کتابِ زندگی بند ہو جائے گی!

زندگی کیا ہے ؟شاید آج تک کوئی بھی سمجھ نہیں پایا ہے اس بارے میں بہت سے اقوال ہیں مثلازندگی زندہ دلی کا نام ہے مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں ۔سکھ اور چین سے زندگی تو سبھی بسر کر لیتے ہیں ،دکھوں اور مصیبتوں میں زندگی بسر کرنے کا نام ہی زندگی ہے ۔زندگی موت کی امانت ہے ،زندگی ایک خواب ہے جس کی تعبیر موت ہے،زندگی کانٹوں کا بچھونا ہے ،پھولوں کی سیج نہیں ، اور یہ بھی کہ زندگی سہانی صبح ہے اور موت بھیانک شام ۔ زندگی دکھ اور سکھ دونوں کا نام ہے ،جس میں کانٹے بھی ہیں اور پھول بھی ،جس میں ہنسی بھی ہے اور رونا بھی ۔جس میں پانا بھی ہے اور کھونا بھی ۔جس میں دھوپ بھی ہے اور چھاوں بھی ۔اس میں بہار بھی ہے اور خزاں بھی ۔انسان کا فرض ہے کہ وہ مسلسل جہدوجہد کرتا رہے ۔لیکن لوگ اپنی زندگی سے مطئمن نہیں ہوتے ۔وہ جس چیز کے لیے سرگرم عمل رہتے ہیں وہ انہیں مل نہیں پاتی ، اس لیے بات قسمت پر ختم ہو جاتی ہے ،کیونکہ انہیں اسکے علاوہ کوئی چارہ کار نظر نہیں آتاکہ زندگی کی کشتی کو وقت کی طوفانی لہروں پر چھوڑ دیا جائے ۔چونکہ اس طرح انہیں کم از کم یہ یقین ہوجاتا ہے کہ یہ لہریں انہیں کہیں نا کہیں کسی نا کسی ساحل سے تو ملائیں گی۔کبھی نا کبھی ان کی زندگی ان طوفانی موجوں سے نکل کر خوشیوں کی حسین راہوں پر گامزن ہو گی ۔لیکن یہ سب کب ؟کہاں ؟اور کیسے ہونے ؟والا ہے اس کی خبر کسی کو نہیں ہر آنے والا نیا دن ان کے لیے زندگی کی نئی امنگ لے کر آتا ہے اورہر کوئی اس میں سے اپنے حصے کی خوشیاں سمیٹ لیتا ہے ۔کسی کا دامن بھر جاتا ہے اور کسی کا خالی رہ جاتا ہے کسی کے حصے میں پھول آتے ہیں اور کسی کے حصے میں کانٹے ۔زندگی کانٹوں سے بھری راہ ہے ،جس پر چلنے والے کے نہ صرف پاوں لہولہان ہوتے ہیں بلکہ اس کی روح تک چھلنی ہو جاتی ہے ۔اور کھبی کھبار تو وہ اس حد تک زخمی ہو جاتا ہے کہ اس کے لیے خود کو پہچاننا بھی مشکل ہو جاتاہے اس کی روح کو گھائل کر دینے والے حالات ،حادثات اس کی بے بسی کا مذاق اڑاتے ہیں اس کے زخم ناسور بن کر اس کی زندگی کو گھن کی طرح چاٹ جاتے ہیں ۔یا وہ اس حال تک پہنچا دیتے ہیں کہ وہ موت کی تمنا کرنے لگتا ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ خود کشی حرام ہے ۔وہ خود کو مٹا دینا چاہتا ہے ۔اور زندگی جیسی حسین اور خوبصورت نعمت کا شکریہ ادا کرنے کی بجاے ناشکری کرتا ہے اور اپنے مالک کا مجرم بن جاتا ہے ناتوانی ،بے چارگی بزدلی کی علامت ہے ۔ہمیں مایوسی اور قنوطیت کو چھوڑ کر زندگی کے روشن پہلوپربھی نظر ڈالنی چاہیے اس لئے کہا گیا ہے کہ مایوسی گناہ ہے اور امید زندگی ہے ۔سورج کا طلوع ہونا، چاند ستاروں کا چمکنا، ہواوں کا سرسرانا، پرندوں کا چہچہانا ،کلیوں کا چٹکنا،دریاوں کا اچھلنا ،سمندر کا تموج کرنا سب زندگی کی علامات ہیں ۔زندگی جوش و خروش کا نام ہے۔زندگی اصل حقیت ہے اور موت ایک فریب اور دھوکہ ہے اقبال کے نزدیک موت زندگی کا پیش خیمہ ہے لوگ جسے زندگی کی شام سمجھتے ہیں اصل میں وہ اس کی دائمی صبح ہے اقبال کہتے ہیں کلی کی موت میں پھول کی آفرنیشن کا راز پوشیدہ ہے لاکھ ستاروں کے فنا ہو جانے سے ایک آفتاب کی ولادت ہوتی ہے ۔موت کے بعد فنا نہیں بلکہ ابدی بقا ہے ۔
زندگی کی آگ کا انجام خاکستر نہیں ٹوٹنا
جس کا مقدر ہو یہ وہ گوہر نہیں ََ

کتاب زندگی کے ورق برابر الٹ رہے ہیں، ہر آنے والی صبح ایک ورق الٹ دیتی ہے یہ الٹے ہوئے ورق برابر بڑھ رہے ہیں اور باقی ماندہ ورق برابر کم ہو رہے ہیں اور ایک دن وہ ہوگا جب آپ اپنی زندگی کا آخری ورق الٹ رہے ہوں گے، یونہی آپ کی آنکھیں بند ہونگی یہ کتابِ زندگی بھی بند ہو جائے گی اور آپ کی یہ تصنیف بھی محفوظ کر دی جائے گی کبھی آپ نے غور کیا اس کتاب زندگی میں آپ کیا درج کر رہے ہیں؟ آج اسی بات پر غور کر لو۔ اگر زندگی کو گاڑی سمجھ لیا جائے اور آپ زندگی کی گاڑی کو کامیابی سے چلانا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنے دل کے ایکسی لیٹر پر قابو پانا ہوگا، دماغ کے بریک مضبوط اور غصے کی سپیڈ کو کنٹرول میں رکھنا ہوگا، اپنے ظرف کے ٹائر اعلیٰ اور اونچی کوالٹی کے لگانے ہونگے تاکہ آپ کے خیالات کی ٹیوب پنکچر ہونے سے بچی رہے، اپنی زبان کے سپیڈو میٹر میں شرافت کی سوئی لگانی ہوگی ان تمام چیزوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ آپ کے پاس خوش اخلاقی کا لائسنس ہو تب ہی آپ دنیا کے روڈ پر اپنی زندگی کی گاڑی آسانی سے چلا سکتے ہیں۔زندگی ایک ڈائری کی مانند ہے جس کے ہر صفحے پر دن، تاریخ، ماہ و سال چسپاں ہیں، صفحہ اول سے لے کر صفحہ آخر تک زندگی اس پر بے شمار تحریریں لکھتی ہے اور اس کی ہر تحریر کی نوعیت زندگی کے ہر مزاج پر منحصر ہے ، جب یہ خوش ہوتی ہے تو دھنک کے ساتوں رنگ ڈائری میں سجاتی ہے، ہم اگر شروع سے آخر تک اسے پڑھتے جائیں تو پتہ چلے گا کے تاریخ کے ساتھ ساتھ تحریروں میں پختگی، شوخی اور تجربہ دکھائی دینے لگتا ہے، لیکن افسوس یونہی ہم ان تجربوں اور پختگیوں سے فیضیاب ہونے لگتے ہیں تو ڈائری کے صفحات ختم ہو جاتے ہیں۔جب زندگی کیے گزارنے کا طریقہ آیا تو زندگی تمام ہونے کے قریب ہوتی ہے۔زندگی کی شاہراہ ون وے ہے آپ جا سکتے ہیں لیکن آ نہیں سکتے ، زندگی کی گاڑی میں فالتو ٹائر نہیں ہے ، جہاں پنکچر ہو گئی وہاں ختم،، ہمارے پاس ایک عدد خوبصورت چہرہ ہے مسکراہٹ واحد ہمارا لباس ہے، اور زندگی کی شاہراہ پر ہماری مسرتیں وہیں پروان چڑھتی ہیں جہاں ہم اعتماد کے بیج کی آبیاری کرتے ہیں، تو پھر ہماری زندگی ، زندگی کی شاہراہ پر رواں دواں ہوتی ہے۔

Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal
About the Author: Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal Read More Articles by Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal: 496 Articles with 580025 views Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal
Press Reporter at Columnist at Kassowal
Attended Government High School Kassowal
Lives in Kassowal, Punja
.. View More