انسانی ترقی کے باعث آج دنیا ایک چھوٹے سے گاؤں ،جب کے
بڑے بڑے ممالک اس گاؤں میں بسنے والے خاندان کی حیثیت اختیار کر چکے ،ابتداء
میں انسان انسان سے ہی ناآشنا تھا لیکن جب شعور ارتقائی مراحل عبور کرنے
لگاتو خواہشات میں بھی اضافہ ہوا ،اور پھر آزاد انسان نے یہ محسوس کیاکہ وہ
اکیلا اپنی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتا تو انسانی رشتوں نے جنم لیا اور
معاشرے وجود میں آئے ۔جس طرح ہر انسان دوسرے سے اپنے مفادات سے بندھا ہے
اسی طرح ملکوں کے درمیاں بھی مفادات کی بنیاد پر ہی رشتے بنتے اور ٹوٹتے
ہیں یقینا یہ رشتے انسانی احساسات و جذبات سے عاری ہوتے ہیں اور ہر ملک وہی
کرتا ہے جو اس کے قومی مفاد میں ہو ، مفادات کی تکمیل و اہداف کے حصول میں
اہم کردار ودارومدار خارجہ پالیسی پر منحصر ہوتا ہے۔ اگر تقسیم ہند کے بعد
وجود میں آنے والے انڈیا و پاکستان کے ماضی کا مطالعہ کیا جائے تو بھارت
بہترپوزیشن میں نظرآتاہے ۔
جب یہ ممالک آزاد ہوئے تب سرد جنگ کا دور تھا اور دنیا دو واضع حصوں میں
تقسیم تھی چہ جائیکہ چند ممالک اپنے آپ کو غیر وابستہ قرار دیتے رہے ۔بہر
حال اسلام آباد اپنی خارجہ پالیسی کا تعئن بہتر انداز سے نہ کر پایا، جب کہ
بھارت کے روس کے ساتھ قریبی تعلقات ر ہے ،سرد جنگ کے دوران بھارت نے سوویت
کلب کا ممبر بنے بغیر اس کے ساتھ سیاسی،دفاعی ،معاشی ،سول نیوکلیائی اور
دہشت گردی جیسے شعبوں میں تعلقات سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو
مضبوط کیا اور سرد جنگ کے خاتمے پر اس کا جھکاؤ مغرب کی جانب ہوا،جب کہ اہم
ترین جغرافیائی محل وقوع کے باعث روس اسلام آباد کے ساتھ تعلقات میں زیادہ
دلچسپی رکھتا تھا ۔لیکن بد قسمتی سے اسلام آباد نے یہ موقع گنوایا اور
1954میں امریکہ کے ساتھ ایک دفائی معائدہ کر لیا ،جس کے ایک سال بعد و ہ
تھائلینڈ،برطانیہ،فرانس، اسٹریلیا،فلپائن ٓ،نیوزیلینڈ،پر مشتمل SEATOکا
ممبر بنا۔اس کے کچھ ہی عرصہ بعد برطانیہ ،ترکی ایران عراق پر مشتمل بغداد
پیکٹ وجود میں آیاجس میں امریکہ شامل نہیں ہوا البتہ اس کا تعاون رہااور 58
میں جب عراق اس معائدے سے علیحدہ ہو ا تو اس کا نام تبدیل کر کے CENTOرکھا
اور پھر 59میں پاکستان نے امریکہ کے ساتھ ایک اور دوطرفہ دفاعی معائدہ کیا
۔
اگر امریکہ و پاکستانی اتحاد کی تاریخ پر غور کیا جائے تو واضع ہو جاتا ہے
کے خطہ میں پاکستان واحد ایسا ملک ہے جس سے امریکن مفادات وابستہ ہیں لیکن
امریکہ اسے بارہا بوقت ضرورت استعمال کر کے چھوڑ دینے کی پالیسی پر کار بند
رہا ۔اور اگر بھارت و پاکستان دونوں کی خارجہ پالیسیز کا موازنہ کیا جائے
تو ایک فرق صاف دکھائی دیتا ہے کہ امریکن عشق میں گرفتار پاکستان نے اس کی
دو جنگیں لڑیں ،ہزارہا جوان شہید کروائے ،تین تین مارشل لاء جھیلے ، ملک
عدم استحکام کا شکار ہوا ،معیشت تباہ و برباد ہوئی ،ملک میں ہروئن چرس
گانجا و اسلحہ کی بھرمار ہوئی اور قوم کا ایک ایک بچہ پیدائشی مقروض بنا جس
کا صلہ یہ پایاکہ آج پاکستان دنیا میں دہشت گردی کے بیس کیمپ کا لیبل لگائے
تنہا کھڑا ہے اور آئی ایم ایف اور وورلڈ بینک کا مرہون منت ہے جب کہ بھارت
اپنی کامیاب خارجہ پالیسی کے باعث سرد جنگ کے دوران بھی اپنے تمام تر
بنیادی اہمیت کے حامل شعبوں میں دنیا سے تعاون حاصل کرتا رہا اور گزشتہ
امریکہ افغان جنگ کے دوران ایک مچھر تک ناں مارنے کے باوجود امریکن ا
سٹریٹیجک پارٹنر کہلاتا ہے اورسول نیوکلیائی معائدہ بھی کر لیا ہے ،جب کہ
اس سارے رومانس کے باوجود اسلام آباد یہ جانتا ہے کہ ہر کڑے وقت میں اس کی
معیشت میں اس کا واحد پڑوسی’’ چین ‘‘اپنا حصہ ڈالتا رہا گو کے اس کے اپنے
مفادات کا تقاضا بھی یہی رہا ہے لیکن کہیں ناں کہیں دونوں ممالک اس بات پہ
متفق ہیں کہ انکی بقا و سلامتی انہی تعلقات میں پوشیدہ ہے۔ جیسا کہ چین
مستقبل قریب میں امریکہ کا سب سے بڑا حریف بننے جارہا ہے اور بھارت کو بھی
وہ اپنے حد میں رکھنا چاہتا ہے ، چین پاکستان کی معیشت میں پچاس فیصد کے
شریک کی حیثیت رکھتا ہے جب کہ اسلام آباد اوربیجنگ کے حساس ترین تعلقات کی
بنیادی اینٹ’’جموں کشمیر‘‘ہے اوران کے درمیاں واحدزمینی راستہ جموں کشمیرکے
صوبہ گلگت سے گزرتا ہے ۔یہ راستہ بیجنگ کو گوادر کے زریعے دنیا سے ملاتا ہے
اور اب قراقرم ہائی وے کے ساتھ ساتھ ٹرین سروس کا بھی پلان مکمل ہو چکا ہے
اور اس طرح بیجنگ واسلام آباد ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزم کی حیثیت
اختیار کر چکے ہیں ۔اس لئے اسلام آباد کی نظر میں اگر’’ریاست جموں
کشمیر‘‘ایک آزاد دیس کی حیثیت منوا لے تو اس کا سیدھا اثر پاک چین تعلقات
پر پڑھتا ہے ۔
دوسری جانب بھارت ریاست جموں کشمیر کے پانیوں سے اپنا ادھا ملک روشن کئے
ہوئے ہے، ٹورزم اور دوسرے قدرتی وسائل سے بھی آزادانہ مستفیدہو رہا ہے ۔
اسلام آباد نے اپنے انہی مسائل کے باعث ہمیشہ تحریک آزادی کی مبہم حمائت کی
جس کا بھارت نے بھرپورفائدہ اٹھایا اور اپنے قبضہ کو دوام بخشا، اگر اسلام
آباد آج ریاستی آزادی وخودمختاری کو تسلیم کرنے کا علان کر دے تویہ صد فیصد
طے ہے کہ بھارت چند مہینوں میں’’ جموں کشمیر‘‘ کوچھوڑ دینے اور ایک آزاد
ملک تسلیم کرنے کے لئے مجبور ہو جاسکتاہے ۔لیکن اسلام آباد یہ رسک لینے کے
لئے قطعی تیار نہیں اس لئے کہ اگر ایسا ہو جائے تو گلگت جو اس کی بقا کی
ضمانت ہے وہاں کبھی بھی ’’کوئی اور ‘‘آکر بیٹھ سکتاہے۔۔۔؟ اسلام آباد کی یہ
تشویش اپنی جگہ درست ہے ،اور اس بات کا ثبوت بھی کے ریاست کی آزادی کی راہ
میں سب سے بڑی رکاوٹ اس کی جغرافیائی حیثیت اور اس کے آبی وقدرتی زخائرو
وسائل ہیں ،بالاخصوص گلگت بلتستان اور بھارتی زیر قبضہ وہ علاقہ جو دنیا کے
میٹھے پانیوں کا منمبہ ہے اوریہی اصل وجہ تھی جس کے باعث اسلام آباد کی
کشمیر پالیسی مبہم رہی ہے وہ آزادی کی بات بھی کرتا ہے لیکن حق خود ارادیت
میں آزادی کے آپشن کو اپنے ہاتھوں ’’ڈیلیٹ‘‘کروا دیتا ہے ،وہ ہمدردی بھی
جتاتا ہے لیکن آدھی ادھوری ۔۔وہ کشمیر کا ’’جوں کاتوں‘‘ حل تلاش کرتا ہے ۔وہ
تقسیم کشمیر اورریاست کے اس حصے کا بھارت کے قبضے میں جانا قبول کرنے کو
رضا منددکھائی دیتاہے لیکن کشمیر کی آزادی وخود مختاری سے پشیمان رہتا ہے
اس لئے کہ اگرآدھا کشمیر بھارت کے پاس گیابھی تو گلگت اس کے پاس ہی رہے گا
لیکن اگر خود مختار ہوا تو بلا شعبہ اس کی وحدت بحال ہو گی اور یقینا گلگت
بھی اس خود مختار کشمیر کا حصہ’’صوبہ‘‘ رہے گاجو کسی قیمت پر اسے قبول نہیں
ہے اورآزادی کشمیر کے راستے میں یہ ایک بڑی و حقیقی رکاوٹ تو ہے لیکن سب سے
بڑی رکاوٹ منجملہ ریاستی قیادت ہے جس میں قومی غیرت ،ہمیت و ’’کردار‘‘ نام
کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔۔۔جس پر کوئی اعتبار کر سکے ،یہ نام نہاد
ریاستی لیڈ رجو کبھی لیڈر بن ہی نہیں سکے، جو دو دو ٹکے کے عوض اپنا سب کچھ
تیاگنے پر ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اور یہ کہ صدیوں سے کاسہ لیسی اور غیروں
کی قصیدہ گوئی اور آلہ کاری کے ماہر تو بن گئے مگر قومی غیرت کس’’چڑیا‘‘کا
نام ہے ناں جان پائے۔۔۔ قومی رہنما ناں بن پائے ۔۔۔یہ وہ بد کردار ہیں جو
1586سے غیر ملکی آقا درآمد کرنے کی بدترین منافقانہ روائت پر کار بند ہیں ،یہ
وہ قومی مجرم ہیں جو ووٹ تو ریاستی عوام سے لیتے ہیں لیکن اپنی قوم کے
اقتدارا علیٰ کو گڑھی خدابخش کے وڈہروں کے پاؤں میں رکھنا فخر سمجھتے ہیں ،یہ
وہ بد بخت ہیں جنہیں عوام اپنی غیرت کا محافظ بناتے ہیں لیکن وہ غیرملکی
آقاؤں کی قبروں کے مجاور بن جاتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمیشہ کشمیری
غیرت و ہمیت کا گجرات و رائیونڈ کے چوک و چوراہا میں سودا کیا ،اور قابل
رحم ہیں وہ نام نہاد آزادی پسند جن کاجذبہ ایمان و نظریات اس وقت دم توڑ
دیتا ہے جب ان کا جھوٹا ومنافقانہ پروٹوکول دکھائی دے اور وہ ان کے ساتھ
محض تصویرکچھوانے پر فخر کریں۔۔۔تب اس بد قسمت قوم کے مقدر پر رونا آتا ہے
کہ ایک طرف علانیہ آزادی دشمن اور دوسری طرف آزادی پسندی کے لبادے میں
خواہشوں کے غلام ۔۔۔ انہی بدکرداروں و بد قماشوں کے باعث ریاستی عوام صدی
کی سب سے بڑی انسانی قربانی دے کر بھی دنیا میں اپنے آپ کو ایک قوم کے طور
پر منوانے سے قاصر رہے ،یہی وہ عناصر ہیں جنہوں نے ہر دور میں تحریک آزادی
کو دنیا میں رسوا کیا جس کے باعث دنیا اس قوم پر کسی قسم کا بھروسہ نہیں کر
سکتی کیوں کے کردار سے عاری اقوام پر کبھی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا،ضرورت
اس امر کی ہے کہ اب آزادی پسندوں وآزادی دشمنوں کے درمیاں’’ لکیرکھینچ‘‘دی
جائے۔اور ایسی باکردار انقلابی قیادت کو سامنے لایا جائے جو دنیا میں قومی
کردارمنوا سکے تاکہ دوسری اقوام ہم پر اعتماد کر سکیں جس طرح اسکاٹ لینڈ نے
اپنے کردار سے دنیا کا اعتماداور پھر حق خودارادیت حاصل کیا اوریہ بھی
حقیقت ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اب دبایا نہیں جا سکتا یہ ایک حل طلب مسئلہ ہے
۔اور جب تک اسے حل نہیں کیا جاتا بھارت و پاکستان اسی گوماگوں کی صورتحال
سے دوچار رہیں گے اور خطہ پر کسی بڑے نیوکلیائی ٹکراؤ بادل ہمیشہ منڈلاتے
رہیں گے ۔ |