قبل اسلام اور بعد اسلام - عورت کا مقام
(Peer Owaisi Tabassum, Narowal)
اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے نسل
انسانی کی بقا و فروغ کے لئے جس قدر مردوں کی ضروریات کو تسلیم کیا جاتا ہے
اسی قدر بلکہ غور کرنے پر اس سے کہیں زیادہ عورتوں کی ضرورت تسلیم کرنے سے
کوئی ذی ہوش آنکھ نہیں چراسکتا۔اسلام نے مرد اور عورت دونوں پر اپنی اپنی
حیثیت اور صلاحیت کے مطابق حقوق عائد کئے ہیں ۔اگر عورت کو اطاعت و
فرمانبرداری کا حکم دیا ہے تو مرد کو مہربانی اور عفو ودر گزر سے کام لینے
اور عورت کی ضروریات فراہم کرنے کا ذمہ دار قرار دیا ہے ۔ انسان کے باہمی
حقوق کے لحاظ سے مرد و عورت دونوں کی حیثیت یکساں ہے ۔اس حقیقت کے انکشاف
سے پہلے عورت کی حیثیت اور اسکے مقام و مرتبہ پر ایک نظر ڈالیں۔
عورت اسلام سے قبل:ـظہور اسلام سے پہلے دنیا نے عورت کو غیر مفید عنصر سمجھ
کر میدانِ عمل سے ہٹا دیا تھا اور اسے پستی کے ایک ایسے غار میں پھینک دیا
تھا کہ جس کے بعد اسکے ارتقا کی کوئی توقع نہیں تھی ۔عورت کی تاریخ مظلومی
اور محکومی کی تاریخ تھی ،اسے کم تر سمجھا جاتا تھا ،قدیم تاریخ کے مطالعہ
سے پتہ چلتا ہے کہ سارے عالم میں عورت کی کوئی مستقل حیثیت نہیں تھی خواہ
وہ یونان ہو یا روم ،عرب ہو یا عجم ،یورپ ہو یا ایشیاء ہر جگہ عورت مظلوم
ہی رہی ہے ۔
اہل یونان اپنی معقولیت پسندی کے باوجود عورت کے بارے میں ایسے ایسے تصورات
رکھتے تھے جن کو سن کر ہنسی آتی ہے لیکن ان سے اس بات کو سمجھنے میں مدد
ملتی ہے کہ ان کی نگاہ میں عورت کی کیا قدر و قیمت تھی او ر وہ اپنے درمیان
اس کو کیا حیثیت دیتے تھے ۔ان کا قول تھا ’’ آگ سے جل جانے اور سانپ کے
ڈسنے کا علاج ممکن ہے ،لیکن عورت کے شرکا مداوا محال ہے ۔‘‘ نیڈو رانامی
ایک عورت کی بابت ان کا عام اعتقاد تھا کہ وہی تمام دنیوی آفات و مصائب کی
جڑ ہے ۔
ایک یونانی ادیب کہتا ہے :’’دو مواقع پر عورت مرد کے لئے باعثِ مسرت ہوتی
ہے ایک تو شادی کے دن اور دوسرے اس کے انتقال کے دن۔‘‘
اہل روم نے عورت کا مرتبہ دراز تک نہایت پست رکھا ۔ افسر خاندان جو باپ
ہوتا یا شوہر اسے اپنے بیوی بچوں پر پورا اختیار حاصل تھا اور وہ عورت کو
جب چاہے گھر سے نکال سکتا تھا ۔جہیز یا دلہن کے والد کو نذرانہ دینے کی رسم
کچھ بھی نہ تھی اور باپ کو اس قدر اختیار حاصل تھا کہ جہاں چاہے اپنی لڑکی
کو بیاہ دے بلکہ بعض دفعہ تو وہ اس کی کرائی شادی کو بھی توڑ سکتا تھا
۔زمانہ ما بعد یعنی دور تاریخی میں یہ حق باپ کی طرف سے شوہر کی طرف منتقل
ہو گیا اور اب اسکے اختیارات یہاں تک وسیع ہو گئے کہ وہ چاہے تو بیوی کو
قتل کر سکتا ہے کئی سال تک طلاق کا کسی نے نام بھی نہ سنا ۔
یورپ اس وقت مساوات مردو زن کا سب سے بڑا دعویدار تھا لیکن اسی یورپ میں
ایک صدی سے کچھ پہلے تک عورت مرد کے ظلم و ستم کا نشانہ بنی ہوئی تھی اور
کوئی ایسا مضبوط قانون نہیں تھا جو مرد کی زیادتیوں کو روکتا ۔
انگلستان کے قانون کی رو سے یہ بات طے تھی کہ شادی کے بعد مرد کی طبیعت میں
تو کوئی تبدیلی نہیں آتی البتہ عورت کی شخصیت مرد کی شخصیت کا ایک جز و بن
جاتی ۔نان و نفقہ کا بھی کوئی مناسب قانون نہیں تھا اور نہ عورت کو مرد کے
خلاف مقدمہ دائر کرنے کا حق تھا ۔مرد چاہتا تو عورت کو حقِ وراثت سے محروم
کر سکتا تھا لیکن بیوی کی جائیداد کا وہ جائز حقدار سمجھا جاتا تھا ۔
عورت کسی بھی قسم کا معاملہ کرنے میں آزاد نہیں تھی ۔وہ اپنے اختیار سے
کوئی معاہدہ نہیں کر سکتی تھی حتیٰ کہ اسکی بھی اجازت نہیں تھی کہ خود کما
کر اپنی ذات پر خرچ کرے اور اپنی پسند سے شادی کرے۔لڑکیاں ماں باپ کی مِلک
سمجھی جاتی تھیں وہ جس سے چاہتے شادی کرتے ۔شادی ایک تجارت تھی جس کے ذریعہ
والدین اپنی لڑکیاں لڑکوں کو فروخت کرتے تھے ۔
اہل عرب عورت کے وجود کو موجب ذلت و عار سمجھتے تھے ۔ لڑکی کی پیدائش ان کے
لئے غم و مصیبت کا پیام تھی ۔وہ نرینہ اولاد پر اتراتے اور فخر کرتے لیکن
لڑکیوں کا وجو د ان کے سر عظمت کو جھکا دیتا ۔ قرآن مجیدنے ان کے ان جذبات
کی کتنی صحیح تصویر کشی کی ہے ۔ ’’جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خبر دی جاتی
ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑجاتا ہے اور وہ غم سے گھٹنے لگتا ہے ۔اس خبر کو وہ
اس حد تک برا سمجھتا ہے کہ اپنے آپ کو اپنی قوم سے چھپائے پھرتا ہے ۔(اور
سوچ میں پڑجاتا ہے )کہ آیا ذلت اور برداشت کرتے ہوئے اس کو باقی رکھے یا
زیر زمین دفن کرے۔‘‘
حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ :’’قسم بخدا ! ہم دورِ جاہلیت میں
عورتوں کو کوئی حیثیت ہی نہیں دیتے تھے یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے انکے بارے
میں اپنی ہدایات نازل کیں اور ان کے لئے جو کچھ حصہ مقرر کرنا تھا مقرر
کیا۔(صحیح مسلم ،کتاب الطلاق)
عورت سے نفرت اور بیزاری اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ ایک شخص کے گھر لڑکی پیدا
ہوئی تو اس نے اس گھر کو منحوس سمجھ کر چھوڑ دیا ۔اس سے بھی آگے کی بات یہ
کہ عورت کے لئے ان کے اندر رحم و محبت کے جذبات ناپید تھے ۔چنانچہ وہ
لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے ۔حد تو یہ کہ اس شقاوت قلب کا مظاہرہ ان
افراد کی طرف سے ہوتا تھا جن کو شفقت و محبت کا سر چشمہ خیال کیا جاتا ہے
۔اس سلسلہ میں بعض ایسے دردناک واقعات منقول ہیں کہ انہیں سن کر ہی دل کانپ
جاتا ہے ۔ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے اپنے جاہلیت کے زمانہ کا واقعہ سنایا
کہ :’’ میری ایک بچی تھی وہ مجھ سے بہت مانوس تھی جب کبھی میں اسے بلاتا تو
بڑی ہی مسرت سے میرے پاس آجاتی ،چنانچہ میں نے اسے ایک دن آواز دی تو وہ
میرے پیچھے پیچھے دوڑی چلی آئی ، میں اسے اپنے ساتھ لے گیا اور قریب کے
کنویں میں جھونک دیا اور وہ اس وقت بھی ابا جان ! ابا جان ! ہی کہتی رہی
۔واقعہ کو سن کر نبی اکرمﷺ کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں یہاں تک کہ ریش مبارک
تر ہو گئی ۔اس سے زیادہ اس کی مظلومیت اور کیا ہو سکتی ہے کہ باپ کا دست
شفقت اس کے حق میں بھیڑئیے کا پنجہ ثابت ہوا۔‘‘قیس بن عاصم نے جاہلیت میں
آٹھ دس لڑکیاں دفن کی تھیں۔(تفسیر ابن کثیر جلد 4)
اس مظلوم صنف کو وہ زندہ بھی رکھتے تو اس سے تمام حقوق زندگی سلب کر لیتے
تھے ۔شادی کی کوئی حد نہیں تھی ۔جتنی عورتوں کو چا ہتے اپنے نکاح میں رکھتے
۔اسی طرح طلاق پر بھی کوئی پابندی نہیں تھی۔مرد جب چاہتا اور جتنی مرتبہ
چاہتا طلاق دیتا اور عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کر لیتا ۔اس طرح زندگی بھر
اپنی بیوی کو دقت میں ڈال سکتا تھا ۔جب تک خاوند زندہ رہتا وہ اس کے ما تحت
رہتی ،خاوند کے انتقال کے بعد اس کے ورثاء کا اس پر مکمل حق ہوتا ،چاہتے تو
خود ہی اس سے شادی کر لیتے اور چاہتے تو کسی دوسرے سے شادی کر دیتے اور وہ
اس میں بھی آزاد تھے کہ اس کی شادی ہی نہ ہونے دیں۔(تفسیر ابن کثیر جلد 1)
نبی کریم ﷺ نے اس مظلوم صنف کی حمایت میں جو ہدایات اور تعلیمات دی ہیں ۔آج
تک کوئی بھی حقوقِ نسواں کا مدعی آپ ﷺ سے زیادہ اور صحیح اور حقیقی تعلیمات
نہیں پیش کر سکا ۔ آپﷺ نے فرمایا:’’ اﷲ تعالیٰ نے حرام کی ہے تم پر ماؤں کی
نافرمانی، ادائیگی حقوق سے ہاتھ روکنا اور ہر طرف سے مال بٹورنا اور لڑکیوں
کا زندہ دفن کرنا ۔‘‘(صحیح بخاری :کتاب الاداب)
عورت اسلام کے بعد:چھٹی صدی عیسوی میں حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کا اعلانِ رسالت
انسانی تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ تھا۔ اسکے نتیجہ میں فکر و نظر کی دنیا
بدل گئی اور سیرت و کردار میں انقلاب آگیا ۔انسان نے نئے ڈھنگ سے سوچنا
شروع کیا اور اس کی زندگی نے نیا رخ اختیار کیا ۔اسی کا پہلو یہ بھی تھا کہ
عورت کے بارے میں اس کا پورا نقطۂ نظر اور عملی رویہ بدل گیا اور عورت کے
تعلقات نئی بنیادوں پر قائم ہوئے ۔
حضور اکرم ﷺ کی تشریف آوری خواتین کے حق میں فرشتۂ رحمت ثابت ہوئی کہ آپ ﷺ
نے زندہ درگور ہونیوالیوں پر رحم و کرم فرمائے اور عورتوں کو اتنا بلند
مقام عطا کیا اور فرمایا کہ ’’ماں کے قدموں تلے جنت ہے ۔‘‘ اور عورتوں کو
میراث میں حصے دار بنایا اور آپ ﷺ خود اپنی عورتوں کی دل جوئی کیا کرتے جس
کا پتہ ہمیں اس واقعہ سے ملتا ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کیساتھ آپ کو
بے انتہا محبت تھی ۔ آپ ﷺ نے ان کی دل جوئی کی خاطر ان کی وفات تک دوسری
شادی نہیں کی حالانکہ اس وقت عرب میں کئی کئی شادیوں کا رواج تھا ۔ حضرت
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ جب کبھی حضور اکرم ﷺدروازہ
بند کئے نوافل میں مشغول ہو تے اور میں اتفاق سے دروازہ کھٹکھٹاتی تو آپ ﷺ
نیت توڑ کر دروازہ کھول دیتے اور پھر نوافل ادا کرتے ۔‘‘(صحیح بخاری کتاب
الاداب)
عورت دورِ حاضر میں:موجودہ دور میں اسلام کے بارے میں جو غلط فہمیاں پائی
جا رہی ہیں یا باقصد پیدا کی جاتی ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ اسلام نے
عورت کو مرد کے برابر حیثیت نہیں دی ہے اور اس کی تگ و دو پر اتنی پابندیاں
عائد کر دی ہیں کہ وہ زندگی کی دوڑ میں لازماً پیچھے رہ جاتی ہے اورعورت
ہمیشہ مرد کی دستِ نگر رہتی ہے حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام نے سب سے
پہلے مر د و عورت کی مساوات کا علم بلند کیا ۔اس نے کہا کہ خدا کی نظر میں
عورت اور مرد دونوں برابر ہیں اور ان کی کامیابی و ناکامی کے اصول بھی ایک
ہیں ۔ لیکن انسان اس تصورِ مساوات کو غلط سمجھتا ہے اور اس کا تصور یہ ہے
کہ دونوں کو ایک میدان میں کام کا اِذن ہونا چاہیے ،اسکے بغیر انکے درمیان
مساوات باقی نہیں ،لیکن اسلام نے اپنے ماننے والوں میں سے خواتین کو گھر کی
اور مرد کو باہر کی ذمہ داری سونپی ہے ۔اسلئے کہ دونوں کے دائرہ کا رفطری
طور پر الگ ہیں ،عورت پر گھر کی ذمہ داری ڈالنے سے اسکی معاشی جدو جہد بلکہ
سماجی و معاشرتی لحاظ سے بھی بہت ہی اونچا مقام عطا کیا ،پھر یہ کہ عورت پر
گھر کی ذمہ داری ڈالنے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ امورِ خانہ داری کے سوا
دنیا کے سارے کام اس کے لئے ممنوع ہیں ۔ اسلام کا مقصد صرف یہ ہے کہ عورت
اصلاً گھر کی ملکہ و منتظمہ ہے۔ اسے باہر کی دنیا کو آباد کرنے کی فکر میں
گھر کو اُجاڑ نہیں دینا چاہیے۔ خانگی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بعد وہ
اپنے حالات ذوق اور رجحان کے لحاظ سے زندگی کے کسی بھی میدان میں دلچسپی لے
سکتی ہے ۔
تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمان خواتین نے اپنے فطری دائرہ میں کام کرتے ہوئے بہت
سے شعبوں میں فی الواقع دلچسپی لی اور حیرت انگیز کارنامے انجام دئیے ۔یہ
بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ دین اسلام کی اشاعت و فروغ کے لئے خواتین
کا ہر موڑ پر نمایاں حصہ رہا ہے ۔اسلامی تاریخ کا وہ باب بھی کچھ کم تابناک
نہیں ہے جو عورت کی خدمت اور جدو جہد پر مبنی ہے خواہ اﷲ اور اس کے رسول ﷺ
کی اطاعت میں ہو یا مجاہدین کی صفوف میں ہو یا تعلیمی میدانوں میں ۔اس لئے
خواتین میں تعلیمی شعور حد درجہ نظر آتا ہے ۔ کیونکہ دنیا میں کوئی قوم
ایسی نہیں جس نے بغیر تعلیم کے ترقی حاصل کی ہو ۔مگر اسلام سے قبل دنیا میں
عورتوں کی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں تھا ۔
اﷲ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے ؒ’’علم کا سیکھنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے
۔‘‘
اس حدیث پاک میں حصولِ علم کے لئے مرد و عورت میں کوئی تخصیص نہیں ملتی
۔بلکہ اسلامی تعلیمات کے گہرے مطالعہ سے محسوس ہوتا ہے کہ شریعت عورت کو
علم کے استفادہ و افادہ میں تمام معاشرتی سہولتیں باہم پہنچانا چاہتی ہے
تاکہ اس کے فکری ارتقا میں ماحول میں کوئی رکاوٹ نہ بنے۔ تعلیم کی اہمیت کو
بتاتے ہوئے اﷲ تعالیٰ کے رسول ﷺ نے فرمایا:’’تین قسم کے آدمی ہیں جن کو
دوگنا اجر ملے گا ،ان میں ایک وہ شخص بھی ہے جس کے پاس کوئی باندی ہو اور
وہ اس کو ادب سکھائے اور اچھا ادب سکھائے ،تعلیم دے اور بہتر تعلیم دے ،پھر
اس کو آزاد کر کے اس سے شادی کر لے ۔‘‘(سنن بن ماجہ)
اس حدیث کی روسے ایک ثواب کا مستحق وہ شخص بھی رہے گا جو آزاد بیوی کی
تعلیم و تربیت میں کوشاں ہے کیونکہ وہ حدیث کے ایک پہلو کی تکمیل کر رہا ہے
یہی وہ تعلیم رسول اﷲ ﷺ ہے جس کی تکمیل کے لئے اوائل اسلام کی خواتین مرد
کے دوش بدوش اُمت کی ہدایت کا فریضہ انجام دیتی رہیں۔
جن حضرات نے اﷲ کے رسول ﷺ کے فتاویٰ کو اکٹھا کیا ، ان میں حضرت عمر ،حضرت
علی اور حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہم جیسی ہستیوں کیساتھ حضرت عائشہ
صدیقہ رضی اﷲ عنہا بھی شامل ہیں۔مفتیانِ صحابہ کی دوسری صف میں حضرت ابو
بکر اور حضرت عثمان وغیرہم کیساتھ حضرت اُمِّ سلمہ بھی موجود ہیں ۔ صحابہ
میں جو بڑے بڑے حفاظِ حدیث تھے ان میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بھی
ہیں ۔آپ سے روایات کی تعداد دو ہزار دو سو دس ہے ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ
عنہ ،حضرت عبد اﷲ بن عمر اور حضرت انس رضی اﷲ عنہم کے علاوہ کسی اور صحابی
کی روایات اتنی نہیں ہیں۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری جیسے فقیہ و عالم صحابی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا
سے علم و واقفیت کے متعلق اپنا اور اپنے جیسے دوسرے ساتھیوں کا تجربہ بیان
کرتے ہیں ۔ہم اصحاب رسول ﷺ کو جب کبھی کسی حدیث کے معاملہ میں کوئی مشکل
پیش آتی اور ہم نے اس سلسلہ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے دریافت
کیا کہ ان کو اس کے متعلق علم ضرور ہے ۔
ربیع بنت مُعَوَّذ سے مسائل دریافت کرنے کے لئے کبھی حضرت عبد اﷲ بن عباس
حاضر ہوتے ہیں اور کبھی عبد اﷲ بن عمر ۔ان سے احادیث روایات کرنیوالوں میں
مدینہ کے مشہور فقیہ سلمان بن یسار بھی ہیں اور عمار بن یاسر کے پوتے ابو
عبیدہ ،عبادہ بن ولید اور ابن عمر کے غلام نافع جیسے اربابِ علم و فضل بھی
۔ فاطمہ بنت قیس سے قاسم بن محمد ،سعید بن مسیب ،عروہ ، ابو سلمہ بن عبد
الرحمن اور شعبی جیسے فضلائے وقت نے حدیث میں اخذ و استفادہ کیا ہے ۔
ان چند اشارات کے ذریعہ دورِ اول کی خواتین کی علمی خدمات کا ایک مجمل سا
نقشہ سامنے آجاتا ہے ۔ اسلام نے عورت کی جدو جہد کو صرف علم و فکر کے میدان
تک محدود نہیں رکھا ہے بلکہ وہ جس طرح علم و ادب کی راہ میں پیش قدمی کر
سکتی ہیں اسی طرح زراعت اور تجارت میں بھی ترقی کرنے کا حق رکھتی ہے ۔اس کو
مختلف پیشوں اور صنعتوں کے اپنا نے اور بہت سی ملی و اجتماعی خدمات کے
انجام دینے کی بھی اجازت ہے ۔اسلامی معاشرے میں جہاں تک عورت کے ذاتی مسائل
کا تعلق ہے جیسے نکاح خلع و غیرہ تو ان کے متعلق شریعت نے صاف اور واضح
الفاظ میں بتادیا ہے کہ کوئی بھی شخص اس پر اپنا فیصلہ لاد نہیں سکتا ،جو
بھی اقدام کیا جائے گا عورت کی رضا اور خوشی کے بعد کیا جائے گا۔ایک صاحب
نے اپنی لڑکی کا نکاح ایک مالدار شخص سے کرا دیا ۔لیکن لڑکی اس کو پسند
نہیں کرتی تھی ،اس نے حضور ﷺ سے عرض کیا ! میرے والد نے میری شادی اپنے ایک
دولت مند بھتیجے سے کر دی تاکہ مجھ کو پھنسا کر اپنی تنگ دستی کا سامان
مہیا کریں ۔ آپﷺ نے فرمایا!اگر تجھ کو عقد پسند نہیں ہے تو تو آزاد ہے ۔اس
نے کہا ! میرے والد نے جو اقدام کیا ہے اس کو بحال کرتی ہوں لیکن میں چاہتی
ہوں کہ عورتوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ ان کی مرضی کے خلاف باپوں کو ان کے
نکاح کا حق نہیں ہے ۔(سنن ابن ماجہ کتاب النکاح)
یہ گویا ایک عورت کا اپنے باپ کی زیادتی کے خلاف کامیاب احتجاج تھا ۔بریدہ
ایک لونڈی تھیں جن کا نکاح مغیث نامی ایک غلام سے ہوا تھا ۔ایک عرصہ بعد
بریدہ آزاد ہو گئیں تو انہوں نے مغیث کے نکاح میں رہنے سے انکار کر دیا
کیونکہ اصولِ شریعت کے تحت آزاد عورت کا غلام کے عقد میں رہنا ضروری نہیں
ہے لیکن مغیث بریدہ سے بے پناہ محبت کرتے تھے انکی محبت کا یہ عالم تھا کہ
بریدہ کے اس فیصلہ کے بعد زارو قطار روتے ہوئے ان کے پیچھے پیچھے دوڑ تے
پھرتے تھے ۔رحمتِ عالم ﷺ نے یہ منظر دیکھ کر بریدہ سے فرمایا:’’ بریدہ! خدا
سے ڈر!اور اس کی محبت و بے قراری کا خیال کر) وہ کل تک تیرا شوہر رہا ہے
اور اس سے اولاد بھی ہو چکی ہے ۔
بریدہ نے دریافت کیا ! کیا آپ مجھے اس کی بیوی بنے رہنے کا حکم دے رہے ہیں؟
آپ نے فرمایا نہیں!میں اس کا حکم کیسے دے سکتا ہوں میں تو تم سے ترغیب کر
رہا ہوں ۔اس نے کہا ! تو مجھے اس کی مغیث کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘(سنن ابن
ماجہ)
شریعت اسلامی نے عورت کو جو حقوق و مراعات عطا کئے ہیں ،عورت نے اس سے بھر
پور فائدہ اُٹھایا اور اس نے اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے پوری بصیرت کیساتھ
جدو جہد بھی کی ہے ۔ اسلام کی خواتین نے اسلام کی سر بلندی کے لئے صرف اپنی
کوششوں کو اپنے گھر کی چاردیواری تک محدود نہیں رکھا ،بلکہ خدا کے دین کی
سر بلندی دیکھنے کی تمنا ان کو دشمن کے خلاف محاذِ جنگ پر لے آئی اور مردوں
کیساتھ انہوں نے بھی کفر کا علم سر نگوں کرنے میں حصہ لیا۔
ایک انصاری صحابیہ اُمِّ عمارہ نے جنگ اُحد میں مردوں کی سی ثابت قدمی اور
بے باکی کا مظاہرہ کیا ۔سعد بن ربیع کی صاحبزادی اُمِّ سعد نے ان سے اسکے
کارناموں کے متعلق دریافت کیا تو تفصیلاً بتایا کہ میں صبح سویرے ہی
مجاہدین کی خدمت کے لئے میدانِ کار زار میں پہنچ گئی تھی ۔ابتدا میں
مسلمانوں کا پلہ بھاری رہا لیکن بعد میں جب فتح و نصرت نے انکا ساتھ چھوڑ
دیا تو ان میں افرا تفری اور انتشار پھیل گیا ۔اس وقت حضور اکرم ﷺ کے قریب
پہنچ کر آپ کی مدافعت میں تیر اور تلوار چلانے لگی ،یہاں تک کہ دشمن کی ضرب
مجھ پر آن پڑی، اُمِّ سعد کہتی ہیں کہ میں نے انکے کندھے پر بہت ہی گہرے
زخم کا نشان دیکھا اور پوچھا ! کس نے آپ پر اتنا سخت حملہ کیا تھا؟ انہوں
نے جواب دیا ،ابن قمہ نے خدا اسے غارت کرے جب مسلمان شکست کھا کر حضور ﷺ کے
پاس سے بھاگ کھڑے ہوئے تو یہ چلاّتا ہوا آیا ، بتاؤ ! محمد ﷺ کہاں ہیں؟ اگر
وہ اس جنگ میں بچ گئے تو میری نجات نہیں ،یہ میری ہلاکت اور موت ہے ۔یہ سن
کر میں اور مصعب بن عمیر اور چند دوسرے اصحاب نے جو آپ کیساتھ جمے ہوئے تھے
اس کا سامنا کیا ۔اس مقابلہ میں اس نے مجھ پر وار کیا ،جس کا نشان تم دیکھ
رہی ہو، میں نے بھی تلوار سے کئی ایک حملے اس پر کئے لیکن دشمنِ خدا دو دو
زِر ہیں پہنے ہوئے تھے ۔
اور مزید یہ بھی بتایا کہ ایک شہسوار آگے بڑھتے ہوئے آیا اور مجھ پر وار
کیا ،میں نے ڈھال پر اس کو روک کرنا کام بنا دیا ۔جب وہ پیٹھ پھیر کر جانے
لگا تو میں نے اس کے گھوڑے پر حملہ کر کے اس کے پیر کاٹ دئیے اور وہ پشت کے
بل گر پڑا ۔حضور اکرم ﷺ اس کو ملاحظہ فرما رہے تھے آپ نے میرے لڑکے کو آواز
دی ،اُمِّ عمارہ کے بیٹے !جاؤ اپنی ماں کی مدد کرو ۔چنانچہ وہ دوڑا ہوا
آیااور اس کی مدد سے میں نے اس کو موت کے گھاٹ اُتار دیا ۔اس واقعہ سے ہمیں
یہ سبق ملتا ہے کہ عورت صرف امورِ خانہ داری تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اگر
ایسا ہوتا تو آپ اُمِّ عمارہ کی ثابت قدمی کو ملاحظہ فرما کر خاموشی اختیار
نہ کرتے اور آپ کی مدد کے لئے آپ کے بیٹے کو اجازت نہ دیتے۔اﷲ تعالیٰ کا یہ
بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے عورت کے مرتبہ کو مرد کے برابر کر دیا اور مرد
کو یہ ہدایت دی کہ وہ عورت کے معاملہ میں توازن سے کام لیں اور اﷲ تعالیٰ
سے ڈرتے رہیں ۔یہ ایک عام حکم تھا ۔اسکے بعد اﷲ تعالیٰ نے دوسرا احسان یہ
کیا کہ خواتین کو مسلمان گھرانے میں پیدا فرمایا اور کفر و شرک کی گندگی سے
بچایا ،اس لئے اب عورت کا فرض بنتا ہے کہ اسلام کی سربلندی کے لئے کام کریں
اور اپنی بہنوں تک دین کا پیغام پہنچائیں۔
نیز انہیں ان احسانات سے آگاہ کریں جو طبقہ نسواں پر حضور اکرم ﷺ نے کئے
ہیں اور وہ حقوق بتائیں جو اسلام کی بدولت خواتین کو ملے ہیں جن سے دیگر
مذاہب کی عورتیں آج بھی محروم ہیں۔مگر شمع محفل بن کر اسمبلیوں اور کلبوں
میں بیٹھ کر اسلام کا منہ نہ چڑائیں۔ ایک بہترین عورت معاشرے کو کامیاب
اولاد، قابلِ فخر خاوند اور بھائی فراہم کر سکتی ہے ۔اﷲ تعالیٰ عورت کو
دینِ اسلام کی تعلیمات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین |
|