جانورکی قربانی دراصل مال کی قربانی ہے
(Sadiq Raza Misbahi, India)
قربانی ایک عظیم ترین عبادت ہے
یہ بظاہرتوجانورکی قربانی ہے مگردرحقیقت یہ انسان کے نفس اور اس کے مال کی
قربانی بھی ہے۔یہ قربانی صرف اورصرف اﷲ کے لیے ہوتی ہے- سوال یہ پیداہوتاہے
کہ جب قربانی صرف اﷲ کے لیے ہوتی ہے تو کیاجانورکاگوشت ،ا س کی کھال ،ا س
کے بال اوراس کاخون خداکے یہاں پہنچتا ہے؟ جیساکہ مشرکین مکہ کاعقیدہ تھا
اورا س کے لیے وہ جانورکے خون کوخانۂ کعبہ کی دیواروں پررگڑتے تھے اوریہ
عقیدہ رکھتے تھے کہ یہ خون خداکے یہاں پہنچے گا ۔ اس بارے میں شریعت
اسلامیہ کااصول یہ ہے کہ اﷲ کے یہاں اسباب کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ اس کے
یہاں نیت میں خلوص دیکھاجاتاہے اسی طرح قربانی کے سلسلے میں بھی خداکے یہا
ں نیت اورپرہیزگاری پہنچتی ہے یہ ساری چیزیں نہیں۔سورۂ کوثرمیں ہے کہ خالص
اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور خالص اپنے رب کے لیے قربانی کرو۔فرمایاگیافصل
لربک وانحریہاں لربک میں حرف ک پرغورکیاجائے تواندازہ ہوتاہے کہ قربانی
اورنماز صرف اورصرف اﷲ تعالیٰ کے لیے ہے جس طرح نماز اگرکسی اورکے لیے پڑھی
جائے تونمازنہیں ہوگی اسی طرح قربانی اگرکسی دوسرے کے لیے کی جائے توقربانی
نہیں ہوگی۔مزیدغوروفکرسے کام لیاجائے تواس آیت مبارکہ میں خداکی طرف سے
بندوں کے لیے بڑی اپنائیت ہے۔ اس آیت کامخاطب ہر وہ مسلمان ہے جوقرآن
مجیدکی تلاوت کرتاہے۔ آپ تصورکریں کہ جب آپ قرآن مجیدکھول کربیٹھیں گے
اوریہ آیت پڑھیں گے فصل لربک وانحر عربی میں حرف ک مخاطب کے لیے بولاجاتاہے
توا س کامطلب یہ ہواکہ اپنے اس رب کے لیے قربانی کروجوصرف اورصرف تمہاراہے
۔یہ آیت کریمہ بندوں کے لیے خداکے قرب کی نویدبھی ہے اگربندہ خلوص دل سے
قرآن مجیدپڑھے گاتواس طرح کی آیات سے اسے بڑالطف ملے گااوراگراحساس بیدارہے
توضرورروحانی مسرت وسکون محسوس کرے گا۔اس سے ایک بات صاف طورسے سمجھ میں
آرہی ہے کہ قربانی میں ریااورنمائش کی قطعاًکوئی گنجائش نہیں اگرنمائش کی
جائے گی توقبول بارگاہ نہ ہوسکے گی۔یہی وجہ ہے کہ اگرنیت صاف ہو توقربانی
کے جانورکاخون زمین پر گرنے سے پہلے پہلے اﷲ تعالیٰ اسے قبول کرلیتاہے۔
ہمارے ذہنوں میں ایک سوال یہ بھی پیداہوتاہے کہ جب قربانی صرف اورصرف خداکے
لیے ہے اورخداکے یہاں نیت دیکھی جاتی ہے توایسی صورت میں اگرقربانی کرنے کے
بجائے اس کے پیسوں سے کسی ضرورت منداورمجبورکی مددکردی جائے تاکہ ان کاکچھ
بھلاہوجائے اورقربانی دیگرایام میں کی جائے ۔اس کے جواب میں کہاجائے گاکہ
قربانی واجب ہے اورضرورت مندوں کی مددکرناصدقہ جاریہ لہٰذا واجب پرصدقے
کوترجیح نہیں دی جائے گی۔دوسری بات یہ ہے کہ صدقۂ نافلہ قربانی کے علاوہ
دیگردنوں میں بھی ہوسکتاہے مگرقربانی صرف قربانی کے ایام میں ہی ہوگی جس
طرح سے خانۂ کعبہ کاطواف صرف حج کے ایام میں کیاجاسکتاہے دوسرے دنوں میں
نہیں۔تیسری بات یہ ہے کہ قربانی کے یہ ایام اﷲ کی طرف سے بندوں کے لیے
مہمان نوازی کے طورپرہیں ۔اس دن روئے زمین کے سارے مسلمان اﷲ کے مہمان ہوتے
ہیں اوراﷲ ان کامیزبان۔اﷲ تعالیٰ کے بندے ان تین ایام میں خوب خوب شکم
سیرہوکرنعمت خداوندی (گوشت)سے لطف اندوز ہو تے ہیں۔شایدہی روئے زمین
پرایساکوئی مسلمان ہوجوان ایام میں بھوکاسوتاہواورکیوں نہ ہوکیوں کہ ان
ایام میں خاص طورپرہماراپالنہارہماری میزبانی کرتاہے توہم میں سے کوئی بھی
بھوکاکیوں کرسوسکتاہے۔ اسی وجہ سے اﷲ تعالیٰ نے ان تینوں ایام میں روزہ
رکھنا حرا م قراردیاہے۔ا س پس منظرمیں اگرکوئی قربانی کے بجائے غریبوں اور
ضرورت مندوں کی مددکرنے کانظریہ رکھتاہے تویہ خداکی مشیت کے خلاف ہے ۔اسے
اپنے قول پرنظرثانی کرلیناچاہیے۔
ہم قربانی توجانورکی کرتے ہیں مگردراصل یہ ہمارے مالوں کی قربانی ہوتی ہے
ہم جانورکے ذریعے اپنامال راہ خدامیں صرف کرتے ہیں اس سے اﷲ توخوش ہوتاہی
ہے بندوں کی بھی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں اور انہیں خوشی حاصل ہوتی
ہے۔گویاکہاجاسکتاہے کہ جانورکی قربانی بالواسطہ مال کی قربانی ہوتی ہے اس
تناظرمیں ہم ایک بارپھرمذکورہ سورۂ کوثرپرغورکریں توا س سے جومفہوم
اخذکرہوگاوہ یہ کہ اے اﷲ ہمارے جان اورہمارے مال صرف اورصرف اﷲ کے لیے ہیں
اس میں کوئی غیرشریک نہیں ہے ۔بندہ جب یہ تصورکرے گاتواس تصورسے غیریت کی
ساری جڑیں کٹ جائیں گی اورخالص توحیدکی نمائندگی ہوگی۔ |
|