5. اَصحابِ فیل پر عذاب کا تصور
اور وادئ مُحَسِّر سے جلدی گزرنے کا حکم:-
وادئ مُحَسِّر کے محلِ وقوع کے بارے میں مختلف اَقوال ہیں: پہلا قول یہ ہے
کہ مزدلفہ کے قریب ایک علاقہ ہے جس کا نام وادئ مُحَسِّر ہے۔ (1) حضرت فضل
بن عباس رضی اﷲ عنھما روایت کرتے ہیں کہ وادئ مُحَسِّر منیٰ میں ہے۔ (2)
شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اِن اَقوال میں تطبیق کرتے ہوئے
کہتے ہیں : بعض علماء کا مؤقف ہے کہ وادئ مُحَسِّر منیٰ میں ہے، جب کہ بعض
کہتے ہیں کہ وادئ مُحَسِّر مزدلفہ میں ہے، درحقیقت منیٰ اور مزدلفہ کی
درمیانی علاقہ کا نام وادئ مُحَسِّر ہے۔ (3) سارا مزدلفہ مؤقف (ٹھہرنے کی
جگہ) ہے مگر وادئ مُحَسِّر اس سے خارج ہے۔ (4) حجاج کرام کو اس وادی میں
توقف کرنے کی اِجازت نہیں۔ حکم یہ ہے کہ وہ 10 ذی الحجہ کو طلوعِ آفتاب سے
کچھ دیر پہلے جب تقریباً دو رکعت نماز ادا کرنے کا وقت رہ جائے تو تلبیہ
کہتے اور ذکر کرتے ہوئے مزدلفہ سے منیٰ کو روانہ ہو جائیں اور جب وادئ
مُحَسِّر کے کنارے پہنچیں تو وہاں سے تیزی کے ساتھ گزر جائیں، اگر سوار ہوں
تو سواری کی رفتار تیز کر دیں۔ اور یہ ساری مسافت عذابِ الٰہی سے پناہ
مانگتے ہوئے طے کریں۔ (5) آخر ایسا کیوں ہے؟ اس وادی سے جلد گزرنے کا حکم
اس لیے ہے کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت سے
چند سال پہلے ابرہہ ہاتھیوں کا ایک لشکر لے کر کعبہ پر حملہ آور ہوا۔ جب وہ
اپنے مذموم اِرادے کے ساتھ وادئ مُحَسِّر میں پہنچا تو عذابِ اِلٰہی نازل
ہوا۔ ابابیلوں کے جھنڈ کے جھنڈ پتھروں اور کنکریوں سے مسلح ہو کر ابرہہ کے
ہاتھیوں والے لشکر پر ٹوٹ پڑے، اور اس طرح ابرہہ اور اس کا تمام لشکر لقمۂ
اَجل بن گیا۔ (6) سورۃ الفیل میں یہ واقعہ اِس طرح بیان ہوا ہے :
(1) ياقوت حموي، معجم البلدان، 1 : 449
(2) 1. مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب إدامة الحاج التلبية، 2 : 931، رقم :
1282
2. نسائي، السنن، کتاب مناسک الحج، باب الأمر بالسکينة في الإفاضة من عرفة،
5 : 285، رقم : 3020
3. نسائي، السنن الکبري، 2 : 434، رقم : 4056
4. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 210، رقم : 1796
5. بيهقي، السنن الکبري، 5 : 127، رقم : 9316
(3) عبد الحق، اشعة اللمعات شرح مشکاة المصابيح، 2 : 345
(4) 1. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 82، رقم : 16797
2. ابن حبان، الصحيح، 9 : 166، رقم : 3854
3. شيباني، کتاب المبسوط، 2 : 422
4. ابن أبي شيبة، المصنف، 3 : 246، رقم : 13884، 13885
5. ديلمي، الفردوس بماثور الخطاب، 3 : 44، رقم : 4113
6. بيهقي، السنن الکبري، 9 : 295، رقم : 19021
7. طبراني، المعجم الکبير، 2 : 138، رقم : 1583
8. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 3 : 251
9. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 4 : 25
(5) وهبه زحيلي، الفقه الإسلامي وأدلته، 3 : 2168
(6) 1. ابن هشام، السيرة النبوية : 65. 67
2. ابن أثير، الکامل في التاريخ، 1 : 442. 447
3. سهيلي، الروض الأنف في تفسير السيرة النبوية لابن هشام، 1 : 117. 126
4. ابن الوردي، تتمة المختصر في أخبار البشر، 1 : 92
5. ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 101. 110
6. قسطلاني، المواهب اللدنية، 1 : 99. 104
7. صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد، 1 : 217. 222
8. زرقاني، شرح المواهب اللدنية، 1 : 156. 166
أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِO أَلَمْ يَجْعَلْ
كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍO وَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا أَبَابِيلَO
تَرْمِيهِم بِحِجَارَةٍ مِّن سِجِّيلٍO فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّأْكُولٍO
’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیسا سلوک
کیا؟o کیا اس نے ان کے مکر و فریب کو ناکام نہیں کر دیا؟o اور اس نے ان پر
(ہر سمت سے) پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیےo جو اُن پر کنکریلے پتھر
مارتے تھےo پھر (اﷲ نے) ان کو کھائے ہوئے بھوسے کی طرح (پامال) کر دیاo‘‘
الفيل، 105 : 1 - 5
یہی وجہ تھی کہ سن 10 ہجری میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
مناسکِ حج کی ادائیگی کے دوران جب مُحَسِّر کے مقام پر پہنچے تو آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ جلدی جلدی اس وادی سے گزر
جائیں۔ یہ کیفیت اِس اَمر کی غماز تھی جیسے عذاب آنے والا ہو۔ یہ عذاب بہت
پہلے ابرہہ اور اس کے لشکر پر نازل ہوا تھا۔ اس کے باوجود حضور نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو تلقین فرمائی کہ اپنے اوپر وُہی
تاثرات اور کیفیت طاری کر لیں اور خوف و خشیتِ اِلٰہی کا وُہی منظر قائم
کریں۔ خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسی کیفیت اپنے اوپر
طاری کرلی اور اپنی اُونٹنی کی رفتار تیز کر دی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وادئ
مُحَسِّر سے گزرنے کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
ثم أفاض حتي انتهي إلي وادي مُحَسِّر، فقرع ناقته فخَبَّت حتي جاوز الوادي
فوقف.
’’پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وادئ مُحَسِّر میں پہنچے تو اپنی
اُونٹنی کو ایڑی لگائی۔ وہ دوڑ پڑی حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
وادئ مُحَسِّر کو تیزی سے عبور کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
(مزدلفہ میں) وقوف کیا۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الحج، باب ما جاء أن عرفة کلها موقف، 3 :
232، رقم : 885
2. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 75، رقم : 562
3. ابن خزيمه، الصحيح، 4 : 272، رقم : 2861
4. بزار، البحر الزخار، 2 : 165، رقم : 532
5. أبو يعلي، المسند، 1 : 264، رقم : 312
شیخ عبد الحق محدث دہلوی (958۔ 1052ھ) اس وادی کے بارے میں فرماتے ہیں :
مستحب ست شتاب رفتن ازیں وادی، واگر پیادہ است تیز رَود، واگر سوار است تیز
راند.
عبد الحق، أشعة اللمعات شرح مشکاة المصابيح، 2 : 324
’’اس وادئ (مُحَسِّر) میں تیز چلنا مستحب ہے، اگر پیدل ہے تو تیز چلے اور
اگر سوار ہے تو اپنی سواری کو تیز ہانکے۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو اس
وادی سے تیز چلنے کا حکم کس لیے دیا اور خود عمل کر کے کیوں دکھایا جب کہ
اس وقت وہاں کوئی ابابیل کے جھنڈ تھے نہ کہیں کنکروں کی بارش برسائی جا رہی
تھی؟ اس کا جواب ہے کہ عبرت حاصل کرنے کے لیے یہ کیفیت پیدا کرنے کا ایک
عمل تھا۔ یہ تیز رفتاری اب قیامت تک اُمت کے لیے سنت بن گئی ہے۔ اور حکم ہے
کہ جب حجاج اس مقام سے گزریں تو رفتار تیز کرلیں اور سوار اپنی سواریوں کو
ہانکتے ہوئے گزریں۔
اس حکم اور عمل کے پیچھے صرف ایک ہی مقصد کار فرما ہے اور وہ ہے کہ گزشتہ
واقعہ کی کیفیات یاد کر کے انہیں دِل و دماغ پر طاری کیا جائے اور تصور و
تخیل میں اس کی یاد بسائی جائے۔ مندرجہ بالا احادیثِ مبارکہ سے بھی یہی
واضح ہوتا ہے کہ گزشتہ واقعات کی یاد تازہ کرنا خود حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ مبارکہ سے ثابت ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ
یہ واقعات اسلامی تعلیمات میں اہم اور نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ |