کہا جاتا ہے کہ ہنسنا اچھی بات
ہے یہ انسانی صحت کے لئے ایدک دوا کی طرح فائدہ مند ہے اور یہ بھی کہا جاتا
ہے کہ اگر آپ بغیر کسی وجہ کے ہنس رہے ہیں تو آپکو یقینی طور پر کسی دوا کی
ضرورت ہے۔
ایک خبر نظر سے گزری کہ دنیا بھر میں مسکراہٹ کا عالمی سن منایا گیا۔ اب حد
یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ مسکراہٹ تک کا بھی عالمی دن منایا جائے گا یا تو
انسان اتنا مصروف و کنجوس ہو گیا ہے کہ مسکرانا بھی صرف ایک دن تک محدود کر
دیا ہے یا مسکراہٹ ہو اتنی مہنگی گئی ہے کہ انسان کو ٹیکس سے بچنے کی وجہ
سے مسکرانا صرف ایک مخصوص دن ہی چاہئے۔
کہا جاتا ہے کہ مسکراہٹ ایک عالمی زبان ہے مطلب یہ ہے کہ مسکراہٹ کا مطلب
کسی بھی خطے، نسل، رنگ، مزہب میں گرم جوشی اور ویلکم کرنے کا ہی ہوگا۔ اس
کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان کسی خاص وقت یا خاص فرد کے سامنے ہی
مسکرائے۔ اب یہ ہے کہ جو بچے ہیں وہ کسی کو بھی دیکھ کر کبھی بھی راخ دلی
سے مسکراہت نچھاور کرتے ہیں جبکہ جوں جوں عمر بڑھتی جاتی ہے انسان کے اندر
اونچ نیچ اور سوچ سوچ کر مسکرانے کی عادت پروان چڑھنے لگتی ہے۔
ریسرچ بھی یہی بتاتی ہے کہ ایک بچہ دن میں ساٹھ دفعہ مسکرا سکتا ہے جبکہ
ایک جوان انسان تو دن میں محض سات دفعہ بھی مشکل سے ہی مسکراتا ہے۔ ویسے
مسکراہٹ کی پریکٹس کرنی تو سال کے تین سو پینسٹھ دن ہی چاہئے اور کسی ایک
مخصوص دن کا انتظار کرنا بے وقوفی ہے کیونکہ یقینی طور پر جب روز مسکرائیں
گے نہیں تو چہرے کے مسلز اتنے کھچاؤ کا شکار ہو جائیں گے کہ انسان کو جب
سال بعد مسکرانے کا موقع ملے گا تو یہ کام خاصا مشکل لگے گا اسی لئے یہ
سوچنا کہ ایک دن مسکرا لیا کافی ہے در حقیقت کافی نہیں ہے۔
پھر مسکراہٹ کا یک فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ وہ واحد ایکٹیویٹی ہے جس سے بیک
وقت چہرے کے سارے مسلز حرکت میں آتے ہیں اور سب سے بڑھ کر جھریوں کی آّد
بھی لیٹ ہوتی ہے صرف ایک اس ننھی سی سکراہٹ کی وجہ سے۔
مسکرانے میں ایک چیز کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اگر لڑکیاں راہ چلتوں کو
دیکح کر مسکرائیں گی تو وہ کنفیوژن کا شکار ضرور ہوں گے کہ یہ دیکھ کر
مسکرائی یا مسکرا کے دیکھ رہی ہے۔ اسی طرح لڑکوں کو بھی مسکراہٹ اچھالتے
ہوئے اس چیز کو مد نظر رکھنا چاہئے کہ آخر کو ئی بھائی وائی تو پاس نہیں
ورنہ یہ نہ ہومسکرانے کے واسطے دانت ہی نہ رہیں۔
مسکراہٹ ویسے تو چہرے پر سجا کر رکھنا اچھی بات ہے اور سب سے بڑھ کر جب آُپ
گھر میں داخل ہوں اور آپکا تعلق مظلوم قسم کے شوہروں کی قسم سے ہو مگر اس
بات کاخیال رکھا جانا ضروری ہے کہ اگر خاتون خانہ کو غصہ ہو اور آگے سے بے
وجہ کی مسکراہٹیں ہی اچھالی جائیں تو دوسری جانب سے جوتیاں اچھالنے کا خدشہ
بھی موجود رہتا ہے۔
مسلمان ہوتے ہوئے مسکرانا تو اور بھی فائدہ مند ہے اگر اسکو سنت سمجھ کر
کیا جائے اور صدقہ جاریہ ہے انسان کے نامہ اعمال میں اضافے کا موجب بھی ہے
آج کے انسان نے ماتھے پر بلوں کو اپنی شان سمجھ کر ایسے چہرے پر سجا لیا ہے
کہ اسکو مسکرانا بھی یاد کرانا پڑ رہا ہے۔ |