ایک ایسی تحر یر جس میں اپنو ں
کے کر ب و الم ،رنج و ستم سے پر دہ اٹھا یا جا ئے گا،ایک ایسی داستان جس
میں ’’اپنو ں پہ ستم غیر و ں پہ کر م‘‘کی کہا نی کو منظر عام پر لا یا جا
ئے گا۔
گذشتہ ایا م کے وہ تما م لمحے جنہو ں نے دیئے زخم یا پھو ل، وہ تما م حقا
ئق جن پر پڑ گئی وقت کی دھول،
ہر درد کا حسا ب ، ہر سوال کا جواب، ایک یا دگار سلسلہ وار مبنی بر حقائق
سرگذ شت، مجھے زند گی میں محبتو ں کے جھو نکے بھی نصیب ہو ئے اور نفر توں
کے طو فا ن سے بھی سا بقہ پڑا ،عقیدت و محبت کے پھو ل بھی نصیب ہو ئے اور
حسد کے کا نٹے بھی ہا تھ لگے ۔
میں کیا سنا ؤں حالِ دل اب قا بل بیا ں نہیں
زخم کد ھر کدھر نہیں در د کہا ں کہا ں نہیں
جتنی زند گی گزر چکی ہے گر دن مو ڑ کر دیکھتا ہو ں تو ایک نمو د ِغبا ر سے
زیا دہ نہیں اور جو کچھ سا منے ہے وہ بھی جلوہ سراب سے زیا دہ نظر نہیں آتا
۔پہلے مجسم امید تھا اور اب سراپا حسر ت ہو ں ،ایک صبح امید تھی کہ دیکھتے
ہی دیکھتے گذر گئی اور ایک شا م ما یو سی تھی جس کی تا ریکی کو امید کا کو
ئی چراغ آج تک روشن نہیں کر سکا ۔ امید و حسر ت کے دو دن ایک ہو س ِتعمیر
میں بسر ہوا اور ایک ما تم ِتخر یب میں ،ایک دن تنکے چنتے رہے دوسر ے دن
دیکھا تو را کھ کا ڈھیر تھا جس پر خو ب جی بھر کے آنسو بہا ئے ۔
مسا فر ہو ں نہ جا نو ں پھر بھی ہے منزل کہا ں میر ی
ہنسی اب تک اڑاتا ہی رہا ہے آسما ں میر ی
کبھی اظہا رِ غم کھل کے نہ کر پا ئی زبا ں میر ی
سرا پا در د ہو ں حسر ت بھری ہے دا ستاں میر ی
عہدِ طفلی ایک خوا بِ عیش و عشر ت تھا ،جنو ن و مستی کا زما نہ تھا جب
آنکھیں کھلیں تو عہدِ شبا ب کی صبح ہو چکی تھی ،خوا ہشوں اور ولو لو ں کی
شبنم سے خا رستا نِ ہستی کا ایک ایک کا نٹا پھو لو ں کی طر ح سر سبزو شا دا
ب تھا اپنی طر ف دیکھا تو پہلو میں دل کی جگہ سیما ب کو پا یا دنیا پر نظر
ڈالی تو معلو م ہوا کہ اس صبح ِفریب کے لئے نہ تو سو زو تپش کی دو پہر ہے
اور نہ نا امید ی و نا کا می کی شا م ۔
کتنی حسر تیں تھیں ،کتنی آرزوئیں اور تمنا ئیں ،کیسی امیدیں اور کیسے سپنے
تھے ،کئی با ر رنجیدہ ومغمو م قلب کو سا ما نِ تسلی فراہم کر نا پڑا ،کئی
با ر اشکو ں سے بھر ے جا م چھلکا نا پڑا ،کئی نوائب و مصا ئب کے پہا ڑ ٹو
ٹے،نہ جا نے کتنے حوا دثا ت و آفا ت کا سا منا ہوا ،کئی با ر یہ دل ٹو ٹا ،کئی
با ر رنج و الم سے پُر ایا م آئے ،کئی با ر امیدو ں و آرزؤں سے بھر ے جا م
ٹو ٹے ،کتنے تغیر ا ت رو نما ہو ئے ،کبھی خو شی کبھی غم ،کبھی خو شی و غمی
کا ملا جلا سنگھم ،کبھی خو ابو ں کے محل کی شکستگی ،کبھی آرزؤں کا خو ن ،کبھی
نو شتہ تقدیر کا ما تم ،تو کبھی دنیا کے گلے شکو ے ۔
وہ وقت میں کیسے فرا مو ش کر سکتا ہو ں ،ان لمحات کو حاشیہ خیا ل سے کیسے
مفقو د کر سکتا ہو ں،اس تر ش و تلخ لمحے کو میں کیسے نگا ہو ں سے اوجھل کر
سکتا ہو ں جس کی تکلیف و چبھن نے نہ صر ف جگر کو زخمی کیا بلکہ مسل کر رکھ
دیا جس کے تصور سے دل نہ صر ف چو ر چو ر ہوا بلکہ ہمیشہ کے لئے بجھ گیا ۔
خوا ب تھا بکھر گیا خیا ل تھا ملا نہیں
مگر دل کو کیا ہو ا یہ کیو ں بجھا پتہ نہیں
ہر ایک دن اداس تما م شب ادا سیا ں
اپنو ں سے کیا بچھڑے جیسے کچھ بچا نہیں
کم سنی ہی میں میر ا سینہ زخمو ں سے چھلنی ہوا ،دو ر شبا ب آیا تو ’’رو ز
ایک زخم ِتا زہ تھا زخم ِکہن کے سا تھ ‘‘مگر پھر بھی اپنو ں کے تئیں میر ے
رویے میں کو ئی تلخی اور نہ لب پہ حر ف شکا یت اور زبا ں پر بد دعا آئی
،بلکہ جنہو ں نے میر ی آرزؤں اور تمنا ؤں کا خو ن کر کے میر ی دنیا کو تا
ریک و تا راج کر دیا انہی کو پیا ر سے سمجھا نے کی آج تک مسلسل کو شش کر
رہا ہو ں۔
اپنو ں کے طر ز عمل سے میں انتہا ئی بد دل ہو چکا تھا ،اور حو ا دثِ زما نہ
کی کئی کر شمہ سا زیا ں دیکھ چکا تھا ،چنا نچہ پیا رے وطن کی سر زمین پر
قدم رکھنے کے چند دن بعد جب میں نے رزق کا نوالہ منہ میں رکھا ،رو ٹی کے اس
ٹکڑے نے حلق سے نیچے اتر تے ہو ئے سر گو شیو ں میں مجھ سے کہا میں وطن کی
مٹی کی تخلیق ہو ں۔ مجھے محسو س کر و، مجھ میں کیا کھو ٹ ہے ؟میر ا کیا قصو
ر ہے ؟میرا دل تمہا رے لئے کشا دہ ہے ،یہ گھا ؤتو مٹی کے گھا ؤ نہیں ہیں
۔یہ جن کو تم اپنا کہتے ہو ،جن کو اپنا ہمدرد و خیر خوا ہ سمجھتے ہو ،جو
بظاہر پیا ر و محبت کا دم بھر تے ہیں ،یہ سب تم پر نہیں مجھ پر ضر بیں لگا
رہے ہیں ۔آہ! مجھ سے بد دل نہ ہو نا ،پیا رے وطن سے بد دل نہ ہو نا ،وطن کی
مٹی تو تمہیں پیا ر کر تی ہے ،وہ صر ف تمہیں پہچا نتی ہی نہیں بلکہ تمہا رے
دکھ در د کو بھی سمجھتی ہے ،آنکھو ں سے آنسو ٹپکنے لگے اور یہ آنسوؤں سسکیو
ں اور ہچکیو ں میں تبدیل ہو نے لگے ۔روٹی کے نوالے آنسوؤں سے تر ہو کر حلق
سے نیچے اتر نے لگے۔
میں ایک شدید اضطرا بی کیفیت کا شکا ر ہو گیا تھا ،اپنو ں کے ہر کر ب و الم
پر حیر ت ہو رہی تھی ،میں سو چ رہا تھا کہ ساری دنیا میں جرائم ہو تے ہیں
مکر و فریب اور جھو ٹ و فرا ڈ ہو تا ہے، لیکن ایک طبقہ جر م کر تا ہے اسے
مجر م کہا جا تا ہے ہر شخص مجر م نہیں ہو تا اور جو مجر م ہو تے ہیں ان کے
با ر ے میں معلو م ہو تا ہے ان سے ہو شیا ر رہا جا تا ہے ان سے نفر ت کی جا
تی ہے انہیں سزا ئیں دی جا تی ہیں قدم قدم پر مجر م نہیں ہو تے ہر لمحے
جرائم نہیں ہو تے ہر شخص جر م نہیں کر تا ،لیکن یہا ں میں اپنو ں کے درمیا
ن رہ کر بھی مجر م تھا، شا ید میر ی بے گنا ہی یہی میر ا جر م تھا ،کیا بے
گنا ہ ہو نا جر م ہے ؟
جب اپنے ہی نا م ِمحبت لے کر ستم ڈھا تے ہیں
بیگا نو ں کو نیند آجا تی ہے اغیا ر بھی شر ما جا تے ہیں
ایک دن سر جھکا ئے بیٹھا تھا کہ بیتے ہو ئے پل یکے بعد دیگرے یاد آنے لگے
،تخیلا ت و تصو را ت کا لا متنا ہی سلسلہ شر و ع ہو گیا ،اپنی آرزؤں اور
تمنا ؤں کا خو ن ہو تا دیکھ کر نو شتہ تقدیر پر ما تم کر نے لگا ،آنکھیں
اشکبا ر ہو گئیں ،دل پھو ٹ پھو ٹ کر رو نے لگا ،جب سر اٹھا یا تو کسی نے
مجھ سے سر گو شی کر تے ہو ئے کہا کہ اب یا دِ ما ضی پر اشک بہا نا لا حاصل
ہے ،بیتے ہو ئے لمحات پر رو نا فضو ل ہے۔ سینہ سپر ہو کر مو جو دہ حالا ت
کا مقا بلہ کر و پھر دل و دما غ پر یہ خیا ل رقص کر نے لگا ۔
شد تِ در د سے شر مندہ نہیں میر ی وفا
رشتے گہر ے ہیں تو زخم بھی گہر ے ہو نگے
تنو یر احمد را جو رویؔ
دوسری قسط جلد ہی منظر عام پر آئے گی۔ان شا ء اﷲ |