قربانی سے پہلے قربانی!

اکرم بہت خوش تھا ۔ کیونکہ اس مہنگائی کے دور میں اُسے توقع سے بڑھ کر مناسب دام پر ایک اچھا خاصا صحت مند بکرا مل گیا تھا۔اُس نے یہ بکرا عید کا چاند نظر آنے کے دوسرے ہی دن خرید لیا تھا۔اُس کی بیوی اُس کے اس کارنامے پر صدقے واری جا رہی تھی ۔ بچوں کی تو یہ حالت تھی کہ پورے محلے میں خوشی سے ناچتے پھر رہے تھے۔وہ بڑے فخر سے محلے میں اپنے پسندیدہ بکرے کو گھماتے ، پھیراتے اور اُس کے پاؤں میں ڈالی ہوئی جھانجروں کی چھن چھن سے محظوظ ہوتے ۔اُسے اپنے ہاتھوں سے چارہ کھلاتے ، بیسن ملا ہوا پانی پلاتے اور پھر اُسے ہضم کرانے کے لیے بکرے کو لمبے روٹ پر لے جاتے۔اکرم بھی آفس سے جلدی گھر آجاتا اور کافی وقت بکرے کی دیکھ بھال کرنے میں گزار دیتا۔بکرا تو گویا اُن کی فیملی کا حصہ بن چکا تھا۔ایک دن بچوں نے اُسے نہلا دیا جس سے اُس کی طبیعت کچھ بگڑ سی گئی۔ وہ کافی سست ہو گیا تھا اور چارہ بھی نہیں کھا رہا تھا۔ بچوں نے تو رونا شروع کر دیا جبکہ اکرم کی بیوی بھی بکرے کی حالت دیکھ کر پریشان ہو گئی۔اکرم کو اُس دن آفس سے شارٹ لیو لے کر گھر آنا پڑا تھا تاکہ بکرے کو چیک اپ کے لیے کسی ڈاکٹر کے پاس لے جا سکے۔وہ بکرے کو محلے میں موجود ایک کلینک میں لے گیا ۔ جہاں مریضوں کی لمبی قطار تھی۔ دیر تک انتظار کرنے کے بعد اپنی باری آنے پر اُس نے ڈاکٹر سے بکرے کی بگڑی ہوئی طبیعت کے بارے میں مشورہ لینے کی خاطر اپنا مدعا بیان کیا تو ڈاکٹر کی طبیعت بگڑ گئی۔ ڈاکٹر نے آستینیں چڑھائیں اور اُسے دھکے دے کر کلینک سے باہر نکال دیا۔اکرم کو یہ نہیں معلوم تھا کہ بکرا بیمار ہو جائے تو اُسے کس ڈاکٹر کے پاس لے جایا جاتا ہے۔آخر کسی سیانے کے مشورے پر اُسے جانوروں کے ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا پڑا۔جانوروں کے ڈاکٹر کا کلینک (شفاء خانہ حیوانات) شہر سے کچھ دور ایک گاؤں میں تھا ۔ اُس نے رکشہ کرائے پر لیا اور وہاں پہنچ گیا۔کلینک(شفاء خانہ) ایک حویلی پر مشتمل تھا۔ جس میں پہلے سے ہی دو تین بیمار جانور کھڑے تھے۔اُس نے بکرے کو اُن بیمار جانوروں کے پاس پارک کیا اور خود اندر ڈاکٹر کے کلینک میں چلا گیا۔وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جانوروں کا ڈاکٹر ایک انسان کو انجیکشن لگا رہا ہے۔مریض سے فارغ ہو کر ڈاکٹر نے اُسے اپنے پاس مریضوں والے سٹول پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اکرم نے بتایا کہ وہ اپنا نہیں بلکہ اپنے بکرے کا علاج کروانے آیا ہے۔

بکرے کا تفصیل سے معائینہ کرنے کے بعد ڈاکٹر نے اُسے ایک انجکشن لگا دیا اور مٹھی بھر ایک پاؤڈر نما دوا زبردستی اُس کے منہ میں ٹھونس دی جسے بکرے نے بڑی مشکل سے نگلا ۔ پانچ سو روپیہ فیس لینے اور دو دن کے بعد دوبارہ آنے کا کہہ کر ڈاکٹر صاحب واپس اپنے کلینک میں جانے لگا تو اکرم نے پوچھ لیا کہ اسے بیماری کیا ہے؟ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ اسے ہیضہ ہوا ہے۔ انجکشن کا اثر ہوتے ہی یہ بالکل تندرست ہو جائے گا۔ دوبارہ میں احتیاطاً آنے کا کہہ رہا ہوں تا کہ بیماری کا مکمل طور پر خاتمہ ہو سکے ۔لیکن اس کو تو بچوں نے ٹھنڈے پانی سے نہلا دیا تھا۔ جس کی وجہ سے اس کی طبیعت خراب ہوئی ہے۔ میرا خیال تھا کہ آپ اس کو بخار کی دوا دیں گے۔اکرم نے حیران ہوتے ہوکر کہا۔ ڈاکٹر نے گھور کر اکرم کی طرف دیکھا اور بولا کہ یہ بات پہلے کیوں نہیں بتائی۔اب دوبارہ اس کو انجیکشن لگانا پڑے گا۔جس کی فیس چار سو روپیہ ہے۔لیکن ڈاکٹر تو آپ ہیں ۔ آپ نے اس کا چیک اپ کیا ہے۔ اگر آپ کو یہ نہیں معلوم کہ اس کو بیماری کیا ہے تو آپ نے اسے انجیکشن کیوں لگا دیا۔اکرم کے احتجاج کرنے پر ڈاکٹر گھبرا گیا اور اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اُسے خاموش رہنے کا اشارہ کرنے لگا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ جو ابھی ابھی دو مریض اُس کے کلینک کے اندر گئے ہیں کہیں یہ بات سن نہ لیں۔اکرم کے غصے اور شور مچانے کے ڈر سے اُس نے اُس سے اپنی غلطی کی معافی مانگی اور بغیر فیس لیے بکرے کو بخار کا انجیکشن لگا دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ اکرم اور اُس کے بکرے کو با عزت حویلی کے دروازے تک بھی چھوڑنے گیاتھا۔

عید آنے میں ابھی دو دن باقی تھے۔ اکرم اور اُس کی فیملی بہت خوش تھی کہ اُن کا بکرا پھر سے تند رست ہو گیا تھا۔وہ چارہ بھی کھانے لگ گیا تھا اور پہلے کی طرح اُچھل کود بھی شروع کر دی تھی۔بچوں کو پھر سے انجوائے کرنے کا موقع مل گیا تھا۔اکرم اور اُس کی بیوی نے بکرے کی صحت یابی پر اﷲ کا شکر ادا کیا اورصدقے کے طور خیرات بھی کی۔اس کے علاوہ پیر بابا ٹالی والی سرکار سے نظر بد کا تعویز لکھوا کربھی بکرے کے گلے میں باندھ دیا تھا۔اکرم اور اُس کے بیوی بچوں کو جب بھی بکرے کے ذبح کرنے کا خیال آتا تو وہ افسردہ ہو جاتے۔اُنہیں بکرے سے اس قدر محبت ہو چکی تھی کہ وہ اُسے خود سے الگ نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وقت کو نہ تو کوئی روک پایا ہے اور نہ ہی کوئی روک پائے گا۔ ایک دن اور کم ہو چکا تھا اور اگلے دن عید تھی۔بکرے کی جدائی اب صرف ایک دن کی دوری پر تھی۔اُنہیں ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ اپنے کسی فیملی ممبر کو خود سے جدا کرنے جا رہے ہیں۔گزرتا ہوا ہر لمحہ اُن کو مزید افسردہ کرتاجا رہا تھا۔اکرم اور اس کی بیوی انہی سوچوں میں گم تھی کہ بچوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ دیکھوں بکرے کو کیا ہو گیا ہے۔ اکرم بھاگ کر بکرے کے پاس پہنچا تو دیکھ کر گھبرا گیا کہ وہ زمین پر بے سدھ لیٹا لمبی لمبی سانسیں لے رہا تھا۔اُس نے بکرے کو ہلاجلا کر دیکھا لیکن بکرا تو ایسے پڑا تھا جیسے اُس کے جسم میں جان ہی نہ ہو۔اکرم یہ دیکھ کر مزید گھبرا گیا۔ اُسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔وہ باہر بھاگا تاکہ کسی سے مدد لے سکے۔ اُسے گلی میں بابا سراج آتا ہوا نظر آیا ۔ بابا سراج محلے کا کافی سیانہ آدمی مشہور تھا ۔ اُس نے اکرام کی بات غور سے سنی اور جلدی سے بکرے کی حالت دیکھنے کے لیے اُس کے ساتھ اُس کے گھر پہنچ گیا ۔ بابا سراج بکرے کی حالت دیکھتے ہی جان گیا تھاکہ اب اس کا ایک ہی حل ہے۔ اُس نے کچھ دیر سوچااور اکرم کو اپنے ماہرانہ مشورے سے آگاہ کر دیا۔اکرم کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ وہ بابے سراج کی بات سن کر گویا بت بن گیا تھا۔اُس کی آنکھیں پتھرا گئیں ۔اور وہ سانس لینا بھول چکا تھا۔اُسے لگا جیسے بکرے کی نہیں بلکہ اُس کی گردن پر چھری پھیری جا رہی ہو۔ بابا سراج اُن کے لیے ایک فرشتہ ثابت ہوا تھا۔ اُس نے بکرے کو ذبح کرکے اُسے حرام ہونے سے بچا لیا تھا۔
Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 109735 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.