ہماری معاشرتی اقدار بہت تیزی سے
بدل رہی ہیں علم و تقوی کی بجائے مال و دولت لوگوں کو پرکھنے اور ان کے
ساتھ پیش آنے کا معیار بنا ہوا ہے۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ ہم اپنی حقیقی
اقدار کو پہنچانے اور انسانوں کے ساتھ درست اورمحبت آمیز برتاؤ کریں۔
نواسہ رسول حضرت امام حسین اپنے عہد میں انہی اسلامی اقدار زندہ کرنے میں
مصروف رہے جس کا ایک نمونہ ذیل میں پیش کیا جارہاہے:
ايک مرتبہ ايک بدو امام حسين کي خدمت ميں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اے
فرزندِ رسول! ميں بہت مقروض ہوگيا ہوں اور اس کو ادا کرنا ميرے لئے ممکن
نہيں ہے۔ ميں نے سوچا کہ کسي ايسے شخص کے پاس جاؤں جو سب سے بڑھ کر کريم ہو۔
اور ميں نے کسي دوسرے کو اہلِ بيت سے زيادہ کريم نہيں پايا۔
امام حسينٴ نے فرمايا: ''اے ميرے عربي بھائي! ميں تم سے تين سوال کروں گا۔
اگر ايک سوال کا جواب ديا تو تمہارے قرض کا ايک تہائي حصہ ادا کردوں گا۔
اگر دو سوالوں کے جواب ديئے تو قرض کا دو تہائي حصہ ادا کردوں گا اور اگر
تينوں سوالوں کے جواب دے ديئے تو پورا قرضہ ادا کردوں گا۔‘‘
بدو نے کہا کہ آپٴ جيسي صاحبِ علم اور بافضليت شخصيت مجھ سے سوال کرے اور
ميں جواب دوں، يہ کيسے ہو سکتا ہے؟
امامٴ نے فرمايا: ميں نے اپنے جد رسولِ خدا ۰ سے سنا ہے کہ! ''نيکي اور
بخشش اس کي معرفت اور معلومات کے مطابق ہوتي ہے۔‘‘
بدو سوالات پر راضي ہوگيا اور کہنے لگا کہ آپٴ جو چاہتے ہيں، پوچھ ليجئے
اگر مجھے معلوم ہوا تو جواب دے دوں گا وگرنہ آپ سے پوچھ لوں گا۔
امامٴ نے پوچھا: بہترين عمل کيا ہے؟
بدو نے جواب ديا: خدا پر ايمان۔
امامٴ نے پوچھا: کون سي چيز لوگوں کو تباہي و ہلاکت سے بچاتي ہے؟
بدو نے جواب ديا: خدا پر توکل اور اعتماد۔
امامٴ نے پوچھا! آدمي کي زينت کس ميں ہے؟
بدو نے جواب ديا: وہ علم کہ جس کے ساتھ حلم اور بردباري بھي ہو۔
امامٴ نے پوچھا اور اگر اس کے پاس يہ فضيلت نہ ہو تو؟
بدو نے جواب ديا: ايسا مال کہ جس کے ساتھ غيرت بھي ہو۔
امامٴ نے پھر پوچھا! اگر يہ بھي نہ ہو تو؟
بدو نے کہا! ايسي غربت جس کے ساتھ صبر و تحمل بھي ہو۔
امامٴ نے پوچھا! اگر يہ بھي نہ ہو؟
بدو نے کہا: ايسي صورت ميں (بہتر ہے) ايک بجلي آسمان سے نازل ہو اور اس شخص
کو جلا کر راکھ کردے کہ وہ اسي کا حقدار ہے۔
امام حسين يہ سن کر مسکرا دئيے اور اس کو ايک ہزار دينار اور ايک انگوٹھي
عطا کي اور فرمايا کہ ہزار دينار سے اپنا قرض ادا کرو اور انگوٹھي بيچ کر
کہ جس کي قيمت تقريباً ٢٠٠ درہم ہے، اپني زندگي پر خرچ کرو۔
بدو نے دونوں چيزيں ليں اور يہ آيت تلاوت کرتے ہوئے رخصت ہوا کہ ''اللّٰہ
اعلم حيث يجعل رسالتہ‘‘، ''خدا بہتر جانتا ہے کہ اپني رسالت کو کہاں قرار
دے۔‘‘
اس مختصر سے واقعے میں کتنے ہی ایسے روشن نقوش ہیں جن کی طرف توجہ کرکے ہم
اپنی اقدار کو زندہ بھی کرسکتے ہیں اور ایک علم دوست اور بہت ہی خوبصورت
معاشرہ بھی تعمیر کرسکتے ہیں۔ |