محبت ایک لازوال جذبہ اور
محبت ہو معبود سے تو کیا بات ہے محبت کرنا انسان کی فطرت میں اسی طرح
شامل ہے جس طرح نفرت کرنا لیکن محبت ایک مثبت پہلو جبکہ نفرت ایک منفی پہلو
ہے انسان دراصل تہہ در تہہ ایک معمہ ہے نا سمجھنے کا نا سمجھانے کا۔
انسانی فطرت کے مثبت پہلو پر اگر غور کریں تو ایک بات بڑی واضع دکھائی دیتی
ہے اور وہ یہ کہ انسان بغیر کسی کے کہے بھی اس فکر میں ہوتا ہے کہ بلند و
برتر زات سے محبت کی جائے۔ اور دیکھا یہ گیا ہے کہ زمانہ قدیم سے ہی جب بھی
انسان کو کوئی چیز یا ہستی برتر نظر آئی اس نے اس کو پوجنا اور ماننا شروع
کردیا جس طرح سورج کی چاند کی، آگ کی اور اسی طرح طاقتور جانداروں کی پوجا
اور عبادت کی جاتی رہی ہے۔ زمانہ جاہلیت کے بعد جیسے جیسے تاریخ انسانی کا
ارتقا ہوتا گیا معبود اور چاہے جانے کے قابل ایک ہی ذات محسوس انداز میں
ابھرتی نظر آئی جسے معبود کا نام دیا گیا اور وہ ذات معبود تھی اللہ کہ جس
کے سوا کوئی معبود نہیں۔
انسان کا تماشہ دیکھیے کہ ایک اللہ کو چھوڑ کر کئی خداوں پر بھروسہ اور
ایمان رکھا گیا اور سب کو ماننا چاہا سوائے ایک رب کے۔ اور اسی ایک رب یعنی
اللہ کو غیر اہم سمجھ کر کئی دوسروں کی حمد اور پوجا کی گئی، انہی کی بڑائی
سمجھی گئی انہی سے مدد چاہی گئی انہی کے آگے ماتھا ٹیکا گیا ان کے لیے ہی
سب کچھ کیا ۔
جو حق اللہ کا تھا وہ غیر اللہ کو دیا گیا اور یہ صرف پرانے ادوار میں ہی
خاص نہیں تھا آج بھی عام ہے غیر اللہ کی عبادت اور ان کو بڑا ماننے والے یہ
لوگ انبیائے بنی اسرائیل کے الفاظ میں “اس عورت کی مانند ہیں جو اپنا شوہر
چھوڑ کر دوسرے مردوں کے ساتھ بدکاری کرتی ہے“
اللہ کے ماننے والے انبیا اور رسولوں کا طریقہ تو یہ رہا کہ دنیاوی نتائج
اور انجام کی پروا کیے بغیر ان کا جینا مرنا رہنا سہنا اٹھنا بیٹھنا سب
اللہ کے لیے ہوتا تھا۔ وہ ہر وقت اسی پر بھروسہ کرتے اور اسی کی بڑائی بیان
کرتے۔ ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پورے عرب پر غلبہ
کے بعد صفا پہاڑ پر چڑھ کر اللہ تعالیٰ کی جو حمد بیان کی اس کے الفاظ کچھ
اس طرح ہیں “اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں
بادشاہی اسی کی ہے اور حمد بھی اسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا
ہے“
غور طلب ہے وہ وقت جب اللہ عزوجل نے فرعون کو غرق کیا اور حضرت موسیٰ علیہ
سلام اور ان کی قوم کو سمندر سے گزار دیا سلامتی کے ساتھ اس پر حضرت موسیٰ
علیہ السلام نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی شان میں کیا خوبصورت حمد و ثنا کی
اس حمد کا ایک جملہ کچھ اسطرح ہے “(ان جھوٹے) معبودوں میں، اے خداوند، تیری
مانند کون ہے“
کیا ذات تھی انبیا کرام علیہ السلام کی اور الحمداللہ یہ اس بات کا ثبوت ہے
کہ اللہ کے مخلص بندے کیسے ہوتے ہیں اور اللہ کس طرح اپنے وفاداروں کو
نوازتا ہے مگر خدارا اس کی عطا اسی پر بس نا سمجھو، وہ تو ایسا کریم ہے کہ
لوگو کو غیر اللہ کی پرستش کرتے دیکھتا پھر بھی ان پر اپنی نعمتوں کے
دروازے بند نہیں کرتا۔
اپنے ماننے والوں اور وفاداروں کو دینے والے تو بہت ہوتے ہیں مگر کیا کوئی
ایسا بھی ہے جو اپنے نافرمانوں اور سرکشوں، بے حیاؤں اور بے وفا لوگوں پر
بھی رحم کرے جی ہاں ہے ایک ذات پاک ایسی اور وہ ہے ہمارا رب “اللہ“ کے جس
کے سوا کوئی رب نہیں جب وہ اپنے جانثاروں اور وفاداروں کو نوازے گا روز
محشر میں تو وہ بھی دیکھیں گے جو ختم ہوگئے اور ہم بھی اور ہمارے بعد آنے
والے بھی۔ تو ہے کوئی جو اپنی وفا کا مرکز و محور اپنے رب یعنی اللہ عزوجل
کو بنالے انبیا کے طریقوں پر چلے اور مرتے دم تک اللہ کی محبت میں سرشار
رہے اور بعد از انعام یعنی جنت میں داخل ہونے کے بعد جب وفادار اور اللہ کے
وفادار کو جب اللہ کے دیدار کی شراب پلائی جائے تو وفادار کہتا رہے واہ واہ
۔۔۔۔۔ واہ واہ ۔۔۔۔۔ واہ واہ اور کیا سمجھے اللہ کا دیدار کیا ہوگا کاش
ہماری آنکھیں اور ہمارے اعمال ہمیں وہ روشن دن دکھا دیں کہ جب ہماری ادنیٰ
ذات اللہ کی بلند و بالا ذات کا دیدار کرے اور جنت کے مزے اور جنت کے
انعامات سے ہیچ نظر آئے اور حوض کوثر کا پانی ہو، پلانے والا نبی کریم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو اور دیدار ہو اللہ کا اور بندہ کہتا رہے
واہ واہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واہ واہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واہ واہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واہ واہ |