فاروقی عدل ومساوات کے چند درخشاں پہلو

مذہب اسلام نے عدل وانصاف، اخوت ومساوات اوریک جہتی کادرس دیاہے۔چنانچہ فرمان الٰہی ہے:’’بے شک اﷲ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ ہر معاملہ میں انصاف کرو اور ہر ایک کے ساتھ بھلائی کرو اور اچھا سلوک کرو رشتہ داروں کے ساتھ۔ (النحل:۹۰)خطبۂ حجۃ الوداع میں آقا علیہ السلام نے فرمایاکہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ایک اور مقام پر مصطفی کریمﷺنے فرمایاکہ تم سب آدم کی اولادہے اور آدم مٹی سے پیداکئے گئے ہیں یعنی تمھیں ایک دوسرے پر حکومت کرنے کا کوئی ادھیکار نہیں،تم سب برابرہو،تم میـں کوئی اعلیٰ نہیں،کوئی ادنیٰ نہیں،کسی کوکسی پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کی بناء پر۔ان تعلیمات پرآقا علیہ السلام نے خود عمل فرماکرکارخانۂ قدرت میں بسنے والوں کوعمل کاپیغام عظیم دیاہے اورمشکوٰۃِ نبوت سے براہِ راست فیوض وبرکات حاصل کرنے والے صحابۂ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین نے بھی عملی نمونہ پیش کرکے رہتی دنیاتک عدل ومساوات کی انوکھی مثالیں قائم کیں ہیں۔امیر المومنین سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کی تاریخ شہادت کے موقع پر ذیل میں فاروقی عدل ومساوات کی چند مثالیں پیش ہیں۔

(۱)غسان کا آخری بادشاہ’’ جبلہ بن ایہم‘‘ اسلام قبول کرتا ہے اور فریضۂ حج ادا کرنے کے لئے مکہ مکرمہ آتا ہے، وہ بیت اﷲ کا طواف کر رہا ہے، اس کی قیمتی چادر پر ایک بدو(دیہاتی) اپنا پاؤں رکھ دیتا ہے، جبلہ مڑ کر دیکھتا ہے، غصہ سے بے قابو ہوکر اس بدو کو زور دار طمانچہ رسید کرتا ہے جس سے اس کی ناک زخمی ہو تی ہے اور اس کے اگلے دو دانت ٹوٹ جاتے ہیں، وہ بدو امیر المومنین سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کے پاس حاضر ہوکر فریاد کرتاہے، آپ جبلہ کو بلاتے ہیں اور اسے کہتے ہیں کہ یا تو تم اس بدو سے معافی مانگ لو اور اسے راضی کر لو ورنہ قصاص کے لئے تیار ہو جاؤ۔جبلہ یہ بات سن کر حیران ہوجاتا ہے اور فرطِ حیرت سے پوچھتا ہے کہ کیا اس معمولی بدو کے لئے مجھ بادشاہ سے قصاص لیا جائے گا؟ آپ نے فرمایا: اسلام قبول کرلینے کے بعد اب تم دونوں یکساں ہو گئے ہو، اب برتری کا معیار صرف تقویٰ ہے۔سیدنا فاروق اعظم نے ثابت کردیاکہ اسلام میں شاہ وگدامیں کوئی فرق نہیں،خدائی قانون سب کے لیے یکساں ہے،اس قانون کی خلاف ورزی جوبھی کرے گااسلامی حکم اس پر ضرور نافذہو گا،نہ امیر وغریب ہونادیکھاجائے گا،نہ قریبی ودوری اور نہ ہی رشتے داری کی بنیادپراسلامی حکم میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی واقع ہوگی،ایک عورت نے چوری کی بارگاہ رسالت سے ہاتھ کاٹنے کاحکم صادر کیاگیا،اس عورت کے قبیلے والوں نے سزامیں تخفیف کی گزارش کی،حضورﷺنے فرمایا:اگرفاطمہ بنت محمد بھی چوری کرے تواسے بھی یہی سزادی جائے گی ۔

(۲)حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما نے کچھ اونٹ خریدے اور سرکاری چراگاہ میں چرنے کے لئے بھیج دئے،فربہ ہو گئے تو فروخت کرنے کے لئے بازار لے گئے۔ سیدنافاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے بازار میں دیکھا تو دریافت کیا یہ فربہ اونٹ کس کے ہیں؟ بتایا گیا عبداﷲ بن عمر کے ہیں۔ امیر المومنین نے انہیں طلب کیا اور کیفیت معلوم کی، انہوں نے عرض کیا میں نے انہیں خریدا اور چراگاہ میں بھیج دیا، اس سے جس طرح دیگر مسلمانوں کو فائدہ اٹھانے کا حق ہے میں نے بھی وہی فائدہ اٹھانا چاہا۔ فرمایا: امیر المومنین کا بیٹا ہونے کی وجہ سے سرکاری ملازموں میں تمہارے اونٹوں کی نگہداشت کی خود تم نے اس پر ملازم نہ رکھا اس لئے انصاف یہ ہے کہ اونٹ بیچ کر اپنا راس المال لے لو اور باقی رقم سرکاری خزانہ میں داخل کرو۔ قانون داں وقانون سازقوانین وضوابط بناتے بھی ہیں اور نافذبھی کرتے ہیں مگرجب گھرکی بات آتی ہے توان کی زبانِ انصاف بھی خاموش ہوجاتی ہے مگرعدلِ فاروقی کاکیسا نرالااندازہے کہ خودکابیٹاہے تب بھی عدل ومساوات کا وہی حقیقی رنگ نظرآتاہے۔

(۳)حضرت عمر ایک مرتبہ اپنی رعیت کے حالات کا مشاہدہ فرمانے کے لئے گشت لگا رہے تھے کہ ایک بڑھیا عورت کو اپنے خیمہ میں بیٹھے دیکھا آپ اس کے پاس پہنچے اور اس سے پوچھا اے ضعیفہ! عمر کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟ وہ بولی خدا عمر کا بھلا نہ کرے۔حضرت عمر بولے یہ تم نے بددعا کیوں کی؟عمر سے کیا قصور سرزد ہوا ہے؟ وہ بولی، عمر نے آج تک مجھ غریب بڑھیا کی خبر نہیں لی اور مجھے کچھ نہیں دیا۔ حضرت عمر بولے مگر عمر کو کیا خبر کہ اس خیمہ میں امداد کی مستحق ایک ضعیفہ رہتی ہے وہ بولی سبحان اﷲ، ایک شخص لوگوں پر امیر مقرر ہو اور پھر وہ اپنی مملکت کے مشرق و مغرب سے ناواقف ہو؟ تعجب کی بات ہے۔ یہ بات سن کر حضرت عمر رو پڑے اور اپنے کو مخاطب فرما کر بولے، اے عمر! تجھ سے تو یہ بڑھیا ہی دانا نکلی۔ پھر آپ نے اس بڑھیا سے فرمایا اے اﷲ کی بندی! یہ تکلیف جو تمہیں عمر سے پہنچی ہے تم میرے ہاتھوں کتنے داموں میں بیچوگی، میں چاہتا ہوں کہ عمر کی یہ لغزش تم سے قیمتاً خرید لوں اور عمر کو بچالوں ۔بڑھیا بولی بھئی مجھ سے مذاق کیوں کرتے ہو فرمایا، نہیں میں مذاق ہر گز نہیں کرتا ہوں سچ کہہ رہاہوں کہ تم یہ عمر سے پہنچی ہوئی اپنی تکلیف بیچ دو میں تم جو مانگوگی اس کی قیمت دے دوں گا۔بڑھیا بولی تو پچیس دینار دے دو، یہ باتیں ہورہی تھیں کہ اتنے میں حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابن مسعود رضی اﷲ عنہ تشریف لے آئے اور آکر کہا، السلام علیک یا امیر المومنین! بڑھیا نے جب امیر المومنین کا لفظ سنا تو بڑی پریشان ہوئی اور اپنا ہاتھ پیشانی پر رکھ کر بولی ، غضب ہوگیا یہ تو خود ہی امیر المومنین عمر ہے اور میں نے انہیں منہ پر ہی کیا کچھ کہہ دیا، حضرت عمر نے بڑھیا کی یہ پریشانی دیکھی تو فرمایا ضعیفہ گھبراؤ مت، خدا تم پر رحم فرمائے تم بالکل سچی ہو، پھر آپ نے ایک تحریر لکھی جس کی عبارت بسم اﷲ کے بعد یہ تھی کہ ’’یہ تحریر اس امر کے متعلق ہے کہ عمربن خطاب نے اس ضعیفہ سے اپنی لغزش اور اس ضعیفہ کی پریشانی جو عمر کے عہد خلافت سے لے کر آج تک واقع ہوئی ہے پچیس دینار پر خرید لی، اب یہ بڑھیا قیامت کے دن اﷲ کے سامنے عمر کی کوئی شکایت نہ کرے گی اب عمر اس لغزش سے بری ہے اس بیع پر علی ابن ابی طالب اور ابن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہما گواہ ہیں۔‘‘یہ تحریر لکھ کر بڑھیا کو پچیس دینار دے دئیے اور اس قطعۂ تحریر کو حضرت عمر نے اپنے صاحبزادے کو دے دیا اور فرمایا جب میں مروں تو میرے کفن میں اس تحریر کو رکھ دینا۔‘‘ (سچی حکایات ص۱۴۱۔۱۴۲)اﷲ پاک ہرمسلمان کواسلامی قوانین وضوابط پرعمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 731695 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More