا ہے اور وہ ہے رحمت اور
شفقت۔ اس رحمت کا ایک پہلو اس کا جوش اور ولولہ ہے اور دوسرا پہلو اس کی
ہمیشگی۔ یہ رحمت، کسی دریا کی طرح مسلسل رواں ہے اور خاص مواقع پر یہ رحمت
اپنے جوش پر بھی آ جاتی ہے۔ رحمت الہی کا یہی جوش اور دوام انسان کے لئے
ایک عظیم نعمت ہے۔ خدا کی یہی صفت ہے جس کے باعث انسان کا اپنے رب سے جو
تعلق قائم ہوتا ہے وہ محبت کا تعلق ہوا کرتا ہے۔
بعض لوگ اپنی جہالت کے باعث خدا کے بارے میں یہ تصور رکھتے ہیں کہ اس نے
انسان کو شاید عذاب دینے کے لئے پیدا کیا ہے۔ وہ بات بات پر انسان سے ناراض
ہو جاتا ہے اور اسی انتظار میں رہتا ہے کہ جیسے ہی انسان کو دی ہوئی زندگی
کی یہ مہلت ختم ہو، اسے پکڑ کر جہنم میں جھونک دے۔
یہ تصور بالکل غلط ہے۔ قرآن مجید کی پہلی آیت یہ بیان کرتی ہے کہ اللہ
تعالیٰ سراپا رحمت ہے اور اس کی شفقت ابدی ہے۔ یہ درست ہے کہ وہ قہار و
جبار بھی ہے، لیکن اس کا غیظ و غضب صرف ان لوگوں تک محدود ہے جو اس کے
مقابلے میں غرور و تکبر اور سرکشی کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ انسانوں کی بہت
بڑی تعداد جو اپنے رب کے مقابلے پر سرکشی اختیار نہیں کرتی، ان کے ساتھ
اللہ تعالیٰ کا تعلق محبت اور رحمت ہی کا ہے۔ وہ ان پر اپنا فضل و کرم نازل
کرتا ہے اور اگر ان سے کوئی لغزش بھی سرزد ہو جاتی ہے، تو وہ توبہ کرتے ہی
اسے فوراً معاف کر دیتا ہے۔
انسان کو اس بات پر غور کرتے رہنا چاہیے کہ ایسے محبت کرنے والے مالک و
معبود کے ساتھ ہمارا رویہ کیا ہونا چاہیے؟
بشکریہ محمد مبشر نذیر |