بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
چائینیز کمیونٹی میں چار کے عدد کو موت کا عدد سمجھا جاتا ہے کیونکہ
چائینیز زبان میں چار کو سیئی (سے ئی)بولا جاتا ہے جب کہ چائینیز لوگ مغرب
(ویسٹ )اور موت (ڈیتھ) کو بھی کچھ زیر زبر یا پیش کے فرق کے ساتھ سیئی ہی
بولتے ہیں یوں وہ چار یعنی کہ سیئی کو موت ہی سمجھتے ہیں اور اس عدد کو
اتنا منحوس گردانتے ہیں کہ چائینیز کمیونٹی کے افراد اس عدد سے ہمیشہ ہی
دور ہی رہتے ہیں اسی لئے آپ کو ملک چین اور چینی کمیونٹی کی اکثر بلڈنگز
میں چوتھا فلور نہیں ملے گا اور ہر فلور پر چوتھا فلیٹ بھی نہیں ملے گا۔
بلکہ کچھ بلڈنگز میں چودہ چوبیس چونتیس علیٰ ہذا القیاس چار سے جڑا ہوا
کوئی بھی عدد نہیں ملے گا۔
عیسائی بھی تیرہ کے عدد کو منحوس قرار دیتے ہیں اور دل چسپی کی بات تو یہ
ہے کہ علم الاعداد والے (نیومرالوجی) تیرہ کے عدد کو بھی چار گردانتے ہیں
وہ ایسے کہ تیرہ کے تین کو تیرہ کے ایک میں جمع کریں تو چار کا عدد بنتا ہے
دراصل علم الاعداد والوں کے نزدیک بنیادی اعداد صرف نو ہیں یعنی کہ وہ ایک
سے لے کر نو عدد کو ہی اصل اعداد قرار دیتے ہیں یوں وہ ہر عدد کو خواہ وہ
اکیلا ہو یا پھر سیکنڑوں اعداد پر مشتمل ہو اس کو آپس میں جمع کرتے جاتے
ہیں کہ وہ کثیر عددی عدد جمع ہوتے ہوتے ایک عدد یعنی کہ اکائی کا روپ دھار
لیتا ہے۔
اس قسم کے تواہم وسوسے اور واہیات خیالات آپ کو ہر ملک اور ہر کمیونٹی میں
ملیں گے اگر نہیں ملیں گے تو پکے سچے مسلم افراد میں نہیں ملیں گے مسلمین
کے نزدیک کوئی بھی عدد منحوس یا سعد نہیں ہے سارے اعداد صرف گنتی کے لئے
ہیں یا پھر کسی خاص عدد کی تصدیق یا تردید قرآن کریم یا احادیث رسول صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہوتی ہے تو وہ عدد ہمارے لئے اہمیت رکھتا ہے وہ
بھی صرف خاص خاص مواقع کے لئے ہے ان مواقع کی وضاحت اور صراحت قرآن کریم یا
احادیث مبارکہ میں کر دی گئی ہے ورنہ ہم مسلمین ہر عدد کو کسی تعصب کے بغیر
صرف گنتی کے لئے ہی استعمال کرتے ہیں۔ ہم پاکستانی مسلمانوں میں بھی
تواہمات اور واہمات کثرت سے پائے جاتے ہیں جو کہ ہندو کلچر سے قربت کا
نتیجہ ہیں۔
بہت ساری کمیونٹیز میں یہ واہمات اور تواہمات نسل در نسل چلتے ہیں جیسے کہ
چینی نسل کے لوگوں کی اکثریت تاؤ ازم یا تھاؤ ازم کی پیرو کار تھی مگر جب
ماؤ زے تنگ کی کیمونسٹ حکومت بر سر اقتدار آئی تھی تب کیمونسٹ حکومت کے زیر
اثر چینوں نے کسی اللہ، گاڈ ،ایشور، بھگوان کے وجود سے تو انکار کردیا تھا
مگر ان تواہم کو وہ اپنے اذہان سے کھرچ نہ سکے تھے جو کہ نسل در نسل ان میں
چلے آرہے تھے انہی تواہم کا اثر یہ ہے کہ ہن یا ہان نسل کا چینا خواہ
کرسچیئن ہو جائے یا یہودی بن جائے۔
وہ سکھی اختیار کرلے یا پھر ہندو مت میں غرق ہوجائے۔ وہ خود کو مسلم
کہلوانا شروع کردے یا پھر اپنے آپ کو بے دین تصور کرے وہ چینا(چائینیز) ہی
رہتا ہے۔ یعنی کہ پہلے اور بنیادی طور پر وہ ایک چینا ہے اور پھر اس کے بعد
ہی وہ کچھ اور ہے۔
ملک ِچین کی اکثریت بے دین تصور کی جاتی ہے اور وہ کسی بھی مالک اور خالق
کے منکر ہونے کا دعویٰ بھی کرتی ہے۔ ان کا یہ دعویٰ محض دعوے کی حد تک ہی
ہے ورنہ اندر سے تو ہر ہن یاہان نسل کا مرد اور عورت تاؤ ازم کا قائل ہے
کوئی شعوری طور پر اور کوئی غیر شعوری طور پر۔ اس کی ایک واضح مثال یہ ہے
کہ چینی نسل کے امرا اور ملکِ چین کے اعلیٰ عہدے دار بشمول کیمونسٹ پارٹی
کے لیڈرز فنگ شی کے دل سے قائل ہیں اور انہوں نے جب بھی کوئی اہم کام کرنا
ہوتا ہے یہ لوگ لاکھوں ڈالرز فنگ شی کے ماہرین کی نذر کرتے ہیں اور ان کے
علم سے استفادہ حاصل کرتے ہیں ۔
ان استفادہ کرنے والوں میں ہر عقیدے کے چینی نسل کے لوگ شامل ہوتے ہیں ایک
خالق اور مالک کے قائل بھی اور متعدد خداؤں کو ماننے والے بھی یہاں تک کے
کسی خالق کی ذات کے منکر بھی۔
یہ فنگ سی یا فونگ شی کیا ہے؟ یوں سمجھیں کی جس طرح سے ہندو بچاری یا برہمن
نجس یا سعد بتاتے ہیں چینی نسل کے تھا ؤ ازم کے پروہت بھی یہی کام کرتے
ہیں۔ سبھی لوگ جانتے ہیں کہ چین ایک کیمونسٹ ملک ہے اور کیمونسٹ تو مذہب کو
افیون قرار دیتے ہیں اور کسی خالق کے قائل بھی نہیں ہیں ایسے بے دین یا
ایتھیسٹ لوگوں کو تو سعد اور نجس کا قائل ہی نہیں ہونا چاہئے مگر دل چسپی
کی بات تو یہ ہے کہ چین کے چھوٹے ہی نہیں کیمونسٹ پارٹی کے بڑے بڑے عہدے
دار بھی کسی نہ کسی وہم اور وسوسے کا شکار رہتے ہیں اس لئے وہ کوئی بھی بڑا
یا چھوٹا کام کرنے سے قبل فنگ شی کے ماہرین سے رائے ضرور طلب کرتے ہیں۔
یہاں ہانگ کانگ میں وفاقی حکومت یعنی کہ بیجنگ والوں کی بے شمار بلڈنگز ہیں
اور ہر بلڈنگ کی تعمیر سے قبل کیمونسٹ چین کے اعلیٰ عہدیدارو ں نے فنگ
شی(فونگ شوئی) کے ماہرین سے رائے ضرور طلب کی ہے۔ ان دو تین صفحات میں ان
سبھی بلڈنگز کی مثالیں دینا تو ناممکن ہے اس لئے ایک ہی بلڈنگ کی مثال دینا
ہی مناسب ہے اور یہ عمل درست بھی ہے کیونکہ سیانے کے آدمی کے لئے ایک مثال
ہی کافی ہوتی ہے جب کہ بے وقوف کے سامنے توا گر آپ ساری کی ساری ہیر وارث
شاہ پڑھ بھی ڈالیں گے تو ہیر وارث شاہ کے خاتمے کے بعد بے وقوف آپ سے یہ
سوال ضرور بہ ضرور کرے گا کہ ہیر مرد تھی کہ عورت تھی؟ میری یہ تحریر ویسے
بھی بے وقوف لوگوں کے لئے نہیں ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ میرا مخاطب تو ہمیشہ
ہی سیانے اور سمجھدار لوگ ہی ہوتے ہیں۔
ہر ملک میں بنک اور بنکاری نظام اس ملک کی معیشت اور اقتصادی نظام کے
استحکام میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ چین میں بھی بنکاری نظام دنیا کے
دیگر ممالک کے بنکوں کی طرح سے جدید ترین ہی ہے بنک آف چائنا چین کا ایک
اہم بنک ہے اس نے ملک کے تمام بڑے شہروں بشمول ہانگ کانگ میں بڑی بڑی اور
بلند وبالا عمارات تعمیر کروائیں ہیں۔ ہانگ کانگ میں بنک آف چائنا کا ریجنل
ہیڈ کوارٹر ہے جو کہ فارایسٹ کے علاقے کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس ریجنل ہیڈ
کوارٹر کی عمارت دنیا کے دیگر بڑے بڑے بنکوں کی عمارات کے درمیان ہی سینٹرل
میں بنائی گئی ہے جو کہ ہانگ کانگ آئی لینڈ کی سب سے مشہور اور مہنگی ترین
جگہ ہے اور یہیں پر ہی دیگر عالمی اداروں اور بنکوں کے ہیڈ کورٹرز اور ان
کی ذاتی عمارتیں بھی ہیں۔
جب اس بنک کو تعمیر کرنے کا مرحلہ آیا تھا تو اس بنک کے کرتا دھرتا لوگوں
اور ڈائریکٹرز نے تعمیر سے قبل فنگ شی کے ماہرین سے مشورہ کیا تھا انہوں نے
جو مشورہ دیا تھا اس مشورے کی روشنی میں بنک آف چائنا کی جو عمارت تعمیر کی
گئی ہے اس کی شکل تلوار نما ہے اس عمارت کے چار کونوں کی بجائے تین کونے
ہیں اس طرح سے فنگ شی والوں نے اس طرز تعمیر سے دو مقاصد حاصل کئے ہیں پہلا
تو یہ کہ عمارت چار کونوں والی نہیں ہے یعنی کہ سیئی کوک (چکور)نہیں ہے
بالفاظ دیگر چار کے عدد یعنی کہ موت سے اجتناب کیا گیا ہے دوسرا یہ کہ اس
عمارت کے ہر کونے کو کسی دوسری اہم عمارت کی طرف یوں رکھا گیا ہے کہ اگر ہم
بنک آف چائنا کی اس عمارت کو دور سے اور کسی بلند مقام سے دیکھیں تو یوں
دکھائی دیتا ہے کہ ایک عظیم اور تیز دھاری تلوار ہے جو کہ ارد گرد کی
عمارتوں کو اپنی تیز دھار سے کاٹنے کو تیار کھڑی ہے۔ فنگ شی کے ایک ماہر کے
مطابق اس طرح سے یہ اپنے خزانے کی حفاظت کر رہی ہے۔
پس چینی قوم کے لوگوں کی اکثریت دنیا کی دوسری کافر اقوام کی طرح سے وہمی
ہی ہے ان کی اس وہمی طبیعت اور عادت کا مجھے علم ہے اسی لئے میں عام
چائینیز تو ایک طرف رہے فنگ شی کے ایک ماہر کو بھی دہلائے رکھتا ہوں جیسے
چائنیز لوگ آٹھ کے عدد کو بہت لکی سمجھتے ہیں اس لئے وہ ایسی گاڑی جائداد
یا کوئی اور ایسی ہی چیز پسند کرتے ہیں جس میں ایک آدھ آٹھ کا عدد ضرور آتا
ہو۔ میں ایسے چینوں کو یوں ڈراتا ہوتا ہوں کہ اگر ہم آٹھ کو سپلٹ کر دیں تو
دو چار یعنی کہ دو سیئی ( دو اموات ) ہوتے ہیں۔ اب جب کہ دوہزار گیارہ قریب
ہی ہے تو میں کئی چینوں بشمول ایک فنگ شی کے ماہر کو یہ کہتا ہوتا ہوں کہ
ٹو تھاؤزنڈ الیون (2011) 1+1+0+2 =4کا سنگل ڈجٹ چار بنتا ہے یہ سال تمہاری
قوم کے لئے بہت سخت ثابت ہوگا تو ان کے چہرے اتر جاتے ہیں۔
میری اپنی قوم میں بھی وہمی لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں وہمی
لوگوں کی جتنی اوسط متوسط طبقے کے افراد میں ہے غربا میں یہ اوسط متوسط
طبقے سے دوگنی سے بھی زیادہ ہے اور غربا میں جتنے لوگ وہمی ہیں وہ تو ان
لوگوں کا عشر عشیر بھی نہیں ہیں جتنے لوگ ہمارے امر اء اور حکمران طبقات
میں پائے۔ سچ تو یہ ہے کہ ناجائز حربوں سے ترقی پانے والے اور دوسرے
انسانوں کا حق مار کر زرو دولت اکھٹی کرنے والے سبھی لوگ وہمی اور کمزور
اعصاب کے مالک ہوتے ہیں ان کو دولت مندی اور اعلیٰ رتبوں کی بلندی سے نیچے
گرنے کا وہم اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ وہ ہر سچے جھوٹے پیر فقیر کے پاس جاتے
ہیں اور ہر دربار اور آستانے پر سجدے کرتے نظر آتے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے
کہ ہر طبقے کی خواتین اپنے ہی طبقے کے مردوں کی بہ نسبت بہت ہی زیادہ وہمی
اور کمزور ایمان والی ہوتی ہیں اور ایسی کمزور ایمان والی عورتوں سے نام
نہاد جعلی اور دنیا دار پیر فقیر اور مرشد بڑا کچھ حاصل کر لیتے ہیں جس کا
ذکر کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔
کچھ نوجوان میرے سے یہ سوال بھی کیا کرتے ہیں کہ کفار کی دعائیں بھی قبول
ہو جاتی ہیں اور مشرکین کی منتیں بھی با مراد ہوتی ہیں ؟ تو میں ان کو یوں
سمجھاتا ہوتا ہوں کہ رب کو کسی بھی بشر نے نہیں دیکھا اس لئے ہر شخص کو رب
اپنے گمان جیسا ہی دکھائی دیتا ہے اور اللہ رازق کل جہاں کے رب ہیں اس لئے
وہ کو ہر شخص کو اس کے ایمان اور عقیدے کے مطابق ہی عطا فرماتے ہیں۔ خواہ و
ہ شخص ایمان لے آئے یا کفر و شرک کرے عطا کرنا رب کریم کی ربی صفت ہے اور
یہی شان ربوبیت ہے۔
ہمارے ملک میں جیسے جیسے معاشرتی اور معاشی تفاوت بڑھتی جارہی ہے ویسے ویسے
درمیانہ طبقہ معدوم ہوتا جا رہا ہے یوں لگتا ہے کہ جلد ہی ہمارے ملک سے
درمیانہ طبقہ ختم ہو جائے گا اور پھر پاکستان میں صرف اور صرف دو طبقات
یعنی کہ انتہائی غریب اور انتہائی امیر رہ جائیں گے تب ہمارے ملک میں
اخلاقیات کا کیا حشر ہوگا؟ اس کے تصور سے ڈر لگتا ہے کیونکہ کسی بھی ملک یا
معاشرے میں درمیانے طبقے کے لوگ ہی اخلاقی اور مذہبی قدروں کے پابند ہوتے
ہیں اور وہی اپنی قوم و ملت کی اخلاقی اقدار کے محافظ بھی ہوتے ہیں اگر
ہمارے ملک میں درمیانہ طبقہ ہی نہ رہا تو ان مذہبی اور اخلاقی اقدار کی
حفاظت نہ تو امرا کریں گے اور نہ ہی وہ لوگ کریں گے جن کے تن پر پورا کپڑا
نہ ہوگا اور نہ ہی پیٹ میں پوری روٹی ہوگی۔
ہمارے موجودہ حکمران اس وقت صہیونیوں کے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے درمیانے
طبقے کو نیست ونابود کرنے پر تلے ہوئے ہوئے ہیں اور ہمارے ملک میں مہنگائی
بدامنی اور لاقانونیت حکومتی کاروبار بن گئی ہے ایسے میں درمیانے طبقے کے
لوگ بھی مایوسی کا شکار ہوچکے ہیں اور امید کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھے
ہیں۔ میرا تعلق بھی درمیانے طبقے سے ہی ہے اس لئے میں اپنے طبقے کی مایوسی
رنج وغم اور صدمے کی حالت کو محسوس کر سکتا ہوں جو کہ اصلاح معاشرہ کے قائل
درمیانے طبقے کے لوگ محسوس کر رہے ہیں میں ان کو مایوسی سے نکالنے کے لئے
کہتا ہوتا ہوں کہ دیکھو ! انسانوں اور قوموں کی زندگی میں چالیس کا عدد بہت
اہم ہوتا ہے جیسے کہ ہمارے دین میں بھی ہے وہ یوں کہ ہمارے پیارے رسول صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پہلی وحی چالیس سال کی عمر میں نازل ہوئی تھی اور
جب بنی اسرائیل نے اللہ مالک کے حکم کو نہ مان کر موسیٰ علیہ السلام کی
قیادت میں جہاد کرنے سے صریحاً انکار کر دیا تھا تو اللہ قہار نے اس بھٹکی
ہوئی قوم کو مزید چالیس سال تک صحراؤں میں بھٹکائے رکھا تھا۔ میں درمیانے
طبقے کے اصلاح پسندوں کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا کرتا ہوں کہ دو ہزار گیارہ
میں سقوط ڈھاکہ کو چالیس سال مکمل ہو جائیں گے یوں ہماری جدوجہد کا چلہ
مکمل ہو جائے گا۔
(دلچسپی کی بات تو یہ ہے کہ چالیس اور دو ہزار گیارہ کا حاصل واحد عدد چار
ہی بنتا ہے جو کہ کفار کے نزدیک موت کا عدد ہی ہے۔ یہ بات میں ایمانی
کمزوری کی بنا پر نہیں بلکہ اپنے ساتھیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے کہتا ہوتا
ہوں) اگر ہم مایوسی کا شکار نہ ہوں اور امید کا دامن بھی ہاتھ سے نہ چھوڑیں
اور اپنی ذاتی اصلاح کے ساتھ ساتھ معاشرے کی فلاح کا کام بھی کرتے رہیں گے
تو ہوسکتا ہے اور یہ عین ممکن بھی ہے کہ اللہ مسبب الاسباب ہماری نیک نیتی
اور خلوص دیکھ کر ہماری مدد کو آسمان سے فرشتے نازل فرمائیں اور ہمیں مکمل
فتح عطاء فرمائیں اور مسلمین کے دشمنوں کو موت سے ہم کنار کردیں کیونکہ دو
ہزار گیارہ کمزور ایمان اور منافقین کے عقیدے کا مطابق موت کا سال ہے اور
اللہ عالم الغیب ہر شخص کو اس کے عقیدے اور ایمان کے مطابق ہی عطاء فرماتے
ہیں۔ |