اس طرف بھی توجہ دیں
(Haq Nawaz Jilani, Islamabad)
جاوید مسیح کا تعلق راولپنڈی سے
ہے ۔جاوید کے تین بہنیں اور ایک چھوٹا بھائی ہے جو گاڑیوں کے ورکشاپ میں
کام کرتا ہے ۔جاوید میسح کاوالد بھی ہفتے میں دو دن ایک فیکٹری میں کام کر
تا ہے جبکہ پانچ دن بے روزگار رہتا ہے۔ جاوید خود ایک ٹیکسی چلاتا ہے جس
میں پانچ سو روپے ہر روز اپنے گاڑی کے مالک کو دیتا ہے ۔ جا وید مسیح کہتا
ہے کہ میں پچھلے 8سال سے ٹیکسی چلاتا ہوں لیکن مالی حالات اتنے خراب نہیں
ہوئے جتنے آج خراب ہے‘ایک طرف دن بدن مہنگائی بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف
روزگار بھی کم ہو تا جا رہا ہے ۔ پٹرول اور سی این جی گیس تو مہنگی ہو ہی
گئے ہیں لیکن اب پنڈی/ اسلام آباد میں تقر یباًدو سال سے سی این جی کا
مسئلہ انتہائی گھمبیر ہو گیا ہے۔‘پرو یز مشرف کے دور میں سی این جی ہر روز
ملتی تھی جبکہ آصف علی زرداری دور میں سی این جی کا مسئلہ سر دیوں میں شروع
ہوا تو ہفتے میں دو با ر سی این جی بند ہو نا شروع ہو ئی جو کہ زرداری
حکومت کہ آ خری سال میں تین اور چار روز تک پہنچ گئی جس پر سی این جی
مالکان نے احتجاج شروع کیا کہ ہمارا کاروبار تباہ ہورہا ہے لیکن احتجاج کا
فائد ہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوا ۔ایک طرف سی این جی مالکان کو نقصان ہو رہا
ہے تودوسری ہم جیسے بھاڑے پر ٹیکسی چلانے والوں کو بھی جو اپنی دیہاڑی بھی
پوری نہیں کر پاتے۔جاوید مسیح کا کہنا ہے کہ ہماری امید یہ تھی کہ زرداری
حکومت کہ بعد نئی آنے والی حکومت اس جانب توجہ دے گی اور سی این جی کی بندش
کامسئلہ حل کر دی گی لیکن نئی حکومت کے آنے سے ہمارے تمام توقعات پر پانی
پھیرکیا ‘اب نواز شریف حکومت میں پوری سال سی این جی بندش کا سلسلہ جاری ہے
اور ہفتے میں پا نچ دن سی این جی بند ہوتی ہے جبکہ دو دن جب کھلتی ہے تو وہ
بھی صرف دن کے وقت سی این جی ملتی ہے اور پر یشر بھی بہت کم ہو تا ہے ۔
راولپنڈی اسلام آباد سمیت سی این جی کا مسئلہ پورے پوٹھوہار ریجن میں ہے ۔یہ
حقیقت ہے کہ پہلے سی این جی اسٹیشنوں کو گیس کی سپلائی سردیوں میں صرف تین
دن ہوتی تھی لیکن اب نہ صرف پانچ دن سی این جی اسٹیشن بند ہو تی ہے بلکہ اب
پورے سال میں سی این جی اسٹیشن ہفتے میں دو دن یعنی پیر اور جمعرات کے دن
وہ بھی صرف 12گھنٹے کے لیے کھلی جاتی ہے ۔ پنڈی/ اسلام کے رہنے والے لوگ جس
میں ٹیکسی ڈرائیو اور عام لوگ بھی شامل ہے جنہوں نے گاڑی مجبوری کے تحت
رکھی ہے ۔گاڑی میں سی این جی ڈالنے کے لیے تین سے چار گھنٹے کا انتظار کر
نا پڑ تا ہے وہ بھی قسمت کی بات ہے بعض اوقات جب لائن میں نمبرآجاتا ہے تو
بجلی چلی جاتی ہے گھنٹہ اس کے لیے انتظار کر نا پڑتا ہے جبکہ راولپنڈی میں
گیس پر یشرکم ہو نے کی وجہ سے مز ید ایک گھنٹہ انتظار کر نا پڑتا ہے تاکہ
کمپریسر پر یشر بنا دیں لیکن مایوسی اس وقت ہو جاتی ہے کہ جب آپ یہ سارا
یکسر سائز کر لیتے ہیں اور گاڑی میں سی این جی ڈالنا شروع کر دیتے ہیں تو
اس وقت سو روپے کی سی این جی ڈالنے کے بعد روک جاتی ہے کہ گاڑی سلنڈر میں
مز ید سی این جی نہیں بھری جاسکتی ‘وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ آپ کے گاڑی میں
پہلے سے پچاس بار یعنی دو سو روپے کی سی این جی مو جود تھی اس لیے اب مز ید
اس میں نہیں ڈالی جاسکتی۔ جو لوگ پنڈی/اسلام آباد میں نئے آجا تے ہیں اور
ان کی گاڑی میں گیس کم ہو تی ہے اور لائن میں کھڑے ہو جا تے ہے لیکن نمبر
آنے پر ان کو مایوسی ہو جاتی ہے کہ آپ کے پاس اتنا پر یشر ہے جتنا ہمارے
پاس مو جود ہے ۔جاوید مسیح کا کہنا تھا کہ جب ہم تین چار گھنٹے لائن میں
کھڑے ہو تے ہیں اور گیس پر یشر بھی فل نہیں ہو تا تو پھر ہم مز دوری کیسے
کر یں گے اور اپنے مالک کو کیا دینگے ‘ مجبوراًہمیں ز یادہ تر پٹرول
استعمال کر نا پڑ تا ہے جس کی وجہ سے ٹیکسی کرایہ بھی بڑ ھانا پڑتا ہے تو
پھر لوگ ٹیکس کی بجائے ویگن اور بس میں سواری کو تر جیح دیتے ہیں ۔ جاوید
مسیح کہتا ہے کہ موجودہ حکومت دوسری منصوبوں کی بجائے گیس اور بجلی پیداوار
پر فو کس رکھیں ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پورے ملک میں سی این جی گاڑی میں گیس
کا استعمال صرف 7فی صد ہے جس سے لاکھوں لوگوں کو فائد پہنچتا ہے لیکن گیس
سی این جی اسٹیشنوں کی بجائے کارخانوں ، فیکٹر یو ں اور ملز کو دی جاتی ہے
جو پہلے بجلی پر چلتی تھی لیکن سر مایہ داروں نے اب پورے کارخانے اور ملز
گیس پر کر دی ہے ۔حکومت کوان کاکوٹہ کم کر کے سی این جی اسٹیشن کو بھی دینی
چاہیے کیو نکہ یہاں پر بھی بہت سے لو گوں کا روز گار وابستہ ہے ۔ جس طرح
ملک کے باقی حصوں میں سی این جی بند ش اور ریٹ کا شیڈول ہے اسی طرح پو
ٹھوہار ریجن میں بھی شیڈول جاری کر یں اور ریٹ بھی کم کر یں جو اس ریجن اور
خیبر پختونخوا میں پانچ روپے زیادہ ہے ۔ |
|