برطانوی نوجوانوں کی ایک ٹیم ہیلیم گیس کے غبارے کی مدد
سے اور ایندھن کے طور پر بیئر استعمال کرتے ہوئے اپنی نوعیت کا دنیا کا
پہلا تھری ڈی پرنٹڈ راکٹ خلاء میں بھیجنے کی تیاریاں کر رہی ہے۔
ڈوئچے ویلے کے مطابق جدید طرز کا یہ راکٹ ایک عام انسان کے قد کے برابر ہے-
برطانوی دارالحکومت لندن کے وسطی حصے میں قائم اپنے دفتر میں اس راکٹ کے
بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے لَیسٹر ہینز کا کہنا ہے کہ اس منصوبے پر عمل
درآمد کی راہ میں کئی تکنیکی چیلنج آئے ہیں۔ لَیسٹر ہینز The Register نامی
ایک ٹیکنالوجی میگزین کے اسپیشل پروجیکٹس بیورو کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے
کہا کہ ایروناٹکس کی دنیا میں 3D یا تھری ڈائمینشنل پرنٹنگ کا مستقبل بڑا
روشن ہے۔
|
|
ہینز نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ آپ تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے
ایسی بہت پیچیدہ شکلیں بھی تیار کر سکتے ہیں جنہیں کسی بھی دوسری طرح بنانا
عملی طور پر آسان نہیں ہوتا۔ یہ کہتے ہوئے لَیسٹر ہینز نے کسی بھی تجربہ
گاہ میں استعمال ہونے والا جو سفید کوٹ پہن رکھا تھا، اس پر لاطینی زبان
میں اس پروجیکٹ کا موٹو لکھا تھا، جس کا مطلب ہے: ’ستاروں کی طرف اور شراب
خانے کی طرف‘۔
یہ برطانوی ٹیم لندن میں جس منصوبے پر کام کر رہی ہے، پہلی مرتبہ تو وہ
بظاہر ’بیئر اور راکٹ کے ملاپ‘ کی وجہ سے کوئی غیر سنجیدہ سا پروجیکٹ محسوس
ہوتا ہے۔ لیکن لَیسٹر ہینز کا کہنا ہے کہ امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا
کی طرف سے پہلے ہی راکٹوں کے دھاتی پرزوں کی تھری ڈی پرنٹنگ کی جا رہی ہے۔
اس منصوبے کے لیے تعاون جرمنی کی ایک data analysis کمپنی ایکساسول Exasol
کی طرف سے کیا جا رہا ہے۔
اس منصوبے کی تجویز ’دا رجسٹر‘ نامی ٹیکنالوجی میگزین کے قارئین نے پیش کی
تھی۔ سائنسی اصطلاح میں اس منصوبے کو Low Orbit Helium Assisted Navigator
یا مختصراﹰ LOHAN کا نام دیا گیا ہے۔ اس راکٹ کی تیاری میں جس ٹیم نے حصہ
لیا، اس کے ارکان کی تعداد 30 تھی اور ان میں کئی ایسے انجینئرز بھی شامل
تھے، جنہوں نے ایروناٹیکل انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ انہوں نے اس
تھری ڈی پرنٹڈ راکٹ کی تیاری پر چار سال تک کام کیا۔
لَیسٹر ہینز کے بقول اس پروجیکٹ میں سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ کسی راکٹ
میں استعمال ہونے والی عام موٹرکو اس قابل کیسے بنایا جائے کہ وہ بہت زیادہ
اونچائی پر بھی کام کرتی رہے۔ یہ ٹیم اس راکٹ کو اِسی سال نومبر یا دسمبر
میں کسی وقت امریکی ریاست نیو میکسیکو میں Spaceport America سے لانچ کرنا
چاہتی ہے۔ اس مقصد کے لیے یہ نوجوان آج کل 15 ہزار برٹش پاؤنڈ یا 19 ہزار
یورو کے برابر مالی وسائل جمع کرنے میں مصروف ہیں کیونکہ اس راکٹ کی روانگی
یا ٹیک آف پر اتنی ہی لاگت آئے گی۔
|
|
پروگرام کے مطابق یہ راکٹ پہلے تو ایک بہت بڑے ہیلیم غبارے کی مدد سے 20
ہزار میٹر کی بلندی تک لے جایا جائے گا، پھر اس راکٹ میں لگا GPS اس کے
انجن کو سٹارٹ کرے گا اور یوں اس راکٹ کی رفتار قریب ایک ہزار میل یا 1610
کلو میٹر فی گھنٹہ تک پہنچ جائے گی۔
لَیسٹر ہینز کا کہنا ہے کہ تین کلو گرام وزنی اس راکٹ کو پرنٹ کرنے پر چھ
ہزار پاؤنڈ لاگت آئی ہے۔ جب یہ راکٹ خلاء میں پہنچ جائے گا تو اس پر نصب
آٹو پائلٹ سسٹم واپس زمین کی طرف اس کی رہنمائی کرے گا۔ اس راکٹ کے سفر کی
تمام تفصیلات اس پر نصب ایک ویڈیو کیمرہ مسلسل ریکارڈ بھی کرتا جائے گا۔ |