لفظ بے پناہ قوت کے مالک ہوتے
ہیں۔ یہ خیالات میں‘ تبدیلی لاتے ہیں۔ جذبات میں ہلچل مچا دیتے ہیں۔ بنے
بنائے کو‘ بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں اسی طرح‘ بگڑے کے سدھار کا سبب بنتے ہیں۔
اسی لیے‘ سیانے کہتے آئے ہیں‘ پہلے تولو‘ پھر بولو۔ یہ بھی کہا جاتا رہا ہے‘
کہ تلوار کا گھاؤ بھر جاتا‘ لیکن زبان کا گھاؤ نہیں بھرتا۔ یہ تالحد کانوں
میں گونجتے رہتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے‘ کہ ٹی وی پر کہے گیے جملے پر‘
آدمی واہ واہ کر اٹھتا ہے‘ ہنس پڑتا ہے‘ رنجیدہ ہو جاتا ہے‘ یا ناگواری کا
اظہار کرتا ہے۔ حالاں کہ کہنے والا سامنے نہیں ہوتا۔ اسی طرح یہ بھی طے ہے‘
کہ کچھ لفظ وقتی اثرات کا سبب بنتے ہیں‘ جب کہ کچھ‘ وقت کی حدود سے باہر
نکل جاتے ہیں۔ اس کا معاملہ‘ لفظ کی معنویت سے ہوتا ہے۔ خوب صورت لفظ اور
خوب صورت معنویت‘ کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ ان کی کرواہٹ یا مٹھاس وقتی
نہیں‘ دیرپا ہوتی ہے۔ لفظ کی ساخت‘ استعمال‘ لہجہ‘ طور اور معنویت ہی‘
لسانیات کا علم کہلاتا ہے۔
آدمی پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ‘ مختلف حوالوں سے اظہار کرتا ہے‘ اظہار سنتا
ہے۔ بلاشبہ اس سے‘ اس کے ذہن کی لغت میں‘ ذخیرہءالفاظ کا اضافہ ہوتا ہے۔
اسے خوش آئند بات کہا جا سکتا ہے۔ ضرورت کے مطابق وہ ان الفاظ کا‘ ذہن کی
لغت کے مطابق مفاہیم کے تحت‘ استعمال بھی کرتا ہے۔ یہ سب روٹین کا مسلہ
ہوتا ہے۔ نادانستہ طور پر‘ الفاظ کی‘ اشکالی تبدیلیاں بھی وقوع میں آتی
ہیں۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہوتی‘ اسے فطری عمل کا نام دیا جا سکتا ہے۔ یہ
سب اہل زبان کے درجے پر فائز ہوتے۔ اکیلی سمجھنے کی سکل کے حامل لوگوں کو
بھی‘ اہل زبان کی صف میں کھڑا کرنا ہی‘ مبنی برانصاف ہے۔ زبان کے چاروں
ہنر‘ یعنی سمجھنا‘ بولنا‘ لکھنا اور پڑھنا کے حامل لوگوں کو؛ اہل سخن کا
نام نہیں دیا جا سکتا۔ شعر کہنا اور شعر پسند کرنا‘ قطعی دو الگ سے باتیں
ہیں۔ ہر چھوٹا بڑا شاعر‘ لفظوں کے مفاہیم‘ عموم اور لغت سے‘ الگ تر تلاشتا
ہے۔ الفاظ کی اشکالی تبدیلوں کا سزاوار ہوتا ہے۔ ان میں بڑا وہ ہی اہل سخن
قرار پاتا ہے‘ جس کے ہاں یہ عمل اوروں سے زیادہ‘ اور ہٹ کر ہوتا ہے۔ یہاں
بات؛ بڑے چھوٹے یا اوسط درجے کے اہل سخن کی رہ جاتی ہے۔
پرانے لوگ ہوں یا نئے‘ اس صورت سے الگ تر نہیں رہے۔ ہمارے بزرگ کمال کے
ذہین تھے۔ میر بیان‘ غالب فکر‘ ذوق محاورے کا استعمال‘ ظفر درد‘ علامہ
مشرقی مخصوص مقصدیت‘ حسرت بغاوت کے اظہار میں کمال رکھتے تھے۔ وہ ہمارے بڑے
تھے‘ ان کے قدم لینا اہل سخن پر واجب آتا ہے۔ زبان کے امور میں‘ ان کی سند
لینا‘ یقینا برا نہیں۔ اس کا مقصد یہ نہیں‘ کہ حال‘ ماضی قریب میں بڑے اہل
سخن موجود نہیں رہے۔ ایسا کہنا یا سمجھنا‘ زیادتی کے مترادف ہے۔ اس کا مطلب
یہ بھی ٹھہرے گا‘ کہ ہم اپنے عہد کے‘ اہل سخن کو جانتے نہیں۔ اگر جانتے
ہیں‘ تو ان کے کلام کے مطالعے کی‘ زحمت اٹھانا گوارا نہیں کی۔ یہ سراسر
زیادتی کے ہے۔ ہمیں گھر کی مرغی کو‘ دال برابر نہیں سمجھنا چاہیے۔ ان کی
توقیر‘ ہم پر واجب آتی ہے۔ ان کے کہے سے‘ فکری اور لسانیاتی تمسک کرنا
چاہیے۔ اس سے‘ ان کا فائدہ ہو نہ ہو‘ ہمارا ذاتی فائدہ ضرور ہے۔
جو آیا‘ چلا گیا۔ یہاں ہر کوئی‘ جانے کے لیے‘ آتا ہے۔ بیدل حیدری کہاں ہے‘
چلا گیا۔ میرے باپ کا نوکر تھا‘ جو میری فکری و لسانی ضرورتوں کے لیے ٹھہرا
رہتا۔ شکیب جلانی زبان پر گرفت رکھتا تھا‘ کہاں ہے۔ اقبال سحر انبالوی کہاں
اور کدھر ہے۔ صابر آفاقی کی آواز سننے کو‘ میرے کان ترستے ہیں۔ آپ کیا
سمجھتے ہیں‘ شعری رموز میں کمال رکھنے والا‘ اور لفظوں کو نئے مفہوم دینے
والا ٹھہرا رہے گا‘ نہیں‘ وہ کسی کا ملازم نہیں‘ ایک روز چلا جائے گا۔ رموز
شعر وسخن میں‘ سرور عالم راز اپنی مثل آپ ہے۔ لفظوں کا ایسا پاریکھ اور
کھوجی‘ شاید ہی کہیں دیکھنے کو ملے۔ پھول چاندپوری کے لفظوں کی‘ نشت و
برخواست کا‘ اپنا ہی کمال ہے‘ وہ بھی نہیں رہے گا۔
ان کی قدر کرو
یہاں کوئی رہنے والا نہیں۔
جو چلا گیا گیا‘
دوبارہ سے ملنے کا نہیں
ڈاکٹر سعادت سعید کو‘ میں اردو کی شعری زبان کا‘ جادوگر کہتا ہوں۔ ظالم غضب
اور دہائی کا زبان طراز ہے۔ یہ ہی نہیں‘ لفظوں کو ہر بار نئے معنی دیتا ہے۔
اشکالی تبدیلیاں لاتا ہے۔
اس کے ہاں‘ لفظوں کی تفہیم اور معنویت کے حوالہ سے‘ چند ایک مثالیں ملاحظہ
ہوں:
لاہور کی شاہ زادی:
تعارف:
حسن
کنول آنکھیں
چال
قیامت
خوش خرام
طور
چاہت معیادی
ستم ایجادی
مشروط محبت
عمومی عادت
صیادی
اس عادت کی سطح
اوج پر۔۔۔۔۔
یعنی زبردست چالو
دوستی اور دشمنی کے عناصر‘ متوازی اس کی ذات میں متحرک رہتے تھے:
وہ مری دوست تھی اور دشمن بھی
یعنی پرکار تھی اور سادی تھی
صنعت تضاد کا استعمال بلاشبہ بڑا پرلطف ہے‘ الگ سے بھی۔ آدمی کے‘ خیر وشر
کے مجموعے ہونے کے حوالہ سے‘ لفظوں کا چناؤ‘ خوب ہے۔
رات گزرنے کے منظر کے لیے‘ لفظوں کا انتخاب دیکھیے‘ مزا دینے کے ساتھ‘ ایک
الگ سے سوچ دیتا ہے۔ اگر اس زبان کو استعاراتی قرار دیتے ہیں‘ تو تفہیم کی
صورت قطعی مختلف ٹھہرے گی۔
چاند ستارے ڈوب رہیں گے شمعیں بھی گل ہو جائیں گی
آخر کو سورج کی پریاں ہمیں ستانے آئیں گی
سورج کی کرنوں کے لیے‘ سورج کی پریاں کے الفاظ‘ جہاں خوب صورتی کا سبب
بنتے‘ وہاں مترادف الفاظ کا تشکیل پانا‘ کوئی کم بات نہیں۔
نتیجہ
۔۔۔۔۔۔ ستانا۔۔۔۔۔۔
بھی پوشیدہ نہیں رکھا۔
نیلام گھر‘ ایک مخصوص معنی اور ایمج کا حامل ہے۔ ڈاکٹر سعادت سعید اسے‘
عموم سے ہٹ کر اور الگ تر معنی دے رہے ہیں۔
دنیا کے نیلام گھروں میں ارزاں ہیں انسان بہت
چیزیں ان پر فائق کیوں ہیں اس کا کھوج لگائیں گے
نیلام گھر کی تفہیم‘ وسیح تناظر کی متقاضی ہے۔
کیوں‘ ایسا سوالیہ ہے‘ جو ہر حساس دل پر دستک دیتا ہے۔
یہاں لفظ ارزاں کے‘ عمومی معنی نہیں ہیں۔ یہ انسانی سماج کے رویے کو واضح
کر رہے ہیں۔
بستیاں بسا لی ہیں دور آشناؤں نے
ملک گھیر رکھے ہیں قسمت آزماؤں نے
کیوں نہ بھول جائیں وہ گرم سانس رشتوں کو
جن کو کھینچ رکھا ہو سرد آبناؤں نے
وقت شناش اور خود غرضوں کے لیے‘ کیا خوب لفظ لاتے ہیں۔ دور کے ساتھ‘ آشنا
کے لاحقے نے‘ لسانی حسن میں ہی اضافہ نہیں کیا‘ بلکہ معنویت میں بھی‘ جدت
پیدا کر دی ہے۔ سعادت سعید کے فن کا یہ ہی کمال ہے‘ کہ مستعمل کو بھی‘ نیا
روپ دے دیتے ہیں۔ دوسرے مصرعے میں بڑے ملیح انداز میں صدیوں سے چلی آتی‘
بدقسمتی کو بھی واضح کر دیا ہے۔ اسی غزل کا دوسرا شعر بھی‘ کمال کی بن ٹھن
رکھتا ہے۔ لفظوں کی یہ جادوگری‘ ہی اس کی اردو شاعری میں پہچان ٹھہرتی رہے
گی۔
گرم سانس رشتے اور سرد آبناء کا استعمال‘ بہت ہی متاثر کرتا ہے۔ خوش ذوق
قاری‘ لسانی اور فکری رسائی کی داد دیے بغیر رہ نہیں سکتا۔ ان لفظوں کی
تفہیم‘ اپنا مخصوص تاثر ترکیب دینے میں کامیاب رہتی ہے۔
یگوں یگوں کی اس بدقسمتی اور بد نصیبی کے اظہار کو‘ اس سے بڑھ کر لفظوں کا
پیرہن کیا میسر آ سکے گا۔
سعادت سعید کے ہاں‘ گلابی چمن دیکھنے کو ملتے ہیں۔ گلابی رنگ کے حسن کا
تصور کریں‘ روح میں تازگی محسوس ہوتی ہے۔ چمن کی بات‘ اپنی ہی ہوتی ہے۔
گلابی باغ میں اقامتی کی مسروری کا اندازہ اتنا آسان نہیں۔ اپنے دیس کی
محبت‘ ہمیشہ سے مسلم رہی ہے۔ اپنا دیس دنیا کا خوب صورت ترین دیس ہوتا ہے۔
دیس کے لیے لفظ چمن مستعمل ہے۔ مرکب گلابی جمن بالکل الگ سے ہے۔
وطن سے دور عزیزو وطن نہیں ملتے
محبتوں کے گلابی چمن نہیں ملتے
وطن نہیں ملتے‘ لفظوں کا سیٹ اپ اپنا ہی ہے۔ مائی باپ نہیں ملتے‘ بہن بھائی
نہیں ملتے وغیرہ عام سننے میں آتے ہیں۔ وطن نہیں ملتے‘ کم از کم میرے سننے
میں نہیں آیا۔ نہیں ملتے‘ کا عام مفہوم اور سننے سے متعلق ہے۔ اب اسے
پڑھیں:
وطن سے دور
عزیزو!
وطن نہیں ملتے
محبتوں کے
گلابی چمن نہیں ملتے
تکرار لفظی بامزہ ہے ہی‘ دوسرے مصرعےمیں‘ لفظوں کی تشبیہی ادا‘ اپنی ہی ہے۔
یہ شاعر عصر‘ لفظ گر تو ہے ہی‘ معنی طرازی میں بھی کچھ کم نہیں۔
ہجر کے لمبے سلسلے اس پہ غضب کی غیرت
خواب بہار کے سبب اجڑے چمن میں آ گیے
ہجر کے لمبے سلسلے
اس پہ
غضب کی غیرت
خواب بہار کے سبب
اجڑے چمن میں آ گیے
تکرار حرفی تو ہے ہی‘ غضب کی غیرت نے‘ تفہیم کا جو جادو جایا ہے‘ اس کی
اپنی ہی بات ہے۔ اپنا جھونپڑا پرائے محل سے خوب صورت اور پیارا ہوتا ہے۔
اپنے ہاں بےتکلفی ہوتی ہے‘ لیکن کسی دوسرے کے ہاں ہر موڑ پر غیرت آڑے آتی
ہے۔ خوب تر کی تلاش میں یہ کچھ کچھ ہاتھ لگتا ہے۔ گھر سوکھی پردیس کی چوپڑی
سے بہتر ہوتی ہے۔ ہر لفظ بول رہا ہے استعمال کنندہ بڑا باسلیقہ ہے۔
اپنے لٹنے کے سبب تک پہنچے
سلسلے عالی نسب تک پہنچے
توڑ ڈالیں گے وہ طبقات کے بت
بت شکن عظمت رب تک پہنچے
اس سے بڑھ کر‘ نوک دار‘ کھرا کھرا اور پرچوٹ لفظوں کا استعمال‘ کیا ہو سکتا
ہے۔ ہر لفظ نئی معنویت کے ساتھ وارد ہوا ہے۔ ہر لفظ‘ مقتدرہ طبقوں کی
نفسیات کی‘ کھل کھلا کر عکاسی کر رہا ہے۔
اردو کے شعری لفظوں کے‘ اس جادوکر کا ہر لفظ‘ ترکیبی‘ صوتی اور معنوی
اعتبار سے‘ ماضی اور حال کے‘ نہاں کونوں کھدروں سے‘ حقائق کی پنڈیں‘ اٹھا
اٹھا کر لاتا چلا جاتا ہے‘ اور قاری پر حیرت اور نئے پن کا‘ جہاں آباد کیے
جاتا ہے۔ اسے لفظوں سے‘ منظر کشی کا گر خوب خوب آتا ہے۔ سعادت سعید‘ آتے
وقتوں میں‘ جدید اردو شعر میں‘ لفظ گری اور معنی تراشی کی یقینا علامت
ٹھہرے گا۔
ستمبر ٢٠١٤ ٣٠ |