27اکتوبر کے کثیرالاشاعت اخبار جنگ میں معروف صحافی جناب
عامر میر کی ایک نیوز رپورٹ شائع ہوئی ہے جو اس طرز پر بنائی گئی ہے کہ
جیسے بنگلہ دیش کی سربراہ حسینہ واجد کے کسی ترجمان نے بنگلہ دیشی حکومت کی
ترجمانی کا حق ادا کیا ہے ۔دو سال قبل عامر میر کے بھائی جناب حامد میر کو
بنگلہ دیشی حکومت کی طرف سے ا ن کے والد جناب وارث میرکے 1971 میں مشرقی
پاکستان میں فوجی آپریشن کی مخالفت کرنے پر ایوارڈدے گیا تھا اب امید ہے کہ
یہ ایوارڈ عامر میر کو دیا جائے گا ۔
یکم جولائی 2013کو ملک کے ایک قومی اخبار میں ایک معروف صحافی کا آرٹیکل "
وارث میر کا 1971کا سچ"کے عنوان سے شائع ہوا جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ
وارث میرصاحب ایک سچے اور محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے بنگلہ دیش بننے اور
اس زمانے کے اپنے سفرنامے کا ذکر کرتے ہوئے جذباتی ہو جاتے ،میں یہاں وارث
میر کے اکتوبر 1971 کے سفرنامے کے اقتباسات نقل کرنا چاہتا ہوں تاکہ ٓاپ اس
سچے انسان کی زبان سے سنیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں کیا کھیل کھیلا
گیا :
" ایک طالب علم بولا:ہمارے لیڈروں کا المیہ یہ ہے کہ انھوں نے مغربی
پاکستان یا پنجاب کے عام مسلمانوں کا ذکر برائی کی علامت کے طور پر کیا
حالانکہ یہ برائی ملک کے دونوں حصوں کے عوام پر مسلط ہے ۔یہ بات عام سننے
میں آئی ہے کہ عوامی لیگ کی دہشت گردی میں ڈھاکا یونیورسٹی کے طلبہ پیش پیش
تھے اور فوج کی کارروائی کے دوران ایسے طلبہ کی اکثریت سرحد عبور کرچکی تھی
اور ان ہی طلبہ کو چند روز تربیت دینے کے بعد بھارتی فوج پاکستانی سرحدوں
پر پھینک دیتی ہے۔اس ہال میں عوامی لیگ کے حامی طالب علموں نے اپنی ہی ہم
جماعت غیر بنگالی لڑکیوں پر وہ وہ ظلم و ستم ڈھائے ہیں کہ ان کا ذکر تو
درکنار تصور کرتے ہی یونی ورسٹی کی ملازمت چھوڑ کر بھاگ جانے کو جی چاہتا
ہے ۔اساتذہ ہمارے منہ پر کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا منصوبہ غیر بنگالیوں کی نسل
کو ختم کرنا ہے اور آپ غیر بنگالی ہیں ۔۔۔ایک جگہ وارث میر نے پروفیسر
گوبند چندردیو کا ذکر کیا ہے جو اس نفرت کی فلسفیانہ اساس مہیا کرتا ہے ۔ "
اس وقت ہم تھرا گئے جب ہمیں سلاٹر ہاؤس دکھایا گیا جہاں غیر بنگالیوں کو
ذبح کیا جاتا اور ایک بڑی میز پر لٹکا کر ان کے جسم سے خون نچوڑکر بڑے بڑے
برتنوں میں جمع کیا جاتا ۔عوامی لیگ کی بغاوت کے بعد گپتیا ڈیم کے غیر ملکی
انجینیروں کو قیامت صغریٰ کا سامنا کرنا پڑا ۔اس علاقے میں آباد تمام
خاندانوں کے مردوں کو ان کے اہل خانہ کے سامنے گولی سے اڑا دیا گیا اور
عورتیں پاگلوں کی طرح گلی کوچوں میں چیختی چلاتی اور بھاگتی پھرتی تھیں ۔محمد
پور اور میرپور کے کیمپوں میں کٹے پھٹے جسموں والی عورتیں ،مکتی باہنی کے
دہشت پسندوں کی غیر انسانی کارروائیوں کی دردناک کہانیاں سناتی تھیں ۔"
وارث میر کا یہ سفرنامہ اس دور میں چھپا جب مشرقی پاکستان پر آرمی ایکشن ہو
رہاتھا اور وہ وہاں گئے تھے ۔یہ ان کا ا س دور کا سچ تھا اور ان سے میری
آخری ملاقات جولائی 1979 میں ہوئی وہ اس وقت تک اسی سچ پر قائم تھے اور
مشرقی پاکستان کے ذکر سے ان کی آنکھیں بھیگ جاتی تھیں اور کہتے مشرقی
پاکستان در حقیقت پاکستان ،بھارت کے ہندوؤں اور پاکستان کمیونسٹ اور قوم
پرست دانشوروں کی مسلسل محنت سے ٹوٹا ہے ۔
جناب عامر میر ان ہی وارث میر کے بیٹے ہیں جن خیالات اوپر دیے گئے ہیں ۔
ہمارے پیارے نبی اکرم ﷺ کی ہدایت ہے کہ جب تم میں سے کوئی مر جائے تو اسے
اس کی خوبیوں سے یاد کرو ۔ عامر میر کی اس خبر کا ذرا یہ جملہ ملاحظہ
فرمائیں "جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے متنازع امیر غلام اعظم جن کو1971کی جنگ
کے دوران انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب پر 90سالہ قید کی سزا ہو چکی تھی
23اکتوبر کو اپنی موت کے بعد بھی تنازع پیدا کرتے رہے اور بنگلہ دیشی حکومت
نے ان کی آخری خواہش پوری نہ کی۔"ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے عامر میر کے
کسی دشمن کی موت ہوئی ہے ایسے جلے کٹے الفاظ میں خبر کے بجائے مسرت اور
خوشی کا اظہار کیا گیا ہے ۔پروفیسر غلام اعظم صاحب متنازع تھے نہ انھوں نے
انسانیت کے خلاف کوئی جرم کیا تھا ،اور موت سے قبل تو پھانسی پانے والوں سے
بھی آخری خواہش پوچھی جاتی ہے اور ہر مہذب حکومتیں اس خواہش کو پورا کرتی
ہیں عامر میر کو بنگلہ دیشی حکومت کی اس سنگدلانا کارروائی کی مذمت کرنی
چاہیے تھی کہ اس نے غلام اعظم کی اس خواہش کو جسے وہ پورا کر سکتی تھی نہیں
کیا نہ کہ انھوں نے ایک وفات پانے والے فرد پر یہ الزام لگایا کہ وہ اپنی
موت کے بعد بھی تنازع پیدا کرتے رہے آخری خواہش کا اظہار تو ہر مرنے والے
فرد کا حق ہوتا ہے جو وہ کرتا ہے ۔پھر اٹارنی جنرل محبوب عالم کا یہ کہنا
کہ ایک جنگی مجرم کی خواہش پر یقین کرنا مشکل ہے حسینہ واجد ی حکومت کے
اندرونی خوف کی نشاندہی کررہی ہے اور پھر یہ ایک پاکستانی صحافی کو تو
پاکستان کی حمایت کرنے والوں کی وکالت کرنا چاہیے نہ کہ وہ پاکستان توڑنے
والوں کی وکالت کررہے ہیں ۔ یہ پوری نیوز رپورٹ انتہائی تعصب پر مبنی ہے کہ
عامر میر صاحب کو شاید یہ بات یاد نہیں یا وہ جان بوجھ کر اسے بھول گئے کہ
1973میں بھٹو صاحب اور مجیب الرحمن کے درمیان ایک تحریری معاہدہ ہوا تھا کہ
کسی فرد پر کسی بھی قسم کے جنگی جرائم پر کوئی مقدمہ نہیں چلایاجائے گا ،کیونکہ
اس سے قبل مجیب الرحمن کی حکومت تقریباَ دوسو کے لگ بھگ ایسے فوجی افسران
کی ایک فہرست بناچکی تھی جن پر مجیب حکومت جنگی جرائم کے تحت مقدمہ چلا کر
انھیں پھانسی کی سزا دینا چاہتی تھی اور یہ جنگی افسران اس وقت بھارت کی
قید میں تھے ۔حسینہ واجد تو اپنے باپ کے کیے ہوئے معاہدے کی خلاف ورزی
کررہی ہیں ۔اور پھر یہ کہ 16دسمبر 1971سے پہلے تو یہ سب کچھ پاکستان کا تھا
یا یوں سمجھ لیں کہ اصل پاکستان اپنی جگہ پر قائم و دائم تھا ۔جن لوگوں نے
متحدہ پاکستان کی حمایت کی وہ اصلاَ پاکستان کے وفادار تھے ۔پھر بنگلہ دیش
میں جنگی جرائم کا جو ٹریبونل بنایا گیا ہے وہ خود متنازعہ ہے اس پر حامد
میر صاحب بھی کالم لکھ چکے ہیں اس کی حیثیت تو کنگرو کورٹ سے بھی بدتر ہے ،جس
میں صفائی کا موقع دیے بغیر سزائیں سنا دی جاتی ہیں۔غلام اعظم کی آخری
خواہش یہی تو تھی نا کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر مطیع الرحمن نظامی
یا ایک اور جماعت کے رہنما دلاور حسین سیدی ان کی نماز جنازہ پڑھائیں ۔یہ
کون سی ایسی بات تھی کہ اس سے تنازع پیدا ہو گیا تنازع تو خود حکومت بنگلہ
دیش نے اس کی اجازت نہ دے کر پیدا کیا ۔اس غیر معیاری اور ناقص نیوز رپورٹ
میں ایک اور سنگدلانہ غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ غلام اعظم کے
رشتہ دارانھیں مارنا چاہتے تھے اور بنگلہ دیشی حکومت انھیں زندہ رکھنا
چاہتی تھی۔پھر ایک غلط بات یہ بھی کی گئی وہ سقوط ڈھاکا سے قبل مشرقی
پاکستان سے مغربی پاکستان آگئے جب کے حقیقت یہ ہے کہ وہ جماعت اسلامی کی
شوریٰ کے اجلاس میں شرکت کے لیے آئے تھے کہ سقوط کا سانحہ ہو گیا ۔
آخر میں ہم یہی کہنا چاہیں گے کہ عامر میر صاحب اپنے والد کا سفرنامہ ضرور
پڑھ لیں ۔اور پھر اپنی رپورٹ کو دوبارہ دیکھ لیں کہ انھوں نے یہ خبر کس
انداز میں اور کس طرح بنائی ہے پروفیسر غلام اعظم متحدہ پاکستان کی علامت
تھے اور ہمیں ان کی وفات کو ایک پاکستانی کی وفات سمجھنا چاہیے۔ |