ایک دفعہ کسی کشتی میں دو لوگ سوار تھے ایک ملاح تھا اور
ایک عالم تھا۔ عالم نے بے حد حقارت سے ملاح سے کہا کہ کبھی کوئی علم حاصل
کیا ہے کچھ کیا ہے زنگی میں؟ ملاح نے کہا صرف کشتی چلانے کا ہنر جانتا ہوں
اور یہی روزی روٹی کا ذریعہ ہے۔ عالم نے کہا کہ تم نے تو اپنی پوری زندگی
برباد کر دی۔ تھوڑی دیر بعد اچانک سے کشتی میں سوراخ ہونے لگا اور پانی
بھرنے کی وجہ سے کشتی ڈوبنے لگی۔ تو ملاح نے اس عالم سے پوچھا کہ آپ نے
زندگی میں اتنا سفر کیا تو کبھی تیرنے کا ہہنر بھی سیکھا تو عالم نے جواب
دیا کہ نہیں یہ نہیں سیکھا تو ملاح نے جواب دیا سو اب آپ کی پوری زندگی کی
محنت غارت گئی اور زندگی بچانے کو کچھ کام نہ آئی۔
کام اگر آپکو کوئی بھی کام کرنا آتا ہو تو ایک فائدہ ہوتا ہے کہ کام خود
کیا جاسکتا ہے اور نقصان یہ ہوتا ہے کہ خاندان اور رشتہ دار پھر یہ کام مفت
میں ہی کروانا چاہتے ہیں۔ کام ٹونٹی ٹھیک کرنے سے لے کر کمپوٹر ونڈو کرنے
تک کوئی بھی ہو سکتا ہے آخر کو اپنے گھر والے تو اسوقت تک انجئنر نہیں
مانتے جب تک کہ فریج یا کمپیوٹر ٹھیک کر کے نہ دکھا دیا جائے۔۔ کام کے بارے
میں مشہور ہے کہ قائد نے کام کام کام اور صرف کام کا کہا کہ کسی بھی ملک کی
ترقی کے لئے کام از حد ضروری ہے مگر جو عوام ہے اس نے یہ سمجھا کہ کچھ بھی
کر لیا جائے وہ کام کے زمرے میں ہی آئے گا۔ آج کل تو خاص طور پر الیکٹرونک
آلات نے آپکو اتنا مصروف بنا دیا ہے کہ لگتا ہے ہر گھنٹے میں سے چالیش منٹ
ہاتھ میں ہے تو کام ہی تو کررہے ہیں۔
کام کرنے سے ذیادہ کیسے اور کس طرح کے کام کئے جارہے ہیں یہ بھی طے کرنا
سود مند اور نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے۔ آخر کو آپ عام طور پر زندگی کے سولہ
سال کسی نہ کسی طرح گھسیٹ گھساٹ کر پڑھنے کے لئے لگا لیتے ہیں مگر اگر آپ
ان سالوں کی بنیاد پر یہ سمجھیں کہ بہت فٹ فاٹ اور ٹپ ٹاپ سی نوکری مل جائے
گی تو یہ مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ کیونکہ آجکل زمانہ پڑھائی سے ذیادہ
سکھائی پر زور دیتا ہے کہ آخر آپ نے کچھ سیکھا یا نہیں اور اکثر معاشرے میں
بہت سے سیکھے ہوئے پڑھے ہوؤں سے ذیادہ فعال اور کار آمد نظر آتے ہیں۔ اسی
وجہ سے تو صفائی کرنے والے صاحب یونیورسٹی ڈگری ہولڈر کو فخر سے کہہ سکتے
ہیں کہ جی میرے پاس نوکری ہے تمہارے پاس کیا ہے؟
نوکری کا تصور یہ ہے کہ بس ڈگری ہاتھ میں پکڑی اور باہر نکلے تو نوکری آپکی
ہوئی تو سفارش اور رشوت کے بارے میں تو سب جانتے ہیں اسی لئے اس پر بات
کرنے کی کوئی خاص ضرورت تو ہے نہیں۔ اسی طرح اگر آپ کسی نوکری کے لئے سلیکٹ
ہو بھی جائیں اور ایک بنیادی سا سوفٹ وئر جیسا کہ مائیکرو سوفٹ آفس تک بھی
مکمل مہارت اور پروفیشنل طور طریقے کے ساتھ نہ استعمال کرنا آتا ہو تو
نوکری پہ رکھنے والے بہت جلد نکالنے والے بھی بن جاتے ہیں کیونکہ ایک بوجھ
ورکر آج مہنگائی کے دور میں کوئی نہیں برداشت کر سکتا۔ اسی طرح ایک لیکچرار
سیٹ کا خواہشمند جو ہو وہ کبھی پریزنٹیشنز دینے میں گھبراتا رہا ہو اور
کبھی معمولی سی ٹیچنگ بھی نہ کی پو تو اسکو تو رکھنے کا فائدہ۔ کیونکہ آگے
اسکی ہمت کا یقین بے یقین کا ہی شکار رہے گا۔
یقین نہ آئے تو مختلف کمپنیز کے مینجرز کے انٹرویوز پڑھ لیں انکے پاس بس
ایک ہی شکایت ہے کہ جو بھی ایمپلائز رکھیں جائیں الثر میں ہی سنجیدگی اور
پروفیشنلزم کی اتنی کمی ہوتی ہے کہ ان سے نجات حاصل کرنا ذیادہ آسان لگتا
ہے۔ یہ ضروری ہے کہ آُپ نے پڑھنے کے ساتھ ہی کچھ سیکھنے اور چھوٹے موٹے
کاموں کا آغا ز کر دیا ہو اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ چھوٹے کام آُپکو بڑے
کاموں کے لئے مہارت دیں گے اور موٹے کام آپکو دماغی طور پر توانا بنائیں
گے۔
آجکل ہارڈوئر کے کورسز ہیں، موبائل رئیپئرنگ، سولر پینل امپلانٹ، ٹیچنگ،
کوکنگ، نرسنگ اسطرح کے دیگر بہت سے کام اور کورسز دستیاب ہیں جنکو آپ
سٹوڈنٹ ہوتے ہوئے بھی باآسانی سیکھ سکتے ہیں۔ اسکا فائدہ یہ ہوگا کہ ایک
مہارت والا شخص کم ہی بےروزگار رہتا ہے۔ آخر کو مہارت پوری زندگی ساتھ
نبھاتی ہے ۔ |