ہاجراں‘ مزاج کی مزاج کی تھوڑا
کڑک تھی‘ لیکن سچی بات تو یہ ہی ہے‘ کہ وہ دل کی بری نہ تھی۔ ایسی ہم درد
اور باکردار عورتیں‘ کم کم ہی دیکھنے میں آتی ہیں۔ سسرال کے دور دراز کے
رشتہ داروں سے بھی ملتی۔ ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوتی۔ ان سے بڑے پیار سے
پیش آتی۔ خاوند کے بہن بھائیوں کے صدقے واری جاتی۔ ان کی ہر ناگزیر ضرورت
پوری کرتی۔ ساس اور سسر اس کے ہاں ٹھہرے۔ ان کی دوسری بہووں نے‘ انہیں
دھتکار دیا تھا۔ بہووں سے کیا گلہ‘ ان کے بیٹے ہی‘ خودغرض اور مطلب پرست
تھے۔ اس نے ساس اور سسر کو‘ پھولوں کی سیج پر بیٹھائے رکھا۔ ساس تو چل بسی‘
ہاں سسر اب بھی زندہ تھا‘ اور اسی کے ساتھ رہ رہا تھا۔ بڑھاپے کا عالم تھا۔
ہاجراں‘ اس کی سگی بیٹیوں سے بڑھ کر‘ خدمت کر رہی تھی۔
اچانک ناجانے سراج کو کیا ہوا‘ چنگا بھلا تھا‘ بستر لگ گیا۔ عورت ہوتے‘ وہ
سراج کو ہسپتالوں میں لیے پھری۔ بوڑھا سسر بھی‘ اس کے ساتھ ساتھ‘ بڑھاپے
میں‘ ہسپتالوں کی خاک چھانتا پھرا۔ اس کی بیماری کے دورانیے میں‘ کسی نے‘
ان کی جھوٹ موٹھ کی بھی خبر نہ لی۔ وہ اپنوں کی یہ بےحسی دیکھ کر تنہائی
میں سسک پڑتی۔ گھر کی محنت اور مشقت سے بنائی‘ سوئی سلائی تک بک گئی‘ لیکن
سراج بچ نہ سکا‘ اور موت کے بےرحم پننجوں نے اسے دبوچ لیا۔
سراج کی لاش صحن میں پڑی تھی۔ درانیاں جیٹھانیاں اور دونوں نندیں منہ جوڑ
کر باتیں کر رہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سراج کا ڈھنگ سے علاج نہیں کرایا
گیا۔ بےچارہ بےعلاجا مر گیا۔ چھوٹی نند نے کہہ بھی دیا۔ ہاجراں سسک کر رہ
گئی۔ وہ سراج پہوڑی خراب نہیں کرنا چاہتی تھی ورنہ وہ بھی منہ میں زبان
رکھتی تھی۔ بوڑھا سسر بڑی حسرت اور مایوسی سے کبھی بیٹے کی لاش دیکھتا اور
کبھی بہو کا منہ دیکھنے لگتا۔ اس کے چہرے پر قیامت کی بےبسی اور بےچارگی
تھی۔
بے علاجا مرنے کی بات‘ غلط اور درست کے درمیان تھی۔ اس کا خاوند‘ کون سا
کوئی سیٹھ تھا۔ مزدور پیشہ تو تھا۔ وہ گھر کا سارا سامان‘ بیچ چکی تھی بس
مکان بکنا باقی تھا‘ شاید وہ بھی بک جاتا‘ لیکن اس سے پہلے ہی‘ سراج چل بسا
تھا۔ وہ لوگ باتیں بنا رہے تھے‘ مالی مدد تو دور کی بات‘ انہیں تو کبھی
زبانی کلامی پوچھنے کی بھی توفیق نہ ہوئی تھی۔ ہاجراں نے‘ بوڑھے سسر کی
ذہنی اور قلبی حالت کو بھانپ لیا تھا‘ وہ اس کے پاس بیٹھ گئی‘ اور گلے لگ
کر‘ پہلے خوب روئی‘ جب من کا بوجھ تھوڑا ہلکا ہوا‘ تو اس نے اپنے سسر سے
کہا: ابا آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں‘ مرا تو میرا خاوند اور بچوں کا باپ مرا
ہے‘ میں ابھی زندہ ہوں‘ میں آپ کا بیٹا ہوں‘ آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں۔
کوڑا وٹا‘ یعنی مرگ کی روٹی‘ ہاجراں کے بھائیوں نے دی۔ اس موقع پر بھی
باتیں ہوئیں‘ ہلہ گلہ بھی ہوا۔ اس کی چھوٹی نند کا موقف یہ تھا‘ کہ صاف اور
اچھی بوٹیاں‘ ہاجراں کے پچھلوں کو مہیا کی جا رہی ہیں‘ لمبا شوربہ اور کھمب
کھلڑیاں‘ اس کے سسرال والوں کو دی جارہی ہیں‘ جب کہ سرے سے‘ ایسی کوئی بات
ہی نہ تھی۔ اتنا ضرور ہے‘ دیگ پر ہاجراں کا بھائی بیٹھا تھا۔ پلیٹیں سپلائی
کرنے والے‘ سراج کی سلام دعا والے تھے۔ انہیں ناانصافی کرنے کی‘ بھلا کیا
ضرورت تھی۔ ہاجراں نے‘ اس موقع پر بھی درگزر سے کام لیا۔
تعلیم اور لباس تو الگ رہے‘ یہاں تو روٹی کے لالے پڑ گیے تھے۔ کچھ دن‘
ہاجراں کا چھوٹا بھائی‘ خرچہ پانی دیتا رہا‘ لیکن مستقل طور پر‘ کون کسی کی
پنڈ اٹھاتا ہے۔ یہاں تو ہر کسی کو‘ اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے۔ حالات دیکھ کر‘
ہاجراں نے محتاج ہونے کی بجائے‘ خود سے کچھ کرنے کے لیے‘ لنگوٹ کس لیا۔ اس
نے دو بڑے گھروں میں‘ کام کرنا شروع کر دیا۔ اس کے پاس‘ اس کے سوا کوئی
چارہءکار باقی نہ رہا تھا۔ کیا کرتی‘ کس کے پاس جاتی۔ وہ صبح سویرے‘ سسر کو
بچوں کے پاس گھر چھوڑ کر‘ کام پر چلی جاتی۔ دو گھروں کا کام کرتے کرتے‘
اچھا خاصا وقت لگ جاتا۔ اس کی کمر دہری ہو جاتی۔ وہ اکثر سوچتی‘ جب سراج
زندہ تھا‘ اسے کسی قسم کا فکر لاحق نہ تھا۔ بےچارہ کس مشقت سے رزق لاتا
تھا۔ زیادہ مشقت نے ہی‘ اس کی جان لی تھی۔ زندگی میں‘ اس نے قدر نہ کی تھی‘
اکثر لڑ پڑتی تھی۔ برتنوں پر پانی پھرتا رہتا‘ آنکھیں ساون کے بادل کی طرح‘
مسلسل برستی رہتیں۔ کوشش کے باوجود ضبط نہ کر پاتی۔
مشقت کی صعوبت اپنی جگہ‘ اپنے ہی رشتہ داروں کی بھانت بھانت کی بولیاں‘
کچوکے لگاتی رہتیں۔ کوئی کہتا‘ کفن میلا کر رہی ہے۔ کسی کے منہ میں تھا‘ اس
عورت نے‘ سراج کی عزت کا جنازہ نکال دیا ہے۔ چھوٹی نند نے تو اس کے چلن پر
بھی انگلی رکھ دی۔ غربت بری بلا ہے‘ محلہ کی عورتیں بھی‘ دیکھا دیکھی‘
باتیں کرنے لگیں۔ وہ اپنا دکھ کس سے کہتی‘ اور کیا کہتی۔ اگر اس کا چلن
ٹھیک نہ ہوتا‘ تو دیکھتے ہی دیکھتے زندہ لاش میں نہ بدل جاتی۔ لوگ اس کی
بگڑتی صحت کی وجہ‘ کچھ اور بتانے لگے تھے۔
وقت گزرتا رہا‘ وہ باتوں کی پرواہ کیے بغیر‘ مشقت اٹھاتی رہی‘ اور کر بھی
کیا سکتی تھی۔ چھوٹی عید آئی‘ لوگ گھر پر موج مستی کرتے ہیں‘ اسے اس روز
بھی‘ مشقت کے لیے جانا تھا۔ مشقت ہی اب اس کی زندگی تھی۔ بابا عمر بھی‘
لوگوں کی باتیں سنتا اور کڑھتا۔ وہ اپنی بیٹی جیسی بہو‘ کی عادات و اطوار
اور کردار سے خوب آگاہ تھا۔ وہ اس بڑھاپے میں‘ کس کس کے منہ لگتا۔ چپ اور
صبر‘ اس کا مقدر ٹھہرا تھا۔ ہاں ہاجراں گھر آتی‘ سو بسم الله کرتا۔ جب گھر
سے جاتی‘ تو ڈھیر ساری دعاؤں کے ساتھ رخصت کرتا۔ پھر سارا دن بچوں کے ساتھ
گزراتا۔ یہ کیسی عید آئی تھی‘ کہ بچوں کو غیروں کا اترن میسر آیا۔ رات کو
غیروں کا بچا کچا کھانا‘ کھانے کو ملا۔ کچھ دینا تو بڑی دور کی بات‘ اپنوں
کو تو حضرت کا سلام کہنے کی بھی‘ توفیق نہ ہوئی۔ کہنے کو وہ اپنے تھے‘ لیکن
طور بیگانوں جیسے بھی نہ تھے۔
وقت کو کون روک سکا ہے‘ اسے تو گزرنا ہوتا ہے‘ سو وہ گزر گیا۔ بڑی عید بھی
آ گئی۔ بابے عمر اور بچوں نے پورا دن‘ تنہا گزرا۔ بچے تھوڑی دیر کے لیے‘
باہر چلے جاتے اور پھر واپس لوٹ آتے۔ بابا عمر کس سے دکھ سکھ کرتا۔ اس کی
سگی اولاد‘ اسے تنہا چھوڑ گئی تھی۔ ہاجراں کو‘ بڑی عید پر بھی مزدوری پر
جانا پڑا۔ محلے کے کئی گھروں میں‘ قربانی کی گئی‘ لیکن ان کے گھر‘ کسی نے‘
ایک بوٹی تک نہ بجھوائی۔
اچھا گوشت محفوظ کر لیا گیا۔ تھوڑا کم اچھا‘ عزیزوں اور رشتہ داروں میں
تقسیم ہو گیا۔ تیسرے درجے کا گوشت‘ آنڈ گوانڈ میں چلا گیا۔ لاوارث سال بعد
بھی‘ گوشت کا منہ نہ دیکھ سکے۔ ہاجراں شام کو تھکی ہاری لوٹی۔ اس کا انگ
انگ دکھ رہا تھا۔ بابے عمر اور بچوں کی یتیم و مسکین صورتیں دیکھ کر‘ لرز
لرز گئی۔ وہ اپنے دکھ درد کی پرواہ کیے بغیر‘ چولہے کی طرف بڑھ گئی۔ وہ
دونوں گھروں سے‘ گوشت لائی تھی۔ سارے گوشت کو ابالا‘ اور کچھ پکا کر‘ بابے
اور بچوں کے آگے رکھ دیا۔ جب وہ کھا رہے تھے‘ اس کے دل و جان میں جنت کا
سکون اتر رہا۔ بابا کھا تو رہا تھا‘ لیکن بےچینی‘ دل و جان میں مچل رہی
تھی۔
اس رات‘ بابے عمر دین کو نیند نہیں آ رہی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا‘ اپنوں کے
ہوتے‘ وہ تنہا تھا۔ ہاجراں سے سراج کے حوالہ سے رشتہ تھا۔ سراج نہ رہا تھا‘
وہ گربت میں بھی رشتہ نبھائے جا رہی تھی۔ اگر خودغرض ہوتی‘ تو کہتی‘
سمبھالو اپنے بچے‘ میں جا رہی ہوں‘ تو پھر ان بچوں کا ذمہ کون لیتا۔ یہ
رشتوں کے ہوتے‘ گلیوں کا روڑا کوڑا ہو جاتے۔ سوچیں تھیں‘ کہ اس کا پیچھا نہ
چھوڑ رہی تھیں۔
ہاجراں کو بھی‘ نیند نہ آ رہی تھی۔ سوچوں کے گرداب میں گرفتار‘ بےبسی اور
مجبوری کیا کر سکتی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی‘ یہ کیسی قربانی دی گئی۔ کیا اس
سے‘ ان کا الله راضی ہو جائے گا۔ سراج مناسب دوا دارو نہ ملنے کی وجہ سے مر
گیا‘ وہ اور بچے بھوکوں سوتے رہے‘ کسی کو ایک پاؤ آٹا‘ یا نقد ایک اکنی
دینے کی توفیق نہ ہوئی۔ اس کے جیٹھ نے بکرا قربان کیا‘ گھر جوان بیٹی بیٹھی
ہے‘ اس کے لیے جہیز نہیں۔ نسرین نے‘ مقروص ہوتے ہوئے بھی‘ محض ناک کے رہ
جانے کے لیے‘ قربانی کی ہے۔
اس نے سوچا‘ ہم کیسے لوگ ہیں‘ بیماروں‘ بیواؤں‘ بن جہیز بیٹھی جوان بچیوں
کو‘ دو روپے تک دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ بکرے چھترے قربان کرکے‘ الله کو
خوش کرنے کی‘ کوشش کرتے ہیں۔
مولوی بھی‘ کتنا سنگ دل اور کٹھور ہے‘ جو چند سو روپے کی کھال کے لیے‘ اس
قربانی کو اہمیت دیتا ہے۔ بیماروں کے علاج کی ترغیب نہیں دیتا۔ جوان بچیوں
کو‘ بوہے سے اٹھانے کے مسلے کی اہمیت کو اجاگر نہیں کرتا۔ یہ غلام اور
مقروض قوم پتا نہیں کب جاگے گی۔ غلام‘ مقروض‘ بیمار اور معاشی مسائل کی
شکار یہ قوم‘ آخر صدیوں سے‘ سماجی حقوق سے‘ منہ موڑ کر‘ ملاں کے کہے پر‘
آنکھیں بند کیے چل رہی ہے۔ آخر اسے‘ خود سوچنے کی کب عادت پڑے گی۔
سوچ کے دائرے‘ جب حد سے تجاوز کر گیے‘ وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اس نے‘ بابے عمر
کو آواز دی: ابا سو گیے ہو‘ یا جاگ رہے ہو۔
بابے عمر کو نیند کب آ رہی تھی‘ اس نے جوابا کہا: جاگ رہا ہوں بیٹا۔
پھر سونا مت‘ چائے کا موڈ بن رہا ہے۔
یہ کہہ کر وہ چولہے کی طرف بڑھ گئی۔
|