کتنی خوش قسمت ہوتی ہیں وہ قومیں جن کو ایسے گوہرنایاب
میسر ہوتے ہیں جو اپنی خداد صلاحیتوں اور بے پناہ محنت و جذبے سے قوموں کی
زندگی میں ایک نئی روح پھونک دیتے ہیں -
ان کو احساس دلاتے ہیں کہ تم کسی سے کم نہیں اگر دشمن نے تمھاری طرف میلی
آنکھ سے دیکھا تو اب اس کی آنکھیں نکال دی جائیں گی اور کیسی عالی بخت ہوتی
ہیں وہ قومیں جن میں ایسے لوگ موجود ہوں جو اس کے بڑے بڑے مسائل کونہ صرف
اپنی بہترین حکمت عملی سے حل کردیں بلکہ اس کمزوری کو ہی طاقت میں بدل دیں
۔جی ہاں آپ درست سمجھے ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک ایسا ہی قدرت کا پاکستان کو
عطاکردہ گوہر ہیں جنہوں نے ایک ایسے وقت میں قوم کو ایٹم بم کا تحفہ دے کر
ایک بلند مقام پر کھڑا کیا جب پورا عالم کفر بھوکے بھیڑیوں کا طرح پاک
سرزمین پر اپنی مکروہ نظریں گاڑھے کھڑا تھا جس کا یک ثبوت بھارت ،اسرائیل
اور امریکہ کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں 71میں مشرقی پاکستان کی ہم سے جدائی کی
شکل میں ہمارے سامنے آچکا تھا مگر اس سے پہلے کہ یہ مکروہ قوتیں وطن عزیزکو
مزید نقصان پہنچاتیں پاکستان 1998میں ایٹمی دھماکے کرکے ایٹمی بلاک کا حصہ
بن گیا جس کے بعد اس صیہونی تکون کی یہ جرأت تونہ ہوسکی کہ وہ پاکستان کے
خلاف براہ راست مزید کوئی فوجی کاروائی کرسکے البتہ اس نے سازشوں کے کئی
نئے راستے تلاش کرلئے جس کے ذریعے پاکستان کو اندرہی اند کمزور کرنے کیلئے
اپنے گماشتوں کو استعمال کیا جانے لگا جنہوں نے کبھی تو ملک میں ناجائز
ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ کے ذریعے ملک میں مہنگائی کاطوفان لاکر عوام کی
زندگیاں اجیرن کیں تو کبھی اس لابی نے کالاباغ ڈیم جیسے انتہائی کلیدی
منصوبوں کو سیاست کی نذر کرکے قوم کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ،کبھی ارضِ وطن
کے ازلی دشمن ٹرائیکا نے ارض وطن میں دہشتگردی کرکے قیمتی جانیں ضائع کیں
تو کبھی یہ اپنی خاص لابی کے ذریعے فوج،عوام اور علمائے کرام میں فاصلے
بڑھانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور ان تمام تر سازشوں کا مقصد ملک کو عدم
استحکام سے دوچار کرنا ،یہاں خانہ جنگی کروانا اور آخر میں پاکستان کو
عالمی برادری سے ایسی غیرذمہ دار،غیر محفوظ اور ناپسندیدہ ریاست قراردلوانا
ہے جسے ایٹم بم اپنے پاس رکھنے کا کوئی حق نہیں ۔مگر حکومت بھی یقیناََ ان
چیزوں سے قطعاََ غافل نہیں اسی لئے ہی سب سے پہلے تو ضرب عضب کا آغاز کیا
گیا جس نے پاکستان میں بھارتی غنڈوں کا تقریباََ قلع قمع کردیا ہے مگر اب
بھی پاکستان کو معاشی میدان میں کئی چیلنجز درپیش ہیں جن سے پاکستان کو جلد
ازجلد نبردآزما ہونا ہوگا کیوں کہ 2007ء سے پاکستان میں جاری توانائی بحران
نے عوام کی تو چیخیں نکالی ہی ہیں لیکن اس کیساتھ ساتھ پاکستان سے بیرون
ممالک منتقل ہونے والی سرمایہ کاری اور بیرون ممالک سے یہاں آنے والے
سرمایہ میں رکاوٹ پیش آنے سے پاکستان بہت پیچھے چلاگیا ہے اور اب اگر
ہنگامی طور پر ملک میں جاری بدترین توانائی بحران حل نہ کیا گیا تو پھر بہت
دیر ہوجائے گی اور ایک بار پھر پاکستان کی خوش قسمتی ہے ڈاکٹر عبدالقدیرخان
کی شکل میں ایسی شخصیت موجود ہے جواس بحران سے پاکستان کو نکالنے کی
بھرپوراورمکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ مجھ سمیت پاکستانی قوم کا ایک بڑا اور محب
وطن طبقہ ایمان کی حد تک یہ سمجھتا ہے کہ اگر 1998ء کے ایٹمی دھماکوں کے
بعد ڈاکٹر صاحب کو توانائی شعبے کا اسی طرح بااختیار انچارج بنادیاجاتا جس
طرح ایٹم بم بنانے کیلئے انہیں فری ہینڈدیاگیا تھا تو آج پاکستان نہ صرف اس
بحران کا سامنا نہ کررہا ہوتا بلکہ پاکستان دوسرے ممالک کو بھی بجلی فروخت
کرنے کی پوزیشن میں ہوتا مگر یہ کیسے ہوتاامریکہ کو تو پاکستان کا ایٹمی
پروگرام ہی ہضم نہیں ہورہاتھا اسی لئے تو اس نے اپنے پٹھو پرویز مشرف کے
ذریعے ڈاکٹر صاحب کو ہیرو سے زیرو بنانے کی ناکام کوشش کی مگرخدا کی قدرت
دیکھئے کہ ڈاکٹر صاحب آج بھی پاکستانی عوام کے دلوں کی دھڑکن اور ہیرو ہیں
جبکہ وہی مشرف گمنامی اور ذلت کے گڑھوں میں گرچکا ہے آج بھی وقت ہے کہ
حکومت ڈاکٹر صاحب کو پاکستان میں توانائی بحران کے خاتمے کا ٹاسک دیدے اور
خدا را ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا لے خصوصاََ ایک ایسے وقت میں جب کہ
امریکہ و روس جیسے ممالک بھارت میں جوہری ری ایکٹر تعمیر کرکے اس کی مسلسل
مدد کررہے ہیں ایسے میں ڈاکٹر صاحب کو ضرور سامنے لانا چاہئے اور قوم جانتی
ہے کہ وہ پہلے کی طرح اب بھی انہیں مایوس نہیں کریں گے کیوں کہ ڈاکٹر صاحب
نے اس وقت ایٹم بم بنانے کا کرشمہ کردکھایا تھا جب ہمارے پاس اتنے وسائل ہی
نہ تھے اور اب تو پاکستان میں کوئلہ کے وسیع ذخائر موجود ہیں صرف تھرکول
میں موجود185ارب ٹن کوئلے کو استعمال میں لاکر ہی سالانہ سترہزار میگاواٹ
بجلی پیدا کی جاسکتی ہے،پاکستان میں ہرسال بڑھتی ہوئی گرمی کے عذاب کو رحمت
میں تبدیل کیاجاسکتا ہے شمسی ماہرین کے مطابق پاکستان اپنی اس کڑاکے دار
دھوپ کا بھرپور استعمال کرکے شمسی توانائی کے ذریعے سالانہ ناقابل یقین حد
تک یعنی 20لاکھ میگاواٹ تک بجلی پیدا کرسکتا ہے ،اسی طرح پاکستان 1120
کلومیٹر لمبی ساحلی پٹی پر چلنے والے تیز ہواؤں سے بھی سالانہ
60ہزارمیگاواٹ بجلی پیدا کرسکتا ہے ۔یہ تو توانائی کے حصول کے چند ذرائع کا
ذکر تھا جن پر نہ تو کوئی سیاست چمکا سکتا ہے اور نہ ہی ان کو استعمال کرنے
میں کسی لمبے چوڑے سرمائے کی ضرورت ہے اور نہ ہی یہ منصوبے ایسے ہیں ان کی
تکمیل میں کئی دہائیاں صرف ہوجائیں صرف دیانتداری اور محنت کش قیادت کی
ضرورت ہے اور یہ قیادت ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے بہتر یقیناََ کوئی نہیں ہوگی
ہم حکومت سے بھرپور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر صاحب کو اس سلسلے میں جلد
سے جلد اہم ترین ذمہ داریاں دے اور قوم کو ان پر اعتماد ہے کہ وہ پاکستان
میں موجود تمام ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے مختصر ترین عرصہ میں قوم کو
خوشخبری دیں گے اور پاکستان سے توانائی بحران کا عزاب ہمیشہ کیلئے ختم
ہوجائے گا۔ |