شاہکار رسالت ۖ

عمر کے قلب و نظر حق کی آماجگاہ ہیں اور وہ فاورق ہیں ۔ یعنی ان کے ذریعے اللہ عزوجل نے حق و باطل میں حد فاصل کھینچی ہے ۔ (حدیث مبارکہ راوی ایوب بن موسیٰ ) محمد بن سعد ابوعمر بن زکوٰن سے منسوب کرتے ہوئے ان کا بیان دہراتے ہیں کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ طیبہ طاہرہ صدیقہ سے پوچھا کہ عمر فاروق کہہ کر سب سے پہلے کس نے یاد کیا تو ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ نے آنحضرت ۖ کا نام نامی اسم گرامی لیا اور فرمایا کہ سب سے پہلے حضور پاکۖ نے ہی عمر کو فاروق کے لقب سے یاد فرمایا۔

نزال بن سبرة الہلالی کا بیان ہے ۔
ایک دن ہم نے مولائے کائنات سیدنا علی المرتضیٰ کی بارگاہ خاص میں حضرت عمر بن خطاب کا ذکر چھیڑ دیا۔ آپ نے فرمایا عمر وہ جلیل القدرہستی ہیں جسے اللہ رب العزت نے فاروق کا خطاب عطا کیا اور آپ کی ذات حق و باطل میں فاصل بن گئی ہے ۔میں نے رسول پاکۖ کو فرماتے سنا ہے کہ اے اللہ عزوجل اسلام کو عمر کی ذات سے غلبہ عطا فرما ۔ حضور صاحب لولاک ۖ نے فرمایا عمر بخدا شیطان تم کو دیکھتے ہی راستہ کاٹ جاتا ہے ۔

ابوسعید خدری سے روایت ہے حضور پاکۖ نے فرمایا میرے دو وزراء اہل آسمان اور دو اہل زمین میں ہیں۔اہل آسمان میں جبرائیل و میکائیل اور اہل ارض میں ابوبکر و عمر ہیں۔ یہ ہیں شاہکار رسالت خلیفة المسلمین امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب ان کا نام نامی عمر کنیت ابو حفص لقب فاروق والد کا نام خطاب اور اور والدہ کا نام ختمہ تھا۔پورا سلسلہ نسب یہ ہے عمر بن خطاب بن نفیل بن عبدالعزی بن رباح بن عبداللہ بن قرط بن کعب بن لوئی بن فہر بن مسالک (اصابہ جلد 2 ص 518) عفری کے دوسرے بھائی مرہ تھے جو رسول پاکۖ کے اجداد میں سے ہیں اس لحاظ سے عمر فاروق کا سلسلہ نسب آٹھویں پشت میں رسول پاکۖ سے جاکر ملتا ہے ۔آپ کا خاندان عرب میں انتہائی ممتاز تھا۔ آپ کے جد اعلیٰ عری عرب کے باہمی تنازعات میں ثالث مقرر ہوا کرتے تھے اور قریش کو کسی قبیلہ کے ساتھ کوئی ملکی معاملہ پیش آجاتا تو سفیر بن کر جایا کرتے تھے اور یہ دونوں منصب خاندان میں نسل در نسل چلے آرہے تھے ۔ددھیال کی طرح حضرت عمر فاروق ننھیال کی طرف سے بھی انتہائی معزز گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ۔آپ کی والدہ ختمہ ہاشم بن مغیرہ کی بیٹی تھیں اور مغیرہ اس درجے کے آدمی تھے کہ جب قریش کسی قبیلہ سے نبردآزمائی کیلئے جایا کرتے تھے تو فوج کا اہتمام انہی کے متعلق ہوا کرتا تھا۔(عقد الفرید باب فضائل العرب ) آپ ہجرت نبوی ۖ سے چالیس سال پہلے پیدا ہوئے شباب کا آغاز ہوا تو ان شریفانہ مشاغل میں مشغول ہوئے جو شرفائے عرب میں عموماً رائج تھے ۔ یعنی نسب دانی سپہ گری پہلوانی اور خطابت میں مہارت پیدا کی خصوصاً شہہ سواری میں کمال حاصل کی۔ اسی زمانے میں انہوں نے لکھنا پڑھنا بھی سیکھ لیا چنانچہ زمانہ جاہلیت میں جو لوگ پڑھنا لکھنا جانتے تھے ان میں سے ایک حضرت عمر فاروق بھی تھے (استعیاب تذکرہ عمر بن الخطاب ) آپ نے عرب کے زیادہ تر لوگوں کی طرح تجارت کا پیشہ اختیار کیا اس سلسلہ میں آپ نے دور دراز ممالک کا سفر کیا ۔اس سے آپ کو بڑے تجربے اورفوائد حاصل ہوئے آپ کی خود داری بلند حوصلگی تجربہ کاری اور معاملہ فہمی اس کا نتیجہ تھی اور انہی اوصاف کی بناء پر قریش نے آپ کو سفارت کے منصب پر مامور کردیا تھا قبائل میں جب کوئی پیچیدگی ہوجاتی تھی تو آپ ہی سفیر بن کر جایا کرتے تھے اور اپنے غیر معمولی فہم و تدبر اور تجربے سے اس عقیدہ کو حل کرتے تھے ۔(فتوح البلدان بلاذری ص 477) حضرت عمر فاروق کا ستائیسواں سال تھا کہ ریگستان عرب میں آفتاب اسلام پر تو افگن ہوا اور مکے کی گھاٹیوں سے توحید کی صدا بلند ہوئی ۔ حضرت عمر فاروق کے لئے یہ آواز نہایت نامانوس تھی اس لئے سخت برہم ہوئے جس کا پتہ لگ جاتا کہ وہ مسلمان ہوگیا وہ دشمن ہوجاتے تھے ۔قریش کے سربراہ آوردہ اشخاص میں ابوجہل اور حضرت عمر اسلام اور حضور پاک ۖ کی دشمنی میں سب سے زیادہ سرگرم تھے اسی لئے آنحضرت ۖ نے دعا فرمائی ۔ الٰہی اسلام کو عمر بن ہشام یا عمر بن خطاب کے ذریعے معزز کر (جامع ترمذی مناقب عمر ) اس دعائے مستجاب کا یہ اثر ہوا کہ اسلام کا سب سے بڑا دشمن اسلام کا سب سے بڑا مددگار بن گیا۔۔یعنی حضرت عمر کا دامن دولت ایمان سے بھر گیا آپ نبی محترم ۖ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے جو ارقم کے مکان پر تھے ۔دستک دی چونکہ شمشیر بکف تھے صحابہ کرام کو تردد ہوا لیکن حضرت امیر حمزہ نے فرمایا کہ آنے دو مخلصانہ آیا ہے تو ٹھک ہے ورنہ اسی کے تلوار سے اس کا سر قلم کردیں گے ۔حضرت عمر نے اندر قدم رکھا تو رسول پاکۖ خود آگے بڑھے اور ان کا دامن پکڑ کر فرمایا کیوں عمر کس ارادے سے ہوئے ہو نبوت کی پرجلال آواز نے ان کو کپکپا دیا نہایت خضوع کے ساتھ عرض کی ایمان لانے کیلئے ۔آنحضرت ۖ نے بے ساختہ اللہ اکبر کا نعرہ اس زور سے مارا کہ تمام پہاڑیاں گونج اٹھیں ( سیرة النبی ۖ جلد 1 ص 209-210 بحوالہ اسد الغلبہ و ابن عساکر و کامل ابن اثیر )

حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ حضرت عمر کے مشرف بہ اسلام ہوجانے پر دارارقم میں نشاط کی کیفیت طاری ہوگئی آپ نے دین متین قبول کرنے کے بعد آقائے دوجہاں ۖ سے عرض کی یارسول اللہ کیا ہم حق پر نہیں ہیں ۔ جواب اثبات میں ملا تو عرض کیا حضور پاکۖ جب ایسا ہے تو ہم اعلان ح میں کیوں درنگ کریں۔ اس کے بعد آنحضرت ۖ دارارقم سے نکل آئے ۔ اسلام کی دعوت عام ہوگئی قیس بن حاتم نے عبداللہ بن مسعود کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اس کے بعد ہم برابر غالب آتے چلے گئے آپ نے مدینہ ہجرت بھی فرمائی ۔ آپ جانبازی اور پامردی کے لحاظ سے ہرموقع پر رسول اللہ ۖ کے دست و بازو رہے ۔ غزہ بدر میں عاص بن ہشام ابن مغیرہ جو رشتے میں ان کے ماموں تھے اپنے خنجر سے واصل جہنم کیا (ابن جریر ص 509) اسلام کے مقابلہ میں قرابت و محبت کی تعلقات سے مطلقاً متاثر نہیں ہوتے تھے ۔ عاص کا قتل اس کی روشن مثال ہے ۔ غزوہ سویق اور دوسرے چھوٹے بڑے معرکوں میں داد شجاعت دی اور غزوہ احد و خندق میں کارہائے نمایاں ادا فرمائے ۔ خیبر و حدیبیہ میں اہم ترین کردار ادا کیا غزوہ حنین میں شریک کارزار رہے پھر 09ھ میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ قیصر روم عرب پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے آنحضرت ۖ نے صحابہ کرام کو تیاری کا حکم دیا ۔ آپ نے اس موقع پر اپنے تمام مال و املاک آدھا حصہ آنحضرت ۖ کی خدمت اقدس میں پیش کیا اسلحہ اور رسید مہیا ہوجانے کے بعد مجاہدین نے مقام تبوک کا رخ کیا۔ یہاں پہنچ کر معلوم ہوا ہے کہ خبر غلط تھی ۔ اس لئے چند روز قیام کے بعد سب لوگ واپس آگئے ۔ آپ نے اسلام کی سربلندی و افتخار کیلئے تلوار کے وہ جوہر دکھائے کہ آسمان بھی جرأت فاروقی پر آج تک انگشت بدنداں ہے ۔ آپ نے صاحب لولاک ۖ کے پردہ فرمانے پر بہت اثر لیا یہاں تک فرمایا کہ جو یہ کہے گا کہ حضور پاکۖ وصال فرماگئے ہیں میں اس کو قتل کردوں گا ۔ آپ کو حضور پاک ۖ سے بے انتہا محبت تھی ۔آپ کے مشورے حضرت ابوبکر صدیق کے دور خلافت میں اسلام کی عظمت و فتوحات کیلئے مفید ترین رہے ۔ بڑے بڑے کام انجام پاے حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت صرف سوا دو برس رہی ۔ حضرت ابوبکر صیق اور اکابر صحابہ کی مشاورت کے تحت آپ کو خلیفہ نامزد کیا گیا ۔ حضرت ابوبکر صدیق نے آپ کو مفید اور موثر نصیحتیں فرمائیں۔ جو حضرت عمر کے بعد خلیفہ راشدہ اور امیر المومنین کے منصب مقدس پر فائز ہوئے ۔ آپ کے دور حکومت میں 58لاکھ مربع میل پر اسلامی حکومت پھیل گئی ۔ آپ نے فوج کو منظم کیا محکمہ پولیس ، جیل خانہ جات و دیگر محکمے بنائے آپ نے رعایا کی دیکھ بھال میں دن رات ایک کردیا حضرت سیدنا عمر فاروق نے زمانہ مبارک میں ایک مرتبہ زلزلہ آیا تو آپ ۖ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی اور اس کے بعد زمین پر درہ مارا کہ کیوں کانپتی ہے کیا عمر نے تجھ پر انصاف و عدل نہیں کیا ؟ تو زلزلہ ختم ہوگیا (ازالة الحقاج 47) حضرت حضرات بن جبیر فرماتے ہیں کہ ایک سال بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے قحط پڑگیا لوگ حضرت عمر کو ساتھ لیکر میدان میں آئے دو رکعت نماز پڑھ کر خدا سے دعا مانگی یا اللہ ہم تجھ سے بخشش و مغفرت طلب کرتے ہیں اور تیرے بندے عمر کے طفیل بارش کی دعا مانگتے ہیں ۔ ابھی لوگ دعا کرکے اپنی جگہ سے نہ ہٹے کہ بارش شروع ہوگئی آپ فرمایا کرتے تھے کہ اگر فرات کے کنارے کتا بھی مرگیا تو عمر جواب دہ ہے ۔ ایک رات آپ گشت فرما رہے تھے ایک اعرابی کے قریب سے گزر ہوا جو اپنے خیمے کے باہر بیٹھا ہوا تھا خیمے کے اندر سے کراہنے کی آواز آئی آپ ٹھہر گئے ۔ آپ نے اعرابی سے پوچھا یہ کون ہے وہ کہنے لگا کہ میری بیوی ہے اور درد زہ میں مبتلا ہے ۔ آپ اپنی زوجہ محترمہ کو ساتھ لیکر وہاں گئے زوجہ محترمہ نے اس عورت کی مدد فرمائی ۔ اللہ تعالیٰ نے اس اعرابی کو بیٹا عطا کیا تو آپ کی زوجہ محترمہ باہر تشریف لائیں۔ حضرت عمر اس اعرابی کے پاس بیٹھے گفتگو فرمار ہے تھے زوجہ محترمہ نے عرض کی یا امیر المومنین اپنے ساتھ کو فرمائیں کہ اللہ عزوجل نے اسے بیٹا عطا فرمایا ہے ۔ اعرابی نے امیر المومنین کا نام سنا تو گھبرا کے پیچھے ہٹا آپ نے فرمایا میرے بھائی انپی جگہ پر بیٹھے رہو اور فرمایا کل میرے پاس آنا وہ صبح کو آکر ملا تو آپ نے اس کا وظیفہ مقرر کیا اور مال و اسباب دیکر رخصت فرمایا۔ زید بن اسلم روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ رات کو گشت فرمارہے تھے دیکھتے ہیں کہ ایک عورت اپنے خیمے کے گرد بچوں کو چپ کرارہی ہے جو رو رہے تھے جبکہ آگ پر ہانڈی رکھی تھی ۔ اس میں پانی بھرا تھا ۔ آپ نے بچوں کے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا کہ بچے بھوکے ہیں آپ نے ہانڈی کی طرف اشارہ کیا تو کہنے لگی کہ اس میں پانی اور بچوں کو بہلا رہی ہوں آپ بے اختیار رو پڑے اسی وجہ بیت المال میں آئے ایک بڑا تھیلا آٹے کا گھی اور ضروریات کی اشیاء کھجوریں اور درہم لئے اس بھرے ہوئے تھیلے کو اپنے کاندھے پر رکھنے کیلئے فرمایا تو عرض کرنے لگا کہ اس تھیلے کو میں اٹھاتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا اس تھیلے کو میرے کاندھے پر رکھو کیا تو کل قیامت میں میری طرف سے جواب دے گا ۔ پھر سامان اٹھا کر اس عورت کے پاس تشریف لے گئے اور چولہے میں خود پھونکیں مارتے رہے یہاں تک کہ کھانا پک گیا آپ نے ان بچوں کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلایا۔ حتیٰ کہ بچے سوگئے تو عورت نے کہا خدا تجھے جزائے خیر دے ۔

امر خلافت میں امیر المومنین سے زیادہ تو مستحق تھا۔ آپ بے اختیار روپڑے اور فرمانے لگے کہ کل تم امیر المومنین کے پاس آنامیں تمہارے لئے وظیفہ جاری کروں گا۔

ایک دفعہ آپ صحرا سے گزر رہے تھے دیکھا کہ ایک کمزور اور ضعیف اونٹ بھوک سے نڈھال قریب المرگ پڑا ہے آپ اس اونٹ کے قریب بیٹھ گئے کچھ دیر سوچتے رہے فرمایا کہ تیرے برے میں بھی عمر سے سوال کیاجائے گا۔ اس کے بعد اس کے مالک کو بلایا اور خوف خدا یاد دلایا۔ اس کے چارے اور کھانے کا انتظام کیا اور علاج کی ہدایت کی ۔ آپ خود رعایا تک پہنچتے تھے ۔ معاملات کا مشاہدہ فرماتے ۔ ایک دن آپ نے دیکھا کہ ایک ضعیف العمر شخص بھیک مانگ رہا ہے آپ نے اسے پوچھا کہ کیوں مانگتا ہے وہ عرض کرنے لگا کہ میں کچھ کرنے کے قابل نہیں رہا۔ ذمی ہوں جزیہ ادا کرنا پڑتا ہے اس لئے مانگ رہا ہوں ۔ آپ نے ضعیفوں اور عمر رسیدہ غیر مسلموں کا جزیہ معاف کردیا۔ ایک مرتبہ ایک قافلہ آیا شہر سے باہر اترا آپ خبر گیری کیلئے تشریف لے گئے ایک بچے کی رونے کی آواز آئی آپ نے اس کی ماں سے خبرگیری کو فرمایا تھوڑی دیر بعد دوبارہ ادھر سے گزرے وہ پھر رو رہا تھا آپ نے غصے میں فرمایا کہ بڑیبے رحم ماں ہو وہ کہنے لگی کہ اے راہرو تمہیں حقیقت کی خبر نہیں ہے عمر نے حکم دے رکھا ہے کہ بچوں کا وظیفہ اس وقت شروع کیاجائے جب وہ ماں کا دودھ چھوڑ دے ۔میں اس کا دودھ چھڑاتی ہوں اور یہ روتا ہے ۔ یہ سن کر حضرت عمر کو رقت ہوئی اور کہا کہ ہائے عمر نامعلوم تونے کتنے بچوں کا خون کیا ہوگا۔

اسی دن منادی کرادی کہ بچوں کی پیدائش کے ساتھ ہی ان کا وظیفہ مقرر کیاجائے ایک رات گشت کے دوران آپ نے دیکھا کہ ایک عورت اپنی بیٹی کو دودھ میں پانی ملانے کا کہہ رہی ہے وہ لڑکی کہنے لگی کہ خلیفہ کا حکم ہے کہ کوئی دودھ میں پانی نہ ملائے وہ عورت کہنے لگی کہ خلیفہ کہاں دیکھ رہا ہے وہ لڑکی کہنے لگی کہ اللہ تودیکھ رہا ہے آپ نے اس لڑکی کیلئے اپنے صاحبزادے کا رشتہ بھیجا اسی لڑکی کی اولاد سے حضرت عمر بن عبدالعزیز پیدا ہوئے ۔ اسی نسبت سے آپ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے نانا کہلاتے ہیں۔جنہوں نے خلافت راشدہ کی یاد تازہ کردی ۔ آپ سفر سے واپس آرہے تھے تو راستے میں ایک خیمہ دیکھا ویرانے میں ایک خیمہ قریب گئے تو دیکھا کہ اس میں ایک بڑھیا بیٹھی ہے پوچھا کہ تمہیں عمر کا کچھ حال ہے وہ کہنے لگی سنا ہے شام سے چل پڑے ہیں اس سے زیادہ مجھے کچھ معلوم نہیں نہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے آپ نے پوچھا ایسا کیوں ہے اس نے کہا جس نے آج تک یہ معلوم نہیں کیا کہ مجھ پر کیا گزر رہی ہے اس کے حالات میں معلوم کرکے کیا کروں گی ۔آپ نے فرمایا کہ کیا تم نے عمر نے اپنی یہ حالت پہنچائی ہے اس نے کہا کہ یہ میرا کام نہیں ہے آپ نے فرمایا عمر کو اتنی دور کے حالات کا کیسے علم ہوگا۔ اس کے جواب میں جو بڑھیا نے کہا وہ غور سے سننے کے قابل ہے اس نے کہا کہ اگر عمر اپنی رعایا کے ہر فرد کے حالات کا علم نہیں رکھتا تو اسے حکومت کرنے کا کیا حق ہے ۔ آپ جب بھی اس واقعہ کو یاد کرتے تو روتے تھے ۔ایک مرتبہ فرمایا کہ مجھے اس عورت نے بتایا کہ خلافت کا کیا مفہوم ہے ۔ فرمایا کہ میں رعایات کے حالات معلوم کرنے کیلئے سال بھر بھی سفرمیں رہوں گا اور لوگوں سے براہ راست حالات معلوم کروں گا۔

ایک دفعہ ایک اعلیٰ سطحی وفد ایک جلیل القدر صحابی کی زیر قیادت آپ نے ملنے آیا تو امیر المومنین سیدنا عمر اور احنف بن قیس بیت المال کے اونٹوں کو تل مل رہے تھے وہ صحابی فرمانے لگے کہ یا امیر المومنین بیت المال کیلئے بے شمار لوگ ہیں وہ یہ خدمت سرانجام دے دیں گے تو سیدنا عمر فاروق نے فرمایا کہ کیوں احنف ہم سے بہتر خدمتگار کون ہے آپ سر پائوں رشق رسول میں ڈوبے ہوئے تھے ایک دفعہ ایک یہودی کا معاملہ ایک منافق جو بظاہر مسلمان تھا پڑ گیا وہ فیصلے کیلئے آقاکریم ۖ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے آپ نے معاملے کا جائزہ لیکر فیصلہ یہودی کے حق میں کردیا تو اس منافق نے یہ سو چ کر کہ حضرت عمر کافروں کیلئے شدت رکھتے ہیں کہا کہ میں اس کا فیصلہ عمر سے کرائوں گا وہ بارگاہ فاروقی میں چلے گئے معاملہ ان کے حضور پیش ہوا آخر میں یہودی نے یہ کہا یا عمر اس کا فیصلہ آپ کے نبی ۖ نے میرے حق میں تدیا تھا حضرت عمر نے اس منافق سے پوچھا تو اس نے اثبات میں سر ہلایا تو سیدنا عمر فاروق اندر تشریف لے گئے تلوار اٹھا لائے اور ایک ہی وار میں اس منافق کا سر تن سے جدا کردیا اور فرمایا جو آقا کریم ۖ کے فیصلے کو نہیں مانتا تو اس کا فیصلہ میری تلوار کرے گی ۔ایک دفعہ آقا کریم ۖ ایک پہاڑی پر سیدنا صدیق اکبر ، عمر فاروق اور سیدنا عثمان غنی کے ساتھ موجود تھے تو پہاڑ ہلنے لگا آپ نے حکم فرمایا کہ اے پہاڑ ٹھہر جا تیرے اوپر خاتم المرسلین ۖ ، ایک صدیق اور دو ہید کھڑے ہیں پہاڑ تھم گیا۔ ایک دفعہ کسی ملک کا سفیر مدینہ طیبہ میں آیا اور کہنے لگا کہ میں آپ کے بادشاہ سے ملنا چاہتا ہوں تو اسے لے جایا گیا دیکھا تو سیدنا عمر فاروق پیوند لگے کپڑے پہنے اور اینٹ کا تکیہ بنا کر کھلے آسمان تلے سوئے پڑے ہیں وہ عمر جس کی ہیبت و جلال سے قیصر و کسریٰ لرزہ براندام تھے بے خوف و خطر پڑے تھے ایک جگہ نبی کریم ۖ نے فرمایا تم سے پہلے جو امتیں گزری ان میں محدث ہوا کرتے تھے جن کی زبانیں حق کی ترجمان ہوا کرتی تھیں اس میں اس امت میں اگر کوئی ایسا ہے تو عمر ہے (بخاری ) حضرت ایوب بن موسیٰ بیان کرتے ہیں کہ رسول پاکۖ نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے حق کو عمر کی زبان پر جاری کردیا اس کے دل میں ثبت کردیا ہے وہ فاروق ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعے سے حق و باطل میں تفریق کردی ہے ۔ (ابن سعد) آقا کریم ۖ نے فرمایا کہ جہاں عمر ہے شیطان کی مجال نہیں کہ وہاں دم بھی مارے شیاطین وہاں سے خوف سے بھاگ جاتے ہیں کیونکہ حضرت عمر حق کے نشان ہیں ۔ امیر المومنین سیدنا عمر حکمت و دانائی کا استعارہ ہیں انہوںنے کتنے ہی ایسے اقدامات اپنی خلافت میں کئے کہ جو حکمرانی اور عوام کی سہولت کیلئے آج بھی اور قیامت تک آنیوالی حکومتیں اپنائے رہیں گی انہیں عمر لاز کہا جاتا ہے ۔انتظامی حوالوں سے ان کی داد و تحسین ہر حکمران چاہے وہ مسلمان ہو یا غیرمسلم کی ہے انہوں نے ریاست میں امن قائم کرنے کیلئے پولیس کا محکمہ بنایا تاکہ عوام کو تحفظ حاصل ہو عوام کی شکایت فوری طور پر حل ہوں ۔مجرموں کی اصلاح کیلئے جرم و فساد کے خاتمہ کیلئاے سب سے پہلے جیل خانہ قائم کیا تاکہ جیل سے آنے کے بعد وہ اچھے اور ذمہ دار شہری بن سکیں جیل میں ہی حضرت عمر فاروق نے انسانی حقوق کا خیال رکھا اور طویل عمر قید والے قیدیوں کی ہر طرح کی ضرورت کا خیال بھی رکھا حتیٰ کہ مہینے میں کچھ وقت یا دنوں کیلئے انہیں ان کی بیویوں سے بھی ملنے دیا جاتا تھا ایسی نظیر اسلام کے علاوہ کہیں نظر نہیں آتی فوری انصاف کیلئے عدالتیں بنائیں گئیں قاضی مقرر کئے دفاع اسلام کیلئے باقاعدہ فوج بنائی فوجی محکمہ اور دفتر بنائے ان کے دو حصے بنائے ایک باقاعدہ فوج اور ایک ریزرو فوج تاکہ فتوحات میں تسلسل رہے اور ہر وقت تازہ دم فوج حق کی سربلندی کیلئے دستیاب رہے ۔ مردم شماری کرائی گئی تاکہ مملکت اسلامی میں رہنے والوں کی صحیح تعداد معلوم ہو بلدیاتی نظام قائم کیا جس کے زیر اہتمام سرکاری عمارات بنائی گئیں ہسپتال قائم ہوئے نہریں اور پل بنے دریائے نیل پر ایک نہر موسیٰ دریائے دجلہ کو کاٹ کر بنائی گئی ۔ 69 میل لمبی نہر چھ ماہ کے عرصے میں تعمیر کی گئی بلدیاتی نظام کے تحت چار ہزار مساجد تعمیر کی گئیں بنجر و بیابان زمینوں کو آباد کیا گیا تجارتی راستوں پر چوکیاں تعمیر کی گئیں عشر اور درآمدی ٹیکس لگایا رضا کار بھرتی کئے گئے ان کی تنخواہیں مقرر کی گئیں تاکہ تاجر محفوظ ہوں ۔مکہ سے مدینہ تک چوکیاں بنائی گئیں مسافر خانے بنائے گئے ۔سفر کو محفوظ کیا گیا نئے شہر آباد کئے گئے جیسے بصرہ کوفہ حیرہ موصل وغیرہ غرباء اور مساکین کیلئے بیت المال کا قیام عمل میں آیا زمین کی پیمائش کی تاکہ تمام علاقوں میں عملداری کا صحیح پتہ ہو صوبوں میں تقسیم کیا گیا جیسے نصرہ ، مکہ ، مدینہ ، شام کوفہ ان میں حاکم مقرر کئے گئے تمام محکموں میں ذمہ دار بنائے گئے آئمہ مساجد اور موذنوں کی تنخواہ مقرر کی گئی ۔باقاعدہ نماز تراویح کا اہتمام کیا گیا ۔اس کیلئے اجتماع امت کیا گیا عوام کے حالات بہتر خوشحال ہوگئے اور اس بلندی پر پہنچ گئے کہ زکوٰة ، خیرات ، صدقات لینے والا نظر نہ آتا تھا۔اسلام و قرآن اور محبت رسول پاکۖ کو ہمیشہ سربلند رکھا حضرت عمر کو یہ عظیم شرف حاصل ہے کہ آپ کی صاحبزادی حضرت حفصہ ام المومنین ہیں اور آج قرآن مبارک کی تمام دنیا میں جو تلاوت یہی نسخہ حضرت عثمان نے لکھوا کر تمام دنیا میں بھیجا تھا ایک قرت جو کہ پڑھا جارہا ہے حضرت حفصہ کے پاس محفوظ تھا حضرت عمر کے پاس مصر کے گورنر نے خط لکھا کہ یہاں رسم بد ہے کہ ہر سال دریائے نیل خشک ہوجاتا ہے تو یہاں کے لوگ ایک حسین و جمیل کنوری لڑکی اس کی بھینٹ چڑھاتے ہیں۔میں نے اسے روک دیا ہے دریائے نیل خشک ہے کیا کیا جائے ۔آپ نے اس رسم بد کو سختی سے منع فرمایا اور ایک خط دریائے نیل کے نام لکھا کہ اے دریائے نیل اگر تواپنی مرضی سے چلتا ہے تو ہمیں تیری ضرورت نہیں اور اگر تو رب کے تابع ہے تو پھر چل اور مخلوق خدا کیلئے فیض کا سبب بن یہ فرمایا کہ اسے دریائے نیل میں ڈال دو اس مبارک خط کا ڈالنا تھا کہ آج تک دریائے نیل کبھی خشک نہیں ہوا ایک علاقہ میں آتش فشاں پھٹ پڑا لوگ آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے آپ نے اپنی چادر مبارک انہیں دی اور فرمایا کہ اسے آتش فشاں پر ڈال دو اس چادر کا ڈالنا ہی تھا کہ پہاڑ نے آگ اگلنا بند کردی ۔حضرت عمر کا دور خلافت عظیم ترین پرامن و مثالی دور حکومت تھا ۔آج بھی اور قیامت تک دور عمر فاروق حکمرانوں کیلئے مشعل راہ رہے گا ۔آپ نے جو قوانین بنائے انہوں نے امن و امان برقرار رکھنے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ خصوصاً جیل خانہ جات اور پولیس انتظامی حوالے سے جو قوانین تھے آج بھی یورپ جیسے معاشرے میں ان سے مدد لی جاتی ہے اور ان قوانین کو عمر لاء کہا جاتا ہے ۔قیصر و کسریٰ کے سفیر جب آتے ہیں اور امیر المومنین کا محل تلاش کرتے ہیں وہ اینٹ کا تکیہ بنائے سوئے ہوئے ہیں وہ اتنی بڑی مملکت کے نگران کی اس درویشی پر انگشت بدنداں رہ جاتا ہے جب بیت المقدس کی فتح ہوتی ہے عیسائی یا پادری انجیل مقدس کے مطابق پیش گوئی کیلئے دیکھنے واسطے شہر کے دروازے پر کھڑے ہوتے ہیں تو وہ یوں پوری ہوتی ہے کہ غلام سواری پر ہے اور خلیفہ وقت سیدنا عمر فاروق کے ہاتھ میں اونٹ کی نکیل وہ یہ اندا زحکمرانہ دیکھ کر از خود آپ کے حوالے کردیتے ہیں آپ نظم و ضبط کے پابند اور سخت ترین محتسب تھے جس کے خلاف شکایت ملی فوراً سزا دیتے تھے اور اپنے صاحبزادے کو ہی آپ نے معاف نہ کیا اور گورنر وقت کے خلا شکایت پر مجھے بے قصور کوڑے مارے گئے شکایت کرنے والے کو فرمایا کہ جتنے کوڑے ناحق تمہارے جسم پر پڑے ہیں تم اپنا بدلہ لو پھر ہر کوڑے کے بدلے ایک درہم دے کر اس گورنر کو امان ملی ۔حضرت سیدنا عمر فاروق نے عین جنگ کے وقت حضرت خالد بن ولید کو ضابطے کی خلاف ورزی پر معزول کردیا آپ اکابر صحابی و اہل بیت عظام کو دل و جان سے چاہتے اور انہیں باعشت عزت و توقیر جانتے تھے آپ نے حضرت مولان علی کرم اللہ وجہ کو قاضی القضاة کے عہدے پر فائز فرمایا تھا ایک فیصلہ میں کھلے عام یہ فرمایا دیا تھا کہ آج اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا ۔ آپ آقا کریم ۖ کے مشیر تھے آپ کے فیصلوں اور مشوروں کو اللہ عزوجل نے عزت بخشی یکم محرم الحرام کو ایک مجوسی ابولولوفیروز کے پے در پے خنجروں سے بوقت نماز آپ شدید زخمی ہوگئے اور انہی زخموں سے آپ نے شہادت پائی آپ کو قاتل کا نام بتایا گیا تو آپ نے فرمایا کہ شکر ہے رب کریم ۖ کا کسی مسلمان نے یہ کام نہیں کیا آپ کا دور مسلمانوں کی عظمت کا عظیم ترین دور تھا آپ کی مقدس زندگی کو دیکھتے ہوئے ہی مرشد کریم علامہ اقبال نے عرض کیا تھا کہ
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزق حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

جب تک دنیا قائم رہے گی سیدنا فاروق اعظم کے کارنامے روشن ستاروں کی طرح آسمان پر چمکتے رہیں گے ہم برملا یہ کہیں گے کہ اسلام کی عظمت کا نشاں فاروق اعظم ہے آپ کے اقوال آپ کے فیصلے آپ کی جنگی تدبیریں آپ کا حسن انتظام شاندار ترین رہا دنیا آپ کے طرز حکومت پر ناز کرتی رہے گی آپ کی فکر اور طرز زندگی عالم اسلام کیلئے ہمیشہ نشان منزل رہیگا ۔ فخر گولڑہ پیر سید نصیر الدین نصیر نے سیدنا عمر فاروق کے حضور عرض کیا کہ
اسلام کی شوکت صدف دین کا گہر ہے
شاہکار رسالت ۖ جسے کہیے وہ عمر ہے
جس کے نام کے صدقے سے دعائوں میں اثر ہے
وہ نام عمر نام عمر نام عمر ہے
وہ صحن حرم اور وہ ایک اینٹ کا تکیہ
کیا تربیت سرور عالم ۖ کا اثر ہے
فقر ایسا کہ دیں قیصرو کسریٰ بھی سلامی
حکم ایسا کہ دریا بھی جھکائے ہوئے سر ہے
عدل ایسا پکڑ سکتے ہیں کمزور بھی دامن
رعب ایسا کہ خود ظلم کا دل زیر و زبر ہے
کترائے گزر جاتا ہے اس دن اک غم
جس دن سے مرے ورد زباں نام عمر ہے
کعبے میں نماز آج ادا ہوکے رہے گی
خطاب کے بیٹے کی یہ آمد کا اثر ہے
دل سے جو پکارے گا عمر کو دم رزم
یہ نام ہی شمشیر ہے یہی نام سپر ہے
ہوتا جو نبی میرے بعد تو فاروق
اس کا ہے یہ فرمان کہ جو خیر البشر ۖ ہے
قرآن کی آیات دیتی ہیں گواہی
تقویٰ جسے کہتے ہیں وہ کردار عمر ہے
گو صاف دماغوں کو رکھتا ہے معطر
اسلام کے گلشن کا عمر وہ گل تر ہے
ہے جن کی غلامی ہی اک اعزاز وہ لاریب
ابوبکر ہے عثمان ہے حیدر ہے عمر ہے
وارد ہے تیری شان میں لوکان نبی
بن مانے تیرے کوئی مفر ہے نہ مقر ہے
ہر سلسلہ فیض میں چمکتے تیرے موتی
کوئی ہے مجدد تو کوئی گنج شکر ہے
پھر آج ضرورت ہے تیری نوع بشر کو
اس عہد کا مظلوم تیرا راہ نگر ہے
دی دور نہ پاکر یہ نسبت کہ نصیر آج
بیعت تیرے افکار کی بردست عمر ہے
Syed Ali Husnain Chishti
About the Author: Syed Ali Husnain Chishti Read More Articles by Syed Ali Husnain Chishti: 23 Articles with 28802 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.