گزشتہ آٹھ دس سالوں سے
پاکستان آئے روز نت نئی آزمائشوں سے دوچار ہو رہا ہے۔2005 ء کا تباہ کن
زلزلہ ،سانحہ لال مسجد ، سوات اور مالاکنڈ سے 30 لاکھ لوگوں کی نقل
مکانی،سینکڑوں کی تعداد میں خودکش حملے ، بم دھماکے اور اس کے ساتھ ہی
مختلف اوقات میں آنے والے تباہ کن سیلاب،اور پھر بلوچستان میں زلزلوں پہ
زلزلے،پنجاب میں سیلاب، شاید من حیث القوم ہمارے گناہ اتنے زیادہ ہوگئے تھے
کہ ہم پر آفات ارضی و سماوی ٹوٹ پڑیں اور بے سکونی ہمارا مقدر بن کر رہ گئی
ہے ہمارا سکھ چین اور امن برباد ہوچکا ہے اور ہم مسلسل سانحات کی زد میں
ہیں۔یہ 8 اکتوبر 2005ء کی ایک چمکیلی صبح تھی۔ صبح کے پونے نو بجے تھے اور
رمضان المبارک کا مقدس مہینہ شروع ہوا تھا کہ اچانک مظفر آباد، باغ، وادی
نیلم، چکوٹھی اور دیگر علاقوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ خوفناک گڑگڑاہٹ کے ساتھ
آنے والے زلزلے نے ہر طرف تباہی مچا دی۔ آزاد جموں و کشمیر اور صوبہ سرحد
کی 15 تحصیلیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ ریکٹر سکیل پر زلزے کی شدت 7.6 تھی
اور اس کا مرکز اسلام آباد سے 95 کلومیٹر دور اٹک اور ہزارہ ڈویڑن کے
درمیان تھا۔ صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 7.6ریکٹر اسکیل کی شدت سے
آنے والا زلزلہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین اور 2005ء میں دنیا کا چوتھا
بڑازلزلہ تھا۔جب کہ اس سے قبل دسمبر 2004ء میں 9.0ریکٹر اسکیل کی شدت سے
انڈونیشیا کے زیر سمندر زلزلے کے باعث اٹھنے والی سونامی کی لہر کے نتیجے
میں لاکھوں ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ جب کہ ایران کے شہر بام میں 2003ء میں زلزلے
سے 30ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔اس کی شدت 6.7تھی۔جنوری 2001میں
بھارتی صوبے گجرات میں 20ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ جون 1990ء میں شمال
مغربی ایران میں زلزلے کے نتیجے میں 40ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے
تھے۔جبکہ جولائی 1976ء میں چین میں آنے والے زلزلے سے ڈھائی لاکھ افراد
ہلاک ہو گئے تھے۔اس سے قبل مئی 1970میں پیرو کے شہر ماونٹ ہواسکاران میں
زلزلے اور مٹی کے تودے گرنے سے70ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔اسی طرح
دسمبر 1939ء میں ترکی کے شہر ایر زنکن میں تقریبا 40ہزار ہلاکتیں
ہوئیں۔جبکہ 1935میں کوئٹہ میں آنے والے زلزلے سے 50ہزار افراد ہلاک ہو گئے
تھے۔1927ء میں چین میں زلزلے کی تباہی سے 80ہزار افراد ہلاک ہوئے۔چین ہی
میں 1927میں ایک اور زلزلے میں دولاکھ افراد ہلاک ہو گئے۔1923ء میں جاپان
کے شہر اوکلا ہوما میں زلزلے نے ایک لاکھ 40ہزار افراد کو موت کی نیند سلا
دیا۔ جب کہ چین ہی میں 1920میں آنے والے ایک زلزلے سے2لاکھ 35ہزار افراد
ہلاک ہو گئے تھے۔1908میں اٹلی میں ایک زلزلہ آیا جس نے 83ہزار افراد کو
ہلاک کر دیا۔ زلزلہ2005 تمام ادوار میں ہونے والے زلزلوں میں المیے کے لحاظ
سے چودہواں بڑا زلزلہ تصور کیا جاتا ہے۔ صرف پاکستان میں 3.3 ملین لوگ بے
گھر ہوئے۔ پہاڑی علاقے میں آنے والے زلزلے بڑے پیمانے پر لینڈ سلائیڈنگ کی
جس کی وجہ سے مواصلات کا نظام مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ اقوام متحدہ کے
مطابق 8 ملین سے زیادہ آبادی اس المیے سے متاثر ہوئی۔ ایک اندازے کے مطابق
5 ارب ڈالر کی مالیت کا نقصان ہوا، جو تقریبا 400 ارب پاکستانی روپے بنتے
ہیں۔ شدید زلزلے کے نتیجے میں سب سے زیادہ ہلاکتیں آزاد کشمیر اور پاکستان
کے صوبہ خیبر پختونخوا میں ہوئیں، جہاں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کل
ہلاکتیں 74,698 تھیں۔ یہ ہلاکتیں 1935 میں ہونے والے کوئٹہ میں ذلزلے سے
کہیں زیادہ تھیں۔ عالمی امدادی اداروں کے مطابق اس زلزلے میں کل 86,000 لوگ
جاں بحق ہوئے لیکن اس کی تصدیق پاکستانی حکومت نے نہیں کی۔جماعۃالدعوۃ
پاکستان کی طرف سے 8اکتوبر 2005ء کوکشمیر و خیبر پختونخواہ میں آنے والے
ہولناک زلزلہ کے دوران امدادی سرگرمیوں پرایک ارب بیالیس کروڑ روپے خرچ کئے
گئے۔زلزلہ متاثرین کو 4348شیلٹر ہوم ،1853فائبر ہاؤ س تعمیر کر کے دیے گئے
اسی طرح 350مساجداور215سکول تعمیر کئے گئے جن میں 7506طلباء زیر تعلیم ہیں۔
زلزلہ کے چند منٹ بعد ہی ریسکیو آپریشن شروع کرنے پر جماعۃالدعوۃ کی امدادی
سرگرمیوں کو پوری دنیا میں سراہا گیا۔جماعۃالدعوۃ کے رضاکار خچروں اور ربڑ
بوٹس کے ذریعہ دریائے نیلم کراس کر کے دور دراز پہاڑی علاقوں میں پہنچ
کرمتاثرین کو خوراک اور دیگر امدادی اشیاء پہنچاتے رہے۔زلزلہ متاثرین کے
لئے 20خیمہ بستیاں بھی قائم کی گئیں ۔ 1541خیمے لگائے گئے جن میں
1523خاندان رہائش پذیر رہے ۔یہ خیمہ بستیاں 9مختلف گاؤں میں لگائی گئی تھیں۔
عالمی میڈیا کی جانب سے جماعۃالدعوۃ کی امدادی سرگرمیوں کی خصوصی کوریج کی
جاتی رہی۔ اقوام متحدہ، ڈبلیو ایچ او، آئی سی آر سی، یو ایس ایڈ اور دیگر
اداروں کی طرف سے جماعۃالدعوۃ کو خصوصی تعریفی اسناد جاری کی گئیں۔ فلاح
انسانیت فاؤنڈیشن جماعۃالدعوۃ نے آزاد کشمیر و خیبر پختونخواہ کے زلزلہ
متاثرہ علاقوں میں 3لاکھ 43ہزار افراد میں خشک راشن کے پیک تقسیم کئے جن
میں آٹا،چاول،چینی،گھی ،دالیں،پتی،صابن و دیگر اشیائے خورونوش شامل
ہیں۔زلزلہ متاثرین میں روزانہ کی بنیاد پر 15ہزار افراد میں پکا پکایا
کھانا تقسیم کیا جاتا رہا۔51ہزار 4سو نواسی افراد میں خیمے و ترپال تقسیم
کئے گئے جبکہ ایک لاکھ 35ہزار 6سو انتیس افراد میں بستر وکمبل تقسیم کئے
گئے اور 59ہزار8سو اکیانوے افراد میں گھروں کی تعمیر کے لئے جستی چادریں
بھی تقسیم کی گئیں۔ زلزلہ کے دوران سب سے پہلے جماعۃالدعوۃ کی طرف سے
ریسکیو و ریلیف آپریشن شروع کیا گیا۔جماعۃ الدعوۃ نے زلزلہ متاثرہ علاقوں
میں پہاڑی علاقوں میں رہائش پذیر متاثرین کی امداد و سامان کی منتقلی کے
لئے خچر سروس شروع کی۔23مختلف گاؤں تک 245خچروں کے ذریعہ 24.5ٹن سامان
محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔ زلزلہ متاثرین کے سامان و مریضوں کی منتقلی
کے لئے چیئر لفٹ و بوٹ سروس بھی شروع کی گئی۔ایک چیئر لفٹ روزانہ سات چکر
لگا کربیسیوں مریضوں و متاثرین کو منتقل کرتی رہی۔ کشتیوں کے ذریعہ روزانہ
ایک ٹن سامان منتقل کیا جاتا تھا جبکہ ان کشتیوں کے ذریعہ سینکڑوں مریضوں
کو منتقل کیا گیا۔کشتیاں روزانہ250چکر لگاتی تھیں۔الدعوۃقربانی پروگرام کے
تحت زلزلہ متاثرہ علاقوں میں ایک لاکھ نوے ہزار خاندانوں میں قربانی کا
گوشت تقسیم کیا گیا۔جماعۃالدعوۃ کے زلزلہ متاثرہ علاقوں میں قائم کئے گئے
اسکولوں میں اس وقت سٹاف کی تعداد 1665ہے۔واٹر سپلائی پروجیکٹ کے تحت
14مختلف مقامات پر پانی کا انتظامات کیا گیا۔ 3لاکھ66ہزار ایک سو پینتالیس
مریضوں کا علاج کیا گیا،891مریضوں کی میجر سرجری،16ہزار 557کی مائنر سرجری
کی گئی ۔5834مریضوں کے ایکسرے کئے گئے ۔مختلف علاقوں میں ڈاکٹروں و پیرا
میڈیکل اسٹاف پر مشتمل106ٹیمیں متاثرین کا علاج معالجہ کرتی رہیں۔43ہزار2سو
چالیس مریضوں کو ویکسی نیشن کی گئی۔جماعۃ الدعوۃ نے ریسکیو آپریشن کے دوران
سینکڑوں افراد کو زندہ نکالا جبکہ ملبے تلے دبے 452افرادکی لاشیں نکالی
گئیں جن میں سے438لاشوں کے کفن دفن کا انتظام بھی کیا گیا۔جماعۃ الدعوۃ نے
زلزلہ متاثرین کے لئے 20خیمہ بستیاں بھی قائم کی تھیں ۔ 1541خیمے لگائے تھے
جن میں 1523خاندان رہائش پذیر تھے ۔یہ خیمہ بستیاں 9مختلف گاؤں میں لگائی
گئی تھیں۔پاکستان بھر سے انفرادی طور پر بے شمار لوگ جذبہ حب الوطنی کے تحت
زلزلہ متاثرہ علاقوں میں جاکر رات دن کام کر رہے ہیں اس قدرتی آفت کی تباہ
کاریوں سے نمٹنے کے لئے پاکستان کے کونے کونے سے جس طرح اتحاد اور یکجتی کی
ایک آواز سنائی دی، اس سے ایک بار پھر یہ ثابت ہوگیا ہے کہ ہم ایک زندہ قوم
ہیں۔ کشمیر اور سرحد میں 8 اکتوبر کے تباہ کن زلزلے کے بعد پاکستانی قوم
دنیا پر یہ ثابت کرچکی ہے کہ وہ کڑی سے کڑی آزمائش سے سرخروئی کے ساتھ نبرد
آزما ہوسکتی ہے۔
|