معصوم بچوں کو کون قتل کرنا
چاہتا ہے؟ بم دھماکے کیوں ہوتے ہیں؟ بازار میں روز مرہ ضروریات کی چیزیں
خریدنے والے مردوں، عورتوں، بوڑھوں، جوانوں، بچوں کو کون مار رہا ہے؟ یہ
دہشت گردی کیا ہوتی ہے؟ کیا کوئی تعلیم کا بھی دشمن ہوسکتا ہے؟ کیا ہمارا
مذہب اسلام خوف اور دہشت پھیلانے کی اجازت دیتا ہے؟ عاقب نے ایک ہی سانس
میں تمام سوال کردئیے۔ امی تو پریشان ہوگئیں کہ اس کے معصوم ذہن کو کیا
جواب دوں۔ عاقب اور اس کی امی نے عشاء کی نماز ادا کر کے خبریں سننے کیلئے
ٹی وی آن کیا ۔ اس پر خبر چل رہی تھی، امن و امان کی وجہ سے غیر معینہ مدت
کیلئے پورے ملک کے تعلیمی ادارے بند کردئیے گئے ہیں۔ عاقب نے پریشان ہو کر
سوالوں کی بوچھاڑ کردی۔
عاقب کا چھوٹا بھائی ہادی چھٹی کا سن کر خوش ہوگیا کہ چند دن کھیل کود کے
لئے مل گئے۔ عاقب اور ہادی کے سکول میں مڈٹرم کے امتحانات ہورہے تھے، ہادی
کے پیپر تو آج ختم ہوگئے تھے اور کل سے ان کی کلاسز شروع ہونا تھیں۔ عاقب
کا ایک پرچہ باقی تھا۔ وہ خوف زدہ ہوگیا کہ کل سکول جائیں گے تو کوئی ہمیں
مار تو نہیں دے گا؟ ہمارے سکول میں کوئی بم تو نہیں رکھ دے گا؟ عاقب خوف
زدہ ہو کر سہمی ہوئی نظروں سے اپنی امی کی طرف سے اپنے سوالوں کے جواب کا
انتظار کررہا تھا۔ عاقب کی امی جو آج تک اسے یہی بتلاتی آئیں تھیں کہ ہم سب
مسلمان ہیں اور اسلام امن، سلامتی اور انسان دوستی کا مذہب ہے۔ اسلام اپنے
ملک میں رہنے والے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں کے بھی تحفظ اور
سلامتی کی ضمانت دیتا ہے۔ علم اور سمجھ حاصل کرنے کو فرض قرار دیتا ہے۔
عاقب کا ذہن ابھی چھوٹا تھا، اس لئے اسے قومی سیاسی معاملات کا تو علم نہیں
تھا۔ اسے سیاسی حوالے سے سمجھانا مشکل تھا، کہ کس طرح غیر ملکی قوتیں اور
وطن عزیز کی سلامتی کے دشمن ہمارے ملک میں آگ اور خون کا کھیل رہے ہیں۔
عاقب کی امی نے اسے دین اسلام کی تعلیمات کے حوالے سے بات کا آغاز کرتے
ہوئے بتلایا کہ قرآن حکیم ہمیں معاشرہ میں جہالت کو ختم کر کے علم کو عام
کرنے کا حکم دیتا ہے۔ امن کی دعوت دیتا ہے، خوف کو ختم کرنے کا حکم دیتا ہے۔
بھوک مٹانے اور خوشحالی کو عام کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اس کی امی نے بتلایا
کہ جہالت، بدامنی اور خوف دنیا میں اللہ کے عذاب ہیں، جو ظلم کرنے والے
لوگوں کے معاشروں پر مسلط کردئیے جاتے ہیں۔
امی نے عاقب سے پوچھا کہ کیا تمہیں سورہ قریش یاد ہے۔ سورہ قریش چھوٹی سی
سورت ہے، عاقب اکثر نماز میں یہی سورت تلاوت کیا کرتا تھا۔ عاقب نے کہا جی
امی جان مجھے یاد ہے۔ امی نے کہا کہ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے حضوراکرم
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے قبیلہ قریش کو انعامات یاد دلائے اور پھر کہا کہ
تم بندگی اختیار کرو اس گھر (بیت اللہ شریف)کے رب کی، جس نے بھوک میں کھانا
کھلایا اور خوف میں امن دیا۔ دیکھو اللہ تعالیٰ نے خصوصی انعامات کا ذکر
کیا، خوشحالی اور امن کا۔ امن والا معاشرہ ہی ترقی کرسکتا ہے۔ ایک ایسا
معاشرہ جہاں بھوک ہو، اس معاشرے کے لوگ اپنی بھوک مٹانے کیلئے ہی فکر مند
رہتے ہیں۔ وہ غربت کی وجہ سے تعلیم نہیں حاصل کرپاتے۔ کچھ لوگ انکی جہالت
سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور انہیں اپنے غلط مقاصد کیلئے استعمال کرلیتے ہیں۔
عاقب نے پوچھا کہ اسلام کی نظر میں انسان کی جان کتنی قیمتی ہوتی ہے؟ اس کی
امی نے سورہ مائدہ کی آیت پڑھ کر اس کا مفہوم بتلایا کہ جو شخص بلاوجہ اور
ناحق کسی جان کو قتل کرے اس نے گویا تمام انسانوں کا قتل کیا اور جو کسی
ایک کی جان بچائے تو گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا(5:32)۔عاقب نے پوچھا
کہ اس حوالے سے ایک مسلمان کی صفت کیا ہونی چاہیے؟ عاقب کی امی نے ایک حدیث
عربی میں پڑھ کر سنائی اور پھر اس کا مفہوم بتلایا کہ مسلمان وہ ہے جس کے
ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔ عاقب نے پوچھا کہ حضور اکرم صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں لوگوں کی حالت کیا تھی ؟عاقب کی امی نے
بتلایا کہ اسلام لانے سے قبل عرب میں لوگ بہت زیادہ ظلم کرتے تھے۔ ایک
دوسرے سے جنگ کرتے تھے۔ بچوں کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔ کمزورں کے حقوق
نہیں دیتے تھے۔ قافلے لوٹ لیے جاتے تھے۔ غلاموں کو سخت تکلیفیں اور سزائیں
دی جاتی تھیں۔ کچھ لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین کو مانتے تھے۔ لیکن
ان لوگوں کی معاشرے میں کوئی حیثیت نہ تھی۔ نہ ہی ان کے پاس امن قائم کرنے
کا کوئی پروگرام تھا۔ عرب میں ہر طرف بدامنی تھی۔ عاقب نے کہا کیا وہ بھی
ہمارے معاشرے کی طرح کا معاشرہ تھا؟ عاقب نے پوچھا کہ حضوراکرم صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم نے اس دور میں امن قائم کرنے کیلئے کیا کردار ادا کیا؟ عاقب کی
امی نے بتلایا کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک 20 برس تھی۔
ابھی آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہونا شروع نہیں ہوئی تھی۔ قریش
نے عرب کے علاقہ میں امن و امان قائم رکھنے کیلئے ایک معاہدہ کیا، کہ ہم
اپنے وطن سے بدامنی دور کریں گے۔ مسافروں کی حفاظت کیا کریں گے۔ غریبوں کی
امداد کرتے رہیں گے۔ طاقتور کو کمزور پر، بڑوں کو چھوٹوں پر ظلم کرنے اور
نا انصافی سے روکا کریں گے۔ وہ سب ظالم کے مقابلہ اور مظلوم کی حمایت میں
ایک ہاتھ کی طرح رہیں گے اور کام کریں گے جب تک کہ ظالم، مظلوم کا حق نہ دے
دے۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم خود اس معاہدہ میں شریک ہوئے۔ نبوت کے
بعد بھی آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اس معاہدہ کو بہت پسند فرمایا کرتے تھے
کہ میں اس امن کے معاہدہ میں شریک ہوا تھا۔ اس معاہدہ کا نام حلف الفضول
تھا۔
عاقب کی امی نے اسے ایک اور واقعہ کی طرف متوجہ کر کے بتلایا کہ مکہ میں
بارشوں اور سیلابوں کی وجہ سے خانہ کعبہ کی عمارت کو کافی نقصان پہنچا ہوا
تھا، اس کی دیواریں بھی زیادہ بلند نہ تھیں۔ دیواروں پر چھت بھی نہ تھی۔
قریش اس کی دوبارہ تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ عرب کے تمام قبائل نے اس کی تعمیر
میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ امی نے عاقب سے پوچھا کہ تم حجر اسود کے بارے میں
جانتے ہو۔ عاقب نے کہ ہاں میں نے اپنی اسلامیات کی کتاب میں اس کے بارے میں
پڑھا ہے کہ یہ ایک مقدس پتھر ہے، جو خانہ کعبہ میں نصب ہے۔ بیت اللہ کا
طواف کرتے وقت اس کو چومتے ہیں، اگر طواف کرنے والے لوگ زیادہ ہوں، تو اس
کی طرف ہاتھ سے اشارہ کر کے چومتے ہیں۔ عاقب کی امی نے اسے بتلایا کہ خانہ
کعبہ کی تعمیر کے وقت جب حجر اسود رکھنے لگے، تو ہر قبیلہ والا چاہتا تھا
کہ حجر اسود کو رکھنے کا با برکت موقع اس کو ملنا چاہیے۔ اس پر چار دن
جھگڑا ہوتا رہا مگر فیصلہ نہ ہوسکا۔ اس جھگڑے کا پانچواں دن تھا۔ ان کے
درمیان لڑائی کی نوبت آگئی، قریب تھا کہ تلواریں نکل آئیں۔ قریش کے قبیلہ
کے سب سے بڑے بزرگ ابو امیہ بن مغیرہ نے لڑائی سے بچنے کیلئے مشورہ دیا، کہ
کل صبح جو شخص سب سے پہلے بیت اللہ میں داخل ہو ، وہی ہمارے درمیان فیصلہ
کرے گا، جو سب کو ماننا ہوگا۔ اگلے دن سب سے پہلے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم بیت اللہ میں داخل ہوئے۔ اس وقت آپ کی عمر پینتیس برس تھی۔ آپ
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر سب لوگوں نے کہا کہ صادق اور امین آگئے
ان کا فیصلہ ہمیں قبول ہوگا۔
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے بہت دانائی سے اس کا فیصلہ فرمایا ۔آپ
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ایک چادر بچھائی۔ اس پر اپنے ہاتھ سے حجر اسود
رکھا۔ پھر تمام قبیلوں کے نمائندوں سے کہا کہ مل کر چادر اٹھاﺅ۔ اب سب نے
مل کر چادر اٹھائی، حجر اسود جہاں نصب کرنا تھا، اسے اس مقام تک پہنچایا۔
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے اسے چادر سے اٹھا کر اس
کی جگہ پر رکھ دیا۔ اس طرح آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلے سے عرب کا
علاقہ بدامنی سے بچ گیا۔ عاقب نے پوچھا کہ امی اس وقت عرب کے لوگ مسلمان
تھے؟ امی نے کہا کہ نہیں۔ سب بتوں کو پوجتے تھے۔ عاقب نے کہا کہ پھر حضور
اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ان کو لڑنے دیتے تاکہ مشرک اور کافر لوگ کمزور
پڑجاتے، بعد میں یہ لوگ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا مقابلہ کرنے کے قابل
نہ رہتے؟ عاقب کی امی نے کہا کہ نہیں اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا کہ
معاشرے میں بدامنی قائم ہو۔ لوگ ایک دوسرے سے لڑیں۔ اسلام لڑجھگڑ کر شہروں
کا امن خراب کرنے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ وہ سلامتی اور امن کا مذہب ہے۔
عاقب کی امی نے اسے بتلایا کہ ایسا صرف ایک بار نہیں ہوا، جب بھی بدامنی کا
خطرہ ہوا، آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے عرب کو انتشار اور فساد سے بچایا۔
مکہ کے لوگ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو بہت زیادہ تکالیف دیتے تھے۔ آپ صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم اپنے اور اپنے ساتھیوں پر ہونے والے ظلم کا بدلہ نہیں
لیتے تھے۔ صبر سے کام لیتے رہے۔ معاشرے کی ترقی اور تعمیر کا جو صحیح راستہ
تھا، اسی پر چلتے رہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی محنت
سے مدینہ میں دعوت اسلام عام ہوگئی۔ مدینہ کے اکثر لوگ مسلمان ہوگئے تھے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے حکم سے مدینہ تشریف لے گئے۔ مدینہ میں
یہودیوں کے قبیلے بھی تھے۔ عاقب نے فوراً کہا کہ ہاں ہماری اسلامیات کی
کتاب میں ان کا نام لکھا ہوا ہے ،بنو قینقاع، بنو نضیر، بنو قریظہ ۔ امی نے
پوچھا کہ پھر تو تمہیں انصار کے قبیلوں کے نام بھی آتے ہوں گے ،اس نے کہا
ہاں اوس اور خزرج۔ امی نے بتلایا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں
(مہاجرین و انصار) اور یہودیوں کے تمام قبیلوں کے درمیان امن کا معاہد
کروایا۔ اس معاہدہ کا نام کیا تھا؟ امی نے عاقب سے پوچھا۔ عاقب نے کہا کہ
میثاق مدینہ۔ جب تک یہودیوں کے قبیلے اس معاہدہ پر قائم رہے آپ نے ان سے
جنگ نہ کی ۔
عاقب کی امی نے کہا کہ ایک مرتبہ مسلمان بیت اللہ کے طواف کیلئے نکلے۔ مکہ
کے لوگوں نے حضورا کرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور آپکی جماعت صحابہ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ کو طواف کی اجازت نہ دی۔ اس موقع پر آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
نے صبر سے کام لیا۔ اگر آپ ان پر حملہ کردیتے تو کامیاب ہوجاتے۔ مگر آپ نے
بلاوجہ خون بہانا پسند نہیں فرمایا۔ مسلمانوں اور مکہ والوں کے درمیان ایک
مشہور صلح ہوئی جس کا ذکر تمہاری اسلامیات کی کتاب میں ہے ۔ عاقب نے کہا کہ
کیا صلح حدیبیہ؟ امی نے کہا کہ ہاں! آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے بیت اللہ
کی زیارت جیسی اہم عبادت کو اس سال امن وامان کی خاطر چھوڑ دیا۔ پھر معاہدہ
کے مطابق اگلے سال صحابہ بیت اللہ کی زیارت کیلئے تشریف لائے۔ صلح کے نتیجے
میں مسلمانوں کا مکہ میں آنا جانا شروع ہوگیا۔ اسی امن کے نتیجے میں لوگ
فوج در فوج دین میں داخل ہوئے۔ پھر جب مکہ والوں نے اس معاہدہ کی خلاف ورزی
کی تو حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کا لشکر تیار کیا اور
مکہ کو فتح کرلیا۔ اس میں جنگ نہیں ہوئی ۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
اپنے سخت دشمن جنہوں نے آپ کو تکلیفیں دیں، آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور
آپ کی جماعت کو گھروں سے نکالا، ہجرت پر مجبور کیا تھا۔ آپ صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم نے ان سب کو معاف کردیا۔ عرب کے علاقہ میں امن قائم کردیا۔
عاقب نے کہا کہ پھر غزوہ بدر، غزوہ احد، غزوہ خندق اور چھوٹے چھوٹے غزوات
کا ذکر ہماری پانچویں کی کتاب میں تھا۔ ان غزوات میں تو لڑائی ہوئی تھی۔
ہمارے استاد کہتے ہیں کہ یہ جہاد ہے۔ عاقب کی امی نے کہا کہ بالکل دین
اسلام میں جہاد ہے۔ یقیناً یہ لڑائیاں ہوئیں۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم ان لڑائیوں میں خود شریک ہوئے۔ یہ لڑائیاں معاشرے میں امن قائم کرنے
کیلئے تھیں۔ عاقب نے پوچھا کہ کیا یہ لڑائیاں دوسرے مذاہب کے لوگوں کے خلاف
تھیں؟ امی نے زور دے کر کہا کہ نہیں! اسلام میں مذہب کی بنیاد پر کسی دوسرے
گروہ سے لڑنے کی اجازت نہیں۔ بلکہ مسلمان فوج کو حکم دیا گیا ہے کہ جب وہ
کسی جگہ پر حملہ کرے تو وہاں بچوں، بوڑھوں، عورتوں، مزدوروں، کمزور اور بے
سہارا لوگوں اور جو ہتھیار نہ اٹھائیں یا ہتھیار ڈال دیں ان سے جنگ نہ کریں۔
اسی طرح غیر مسلموں کی عبادت گاہوں پر حملہ نہ کریں۔ انکے پادریوں، راہبوں
یعنی مذہبی راہنماﺅں کو قتل نہ کریں۔ اگر اسلام مذہب کو بنیاد بنا کر جنگ
کی اجازت دیتا تو پھر مذہبی راہنماﺅں کے قتل کی بھی اجازت دیتا۔ انکی عبادت
گاہوں کو توڑ دیتا۔ عاقب نے کہا کہ پھر اسلام کا جہاد کن لوگوں کے خلاف ہے؟
عاقب کی امی نے کہا کہ اگر معاشرے میں ظالم لوگ ہوں۔ وہ عام انسانوں پر ظلم
کریں، ان کے حقوق توڑیں، ان کو جہالت اور غربت میں رکھیں، تو اسلامی حکومت
پر فرض ہے کہ وہ اپنی فوج کے ذریعہ انکے خلاف جہاد کرے، انسانوں کو آزادی
دلائے۔ جہاد کا معنی جدوجہد اور کوشش کرنا ہے۔ اس کا معنی صرف لڑنا نہیں
بلکہ ہر وہ کام جو انسانوں کی ترقی اور ان کی کامیابی کیلئے ہو جیسے علم
پھیلانا، امن قائم رکھنا، بدامنی کو ختم کرنا، غربت اور جہالت کو ختم کرنے
کی کوشش کرنا، یہ سب جہاد ہے۔ یہ سب کام اللہ کی رضا اور خوشنودی کیلئے
ہونا چاہیے۔
عاقب نے کہا کہ امی جان جب اسلام امن اور سلامتی کا درس دیتا ہے اور یہ
کہتا ہے کہ جس مسلمان سے کسی دوسرے مسلمان کو دکھ اورتکلیف ہو وہ مسلمان
نہیں، تو جو لوگ مسلمانوں کا ناحق قتل کرتے ہیں، بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور
مزدوروں کو قتل کردیتے ہیں، تعلیم گاہوں کو بموں سے اڑا دیتے ہیں، وہ کیسے
مسلمان ہوسکتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال تھا جس کا جواب اسی میں تلاش کرنا بہت
آسان ہے۔ |