علم کے معنی جیسا کہ سب ہی جانتے
ہیں معلوم کرنا، جاننا اور سمجھنا کے ہیں علم کا دائرہ کار بہت وسیع ہے
دنیا میں علم حاصل کرنے کے بیشتر ذرائع موجود ہیں دنیا کے ہر انسان کے لئے
علم کی اہمیت و ضرورت مستند ہے اور بحیثیت مسلمان ہم سب پر بشمول مرد و
عورت علم حاصل کرنا فرض ہے مسلمانوں کے لئے علم حاصل کرنے کی ضرورت و اہمیت
اللہ کے پاک کلام قرآن مجید اور نبی آخری الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی احادیث مبارکہ سے بھی ثابت ہے
اب سوال یہ ہے کہ علم کہاں سے اور کیسے حاصل کیا جائے تو اس مسئلے کا حل
بھی کلام مجید میں موجود ہے کہ قرآن پاک دنیا کی وہ واحد کتاب ہے جس میں
انسان اور انسانی زندگی سے متعلق ہر سوال کا جواب موجود ہے ہر مسئلے کے حل
کا بیان موجود ہے دنیا میں جتنے بھی علوم ہیں ان سب کی بنیاد کلام پاک میں
ہی موجود ہے فلسفہ و مذہب، تاریخ و سیاست، سائنس و نفسیات، ادب و آرٹ، علم
ارضیات و فلکیات، علم نجوم و طب، صنعت و زراعت، تجارت حرفت حیاتیات و
بناتات الغرض دنیا کا وہ کونسا ہنر ہےوہ کونسا فن ہے وہ کونسا علم ہے جس کا
بیان قرآن پاک میں نہیں ملتا بلکہ یہ کہنا بجا ہے کہ اس کائنات کے تمام
علوم و فنون کی شاخیں علم قرآن سے ہی پھوٹتی ہیں
ہر دور کا انسان شعوری و لاشعوری طور پر کسی نہ کسی ذریعے یا وسیلے سے کسی
نہ کسی طریقے سے کم یا زیادہ کسی نہ کسی حد تک علم حاصل کرتا ہی ہے کہ تجسس
انسان کی فطرت ہے جب انسان اس دنیا میں آتا ہے اسی وقت سے اپنے اطراف کو
دیکھتا ہے اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہے آپ نے اکثر بچوں کو دیکھا ہوگا کہ وہ
کھلونوں کو کس طرح الٹ پلٹ کر دیکھتے ہیں ان کی بناوٹ پر غور کرتے ہیں
کھلونے کے مختلف حصوں کو علیحدہ علیحدہ کر کے توڑتے جوڑتے رہتے ہیں آہستہ
آہستہ بچہ پھلتا پھولتا اور بڑھتا ہے اس کا شعور، ذہنی و جسمانی صلاحیتیں
بھی پروان چڑھتی ہیں اس کی ترجیحات بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ تغیر پذیر ہوتی
رہتی ہیں اپنے اپنے ماحول اور ضروریات کے مطابق ہر انسان تاحیات کسی نہ کسی
نوعیت کا علم کسی نہ کسی توسط سے کسی نہ کسی ذریعے سے سیکھتا ہی رہتا ہے
عام طور پر علم حاصل کرنے کے دو اہم ذرائع ہیں جن میں مطالعہ کتب اور
مشاہدہ خلقت یعنی اپنے اطراف کا مشاہدہ کرنا اپنے ارد گرد وقوع پذیر ہونے
والے حالات و واقعات کا بنظر غائر جائزہ لینا اپنے ارد گرد رہنے بسنے والے
لوگوں کا ملنے ملانے والوں کی عادات و اطوار گفتگو اور ان کی کارکردگی کا
جائزہ لیتے ہوئے ہی انسان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے اور کچھ نہ کچھ سیکھنے کا
یہ عمل ہی دوسرے معنوں میں علم کہلاتا ہے مطالعہ کتب بہت اچھی عادت ہے اور
انسان کو یہ عادت اپنانی چاہیے اچھی کتب کا مطالعہ انسان کی شخصیت میں
نکھار اور توازن پیدا کرتا ہے حسن بیان کی خوبی پیدا کرتا ہے خاص طور پر
ادبی قسم کی کتب کا مطالعہ انسان میں حسن اظہار و بیان کی خوبی پیدا کرتا
ہے انسان کی گفتگو بہت حد تک انسان کی شخصیت کا اظہار بھی کرتی ہے جبکہ
فلسفہ و مذہب اور تاریخ و سیاست پر مبنی کتب سائنس و ٹیکنالوجی کی کتب
انسان کو آداب معاشرت و حکومت اور دنیاوی ترقی و سہلت کی زندگی گزارنے کے
گر سکھاتی ہیں
مطالعہ کتب کے علاوہ حصول علم کا جو دوسرا اہم ذریعہ ہے وہ ہے مشاہدہ
مطالعہ کتب کی اہمیت اپنی جگہ مسلم لیکن حصول علم کے لئے محض مطالعہ کتب ہی
کافی نہیں ضرری نہیں کے زندگی کے متعلق حقائق جاننے کے لئے صرف حوالاتی کتب
کا مطالعہ ہی درکار ہے بلکہ بیشتر حقائق ایسے بھی ہیں جو مشاہدہ خلقت کے
بغیر انسان کے قلب و ذہن پر آشکار نہیں ہوتے بلکہ یہ حقائق انسان پر ذاتی
تجربے اور مشاہدہ کی بدولت ہی انسان کے وارد ہوتے ہیں مطالعہ کتب سے ہم
ظاہری علوم کے بارے میں بیشتر معلومات حاصل کر سکتے ہیں لیکن اس کائنات کے
کچھ پوشیدہ حقائق ایسے بھی ہیں جن کے بارے میں جاننے کے لئے محض مطالعہ کتب
ہی کافی نہیں ہے
مطالعہ و مشاہدہ کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے س لئے مطالعہ کتب کے ساتھ
ساتھ مشاہدہ خلقت اور مشاہدہ خلقت کے ساتھ ساتھ مطالعہ کتب جاری رہنا چاہیے
کیونکہ کوئی بھی تحریر ہو یا کوئی بھی تصنیف، مصنف یا لکھنے والے کے پیش
نظر اس کا کوئی نہ کوئی محرک کوئی نہ کوئی پس منظر ضرور ہوتا ہے کوئی بھی
تحریر یا تصنیف بے وجہ تخلیق نہیں ہو جایا کرتی بلکہ اس کے پیچھے انسان کے
ذاتی تجربات اور مشاہدات کار فرما ہوتے ہیں کوئی بھی فرد اپنی قوت مشاہدہ
کی بدولت کائنات، انسان، زندگی اور موت کے متعلق ایسے بیشتر حقائق معلوم کر
سکتا ہے جو محض مطالعہ کتب سے ممکن نہیں ہوتے فلسفہ نفسیات منطق ، طب،
تاریخ اور سیاست پر لکھی جانے والی بیشتر کتب انسان کی قوت مشاہدہ یا
مشاہدہ خلقت کا ہی نچوڑ ہیں اسی لئے مشاہدہ کے ساتھ مطالعہ کتب ناگزیر ہے
علم ایک بحر بیکراں ہے جس کی کوئی حد کوئی کنارا نہیں یہی وجہ ہے کے جیسے
جیسے زمانہ ترقی پا رہا ہے جدید سے جدید تر علوم روشناس ہو رہے ہیں نئے سے
نئے علوم فروغ پا رہے ہیں اور یہ محض مطالعہ کتب کی مرہون منت نہیں بلکہ
مشاہدہ خلقت کا بھی نتیجہ ہے جو کتب خانوں میں روز بروز متفرق کتب کی
فراوانی کا باعث بن رہا ہے کسی بھی تصنیف پر تنقید کے لئے تحقیق کا عمل بھی
ناگزیر ہے اور اس تحریر یا تصنیف کا سرسری مطالعہ کرنے کے بعد بے سوچے
سمجھے رائے زنی بعض و اقات لکھنے والے پر گراں گزرتی ہے یا دیگر قارئین پر
بھی تحریر کے اصل مقصد سے متضاد تاثر پیدا کرنے کا باعث بھی بن سکتی ہے کسی
بھی تحریر یا نصنیف کو جو یقیناً مشاہدات کے بعد ہی تکمیل پاتی ہیں ان کا
مطالعہ بھی دقت نگاہ کا متقاضی ہوتا ہے
سو جب بھی آپ کوئی تحریر یا تصنیف کا مطالعہ کریں تو کوشش کریں کے اس کے
متن کو دقت نظر سے جانچ سکیں اپنی چشم نظر سے صرف نظر تھوڑا سا قوت بصیرت و
تخیل سے بھی کام لیں اپنی چشم بصیرت میں وسعت پیدا کریں کسی ایک ہی نکتے پر
نظر نہ ٹھہرا لیں کسی ایک ہی خیال یا بات کو ہی پوری تحریر کا نچوڑ نہ سمجھ
لیں تو ممکن ہے آپ اس خیال تک پہنچ سکیں جس کی زد میں آکر یا جس کی گرفت پا
کر مصنف کوئی تصنیف یا لکھنے والا کوئی تحریر لکھتا ہے مشاہدہ لفظ شاہد سے
نکلا ہے جس کے معنی دیکھنے والے کے ہیں اس طرح مشاہدہ کا لفظی مطلب ہوا
دیکھنا اب لفظ دیکھنا کا مفہوم بہت وسیع ہے یہ دیکھنا کسی پر محض سرسری
نگاہ ڈالنا یا اچٹتی سی نظر سے دیکھنا نہیں ہے بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ اپنے
ارد گرد رونما ہونے والے حالات و واقعات کو گہری نظر سے دیکھنا اور ان کے
نتیجے میں رونما ہونے ولی تبدیلیوں کا دقت نظر سے جائزہ لینا اور پھر ان کی
روشنی میں کوئی نتیجہ اخذ کرنا جو کچھ کے آپ نے محسوس کیا اسے اپنے ذہن میں
محفوظ کرنا اور پھرہونے والی بلکہ اس سے مراد مشاہدہ خلقت ہے یعنی خالق کی
تخلیق کردہ کائنات اور اس کائنات کی مخلوق کا مشاہدہ کرنا ہے
دوسرے لفظوں میں مشاہدہ خلقت اپنے اطراف و جوانب کا بنظر غائر جائزہ لینا
کلام پاک میں بھی ‘تفکر فی الخلق‘ کا ذکر بارہا آیا ہے اور یہ تفکر فی
الخلق یہی مشاہدہ خلقت ہے مشاہدہ کائنات ہے مشاہدہ کائنات بھی انسان پر علم
و آگاہی کے بیشتر در وا کرتا ہے اب یہ انسان پر ہے کہ وہ اپنی اس قوت سے
اپنی اس صلاحیت سے کس حد تک کام لیتا ہے مشاہدہ کائنات یا مشاہدہ خلقت
انسان پر کائنات کے بیشتر پوشیدہ اسراار ظاہر کرتا ہے آشکار کرتا ہے مطالعہ
کتب اور مشاہدہ خلقت میں گہرا تعلق ہے بھی ہے اور تضاد بھی یا یوں کہہ
لیجیے کہ ایک عقل ہے تو دوسرا عشق بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کو
ظاہر میں کچھ نظر آ رہا ہوتا ہے جبکہ حقائق کچھ اور ہوتے ہیں یا قاری اپنی
دانست میں کچھ اور مفہوم اخذ کرتا ہے جبکہ لکھنے والے کے پیش نظر کوئی اور
نظریہ ہوتا ہے کہ کبھی کبھی عقل جسے غلط قرار دیتی ہے عشق کی نظر میں وہی
درست ہے عقل جس کی تردید کرتی ہے عشق اسی کی بھرپور تائید و حماٰیت کرتا ہے
تردید و تائید بھی تحریر و تخلیق کا ایک اہم جز ہے کسی بھی تحریر یا تصنیف
پر قارئین کی رائے کی روشنی میں تائید و تردید کا فیصلہ تبصرہ یا تنقید
کہلاتا ہے جس کا فیصلہ کوئی بھی قاری مطالعے کے بعد کرتا ہے ایک نظریہ ایک
تحریر یا ایک تصنیف کے بیشتر قارئین ہوتے ہیں جو کہ کسی بھی تحریر کے متعلق
اپنی رائے کے اظہار میں آزادانہ حق بھی رکھتے ہیں قارئین اپنی نظر اپنی
سمجھ اور اپنی بصیرت کے مطابق ہی کسی تحریر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار
کرتے ہیں تائید یا تردید کا فیصلہ کرتے ہیں لیکن وہ محض اندازہ ہی لگا سکتے
ہیں وہ یہ نہیں جانتے کہ تحریر کا پس منظر یا محرک کیا ہے لکھنے والے نے
اگر کوئی اچھوتا انوکھا یا نیا خیال تحریر کیا ہے تو کسی کیفیت سے گزر کر
کسی لمحے کی گرفت میں آکر اور کن حالات و واقعات کی زد میں آ کر تحریر کیا
ہے یہ صرف لکھنے والا ہی جانتا ہے
جبکہ قارئین نے اپنے قیاس کی روشنی میں رائے کا اظہار کرنا ہوتا ہے جو کہ
تحریر کے حق میں تائید بھی ہو سکتی ہے اور تحریر کی مخالفت میں تردید بھی
ہو سکتی ہے آخر میں قارئین سے التماس ہے کہ کسی بھی تحریر یا تصنیف کے بارے
میں اپنی قیمتی آرا کا اظہار کرتے ہوئے چاہے وہ حمایت میں ہو یا مخالفت میں
ہو خواہ ہو تائید میں ہو یا تردید میں ہو الفاظ و انداز کا خاص خیال رکھا
کیجئیے یہ نہ ہو کہ نادانستہ آپ کے الفاظ تخلیق کار یا لکھاری کے دل پر
گراں گزرے مطالع کتب کرنے والوں کو تو خاص طور پر یہ خیال رکھنا چاہیے کہ
کتب تو ذخیرہ الفاظ کا خزینہ ہوتے ہیں کسی بھی تحریر کے متعلق یا کسی شخص
کے متعلق یا کسی بھی موقعہ پر آپ کے الفاظ اور آپ کا انداز بیان خود آپ کی
اپنی شخصیت کے متعلق اچھا یا برا تاثر قائم کرتے ہیں
مطالعہ کتب جاری رکھیے مشاہدہ خلقت بھی کیجئیے کہ کائنات انسان اور انسانی
زندگی کے بیشتر موضوعات مشاہدہ خلقت میں ملتے ہیں تائید نہ سہی تردید ہی
کیجئیے لیکن ایسی تنقید اور ایسی تردید کہ اس تنقید و تر دید پہ بھی حمایت
کا گمان ہو لکھنے والے کی ذات پر احسان ہو نہ کسی کا دل تڑپے نہ کسی روح کا
نقصان ہو |