بچیوں کے مسائل بڑے سنگین ہیں
مگر معاشرے میں کوئی ان کو اجاگر نہیں کرتا۔ کوئی ان پر بات نہیں کرتا۔ برے
حالات میں کوئی ان کی مدد کو بھی تیار نہیں ہوتا۔ کہاں جائیں کیا کریں۔ اکا
دکا بعض ادارے کسی لڑکی کی مدد کو آتے ہیں مگر ان کے اپنے مفادات ہیں اور
وہ ان مفادات کی قید سے آزاد نہیں ہو سکتے۔ شادی شدہ بچیاں جن کے خاوند
حالات کے ساتھ رویہ بدل لیتے ہیں، کوئی ٹھکانہ نہیں پاتیں۔ ماں باپ اگر
زندہ ہوں تو کسی حد تک آسرا ہو جاتا ہے ورنہ بھائی اور بھابیوں کے رحم و
کرم پر ان کی حالت مزید بدتر ہو جاتی ہے۔ قانونی جنگ ممکن ہے مگر وکیلوں کا
خرچ کون دے؟ پھر وہ لڑکی جس کا خاوند اس سے ناخوش ہو معاشرے کی ہوس پرست
نظروں کا شکار رہتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو پالنا اور خود کو معاشرے کے
ظالم لوگوں سے بچانا بڑا مشکل ہو جاتا ہے۔ جن کے ماں باپ زندہ ہوتے ہیں
انہیں آسرا تو مل جاتا ہے مگر بوڑھے ماں باپ بھی بہت سے معاملات میں بڑے بے
بس ہوتے ہیں۔ وہ جوانوں کی طرح کوئی مثبت قدم اٹھانے سے لاچار نظر آتے ہیں۔
بس کڑھ سکتے ہیں۔ مل کر رو سکتے ہیں۔ چنانچہ عام طور پر یہی کرتے ہیں۔
وہ میری سٹوڈنٹ ہے۔ ایم ایس سی کے آخری سال میں تھی کہ ماں باپ نے شادی کر
دی۔ لڑکا اس کا کزن تھا۔ چھوٹا موٹا کاروبار کرتا تھا۔ بی اے پاس تھا۔ ماں
باپ نے یہ سوچ کر کہ گھر کا لڑکا ہے، ہر طرح دیکھا بھالا ہے، رشتہ طے کر
دیا۔ شادی ہوئی تو خاوند نے پڑھائی چھڑا دی۔ وہ بی اے تھا اور اسے پسند
نہیں تھا کہ بیوی اس سے زیادہ پڑھ جائے۔ حالانکہ اب فقط دو تین ماہ کی بات
تھی۔ اس نے کوشش بھی کی مگر خاوند کی ضد کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے اور وہ
یونیورسٹی چھوڑ کر گھر گرہستی میں مصروف ہو گئی۔
دو سال پہلے وہ میرے پاس آئی۔ چھوٹے چھوٹے تین بچے ہمراہ تھے رو رہی تھی۔
خاوند شروع میں بہت پیار کرتا رہا۔ بچوں اور اس کا بہت خیال رکھتا رہا۔
معقول وقت ان کے ساتھ صرف کرتا رہا۔ کاروبار میں بیوی کی دلچسپی نہ ہونے کے
باوجود اپنے کاروبار کی باتیں بیوی کو بتاتا رہا مگر پھر اچانک وہ گھر لیٹ
آنے لگا۔ گھر کے ا خراجات میں کمی کر دی۔ بیوی نے پوچھا تو بتایا کہ
کاروبار کچھ ٹھیک نہیں رہا۔ محنت بھی زیادہ کرنی پڑتی ہے اور آمدن بھی بہت
کم ہو گئی ہے۔ اب اس نے بچوں کو وقت دینا اور توجہ کرنا بھی بالکل چھوڑ دیا۔
پھر راتوں کو غائب ہونا شروع ہو گیا۔ بیوی ایک دن اس سے بہت ناراض ہوئی کہ
یہ تو کوئی طریقہ نہیں۔ کچھ بتاؤ کہ کیا مشکل کا شکار ہو۔
’’میری مشکل کی وجہ تم ہو۔ مجھے تم سے نفرت ہے مگر خاندان کی وجہ سے تمہیں
چھوڑ بھی نہیں سکتا اور جس سے محبت کرتا ہوں اس سے شادی بھی نہیں کر سکتا۔
آج تم پوچھ رہی ہو تو بتا رہا ہوں کہ اب میں تمہارا ذمہ دار نہیں۔ میں جا
رہا ہوں۔ اس سے شادی کرنے جس سے میں محبت کرتا ہوں۔ آج کے بعد میرا تمہارے
اور تمہارے بچوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔‘‘ اس سے پہلے کہ وہ کچھ جواب دیتی
وہ جا چکا تھا۔ کئی دن تک وہ موبائل پر رابطہ کرنے کی کوشش کرتی رہی مگر
موبائل بند تھا۔ شاید اس نے نمبر بدل لیا تھا۔ بہت سے لوگوں سے پوچھتے
پوچھتے اس کے نئے پتے پر پہنچی مگر نئی دلہن نے بے عزت کر کے نکال دیا
اوراسے خاوند کو ملنے نہ دیا۔
میرے پاس وہ آئی تھی کہ اب کیا کروں۔ باپ نہیں ماں بھائیوں کے ساتھ رہ رہی
ہے۔ کرائے کا چھوٹا سا مکان ہے جہاں شاید وہ سما نہیں سکتی۔ مگر کیا کرے
اپنا گھر بھی کرائے کا ہے۔ کرایہ نہیں دے سکتی۔ خاوند سے کسی طرح صلح ہو
جائے تو زندہ رہنے کا سامان ہو سکتا ہے ورنہ وہ اور بچے تو اب زندہ درگور
ہیں۔ میں کیا کر سکتا تھا۔ بھلا ہو مسعود صادق ایڈووکیٹ کا۔ میرا سٹوڈنٹ ہے
اور چھوٹے بھائیوں کی طرح ہے۔ عدالتی ہر معاملے میں میرا بہت بڑا مددگار ہے۔
اس سے بات کی تو اس نے کہا کہ قانونی کارروائی ممکن ہے مگر وہ خود اس کے
خاوند سے پہلے بات کرے گا۔ مسعود کی بات چیت کے نتیجے میں قانونی کاروائی
کے ڈر سے اب اس کا خاوند مکان کا کرایہ اور بچوں کے کچھ اخراجات دے رہا ہے۔
بچیآج کل خود بھی ایک سکول میں ملازمت کر رہی ہے۔ یوں کسی نہ کسی طرح اس کی
گزر بسر ہو رہی ہے۔
دو دن پہلے لمبے عرصے کے بعد ایک دفعہ پھر میرے پاس آئی۔ بہت اداس اور
مخموم تھی کہ اب وہ سب کچھ جو دو سال پہلے اس کے ساتھ ہوا تھا اب اس کی ایک
سہیلی کے ساتھ ہو رہا ہے۔ کہہ رہی تھی ’’سر۔ دس سال ان کی شادی کو ہو چکے۔
دو بچے بھی ہیں۔ یکایک اس کے میاں کا سارا پیار نفرت میں کیوں بدل گیا ہے۔
یہ عورتیں کیسی ہیں جو ایک بیاہتا عورت کا گھر اجاڑ کر اپنا گھر بناتی ہیں۔
کوئی ایسی عورتوں کواور یسے مردوں کو پوچھنے والا نہیں؟ کیا اس ملک میں
کہیں ایمان، انصاف، حیاء، کوئی اصول،کوئی ضابطہ ہے؟ کیا بے بس لوگوں کے لئے
صرف ذلت ہی رہ گئی ہے؟‘‘ اس کی باتیں سن کر مجھے یاد آیا، کچھ دن پہلے ٹی
وی پر ایک بڑے بزنس مین کا انٹرویو ہو رہا تھا۔ اینکر نے اس سے اس کی
کامیابی کا راز پوچھا تو اس نے ہنس کر جواب دیا کہ میں ہر چیز کو پہیے لگا
دیتا ہوں۔ اب جس ملک میں انصاف کو پہیے لگتے ہوں، ایمان کو پہیے لگتے ہوں،
حیا کو پہیے لگتے ہوں، ہر اصول اور ضابطہ پہیےوں پر چل رہا ہو، وہاں کوئی
چیز کیسے ٹھہر سکتی ہے؟
لڑکے شادی کے بعدبیویوں کو نوکری نہیں کرنے دیتے۔ لڑکیوں کو اپنے پاؤں پر
کھڑا نہیں ہونے دیتے۔ اپنی جعلی محبت کی زنجیروں میں قید کر کے بالکل اپاہج
اور ناکارہ بنا دیتے ہیں اور جب وہ مکمل اپاہج اور ناکارہ ہو جاتی ہے، کسی
کام کی نہیں رہتی تو نئے شکار تلاش کر لیتے ہیں۔ وہ عورتیں جو سب کچھ جانتے
ہوئے بھی ان سے شادی کرتی ہیں، کس قدر خود غرض اور بری ہوتی ہیں کہ اپنے
ذاتی مفاد کی خاطر ساتھی عورتوں کا دکھ محسوس ہی نہیں کرتیں یا شاید وہ خود
بھی حالات کے ہاتھوں بہت مجبور ہوتی ہیں۔ معاشرے کی بے حسی کہ سب کچھ دیکھ
کر بھی احتجاج کرنے کی بجائے سب کچھ قبول کر لیتا ہے۔ کاش ہمارے لکھنے والے
سیاسی مار ڈھار سے ہٹ کر کبھی کبھی ان معاشرتی برائیوں پر بھی لکھیں۔
موجودہ حالات میں یہ بھی ایک ضروری جہاد ہے۔ |