آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آمد سے پہلے کرہ ارضی پر
بڑی مضبوط بادشاہتیں موجود تھیں ۔ مگر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی امت
کو ایک خوبصورت نظام حکومت دیا جسے خلافت کہا جاتا ہے اور خلیفہ کو قبائل
کے سرکردہ اور صاحب الرائے اور دین و شریعت کا علم رکھنے والے بیعت کرکے
چنا کرتے تھے اور بیعت آذادانہ طور پر بغیر کسی دباؤ اور لالچ کے کی جاتی
تھی - حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم کا مفہوم ہے کہ آپ نے فرمایا میری امت
میں ٣٠ سال تک خلافت اسکے بعد بادشاہت ہوگی ۔ اب یہ تیس سال امام حسن علیہ
سلام تک مکمل ہوگئے اسکے بعد جناب معاویہ رضی الله عنہ کو مسند اقتدار ملی
امام حسن سے معاہدے کے نتیجہ میں ۔ معاہدے کی چار شرائط میں سے ایک شرط یہ
تھی کہ جناب امیر معاویہ رضی الله عنہ کی وفات کے بعد اقتدار حضرت امام حسن
علیہ سلام کے حوالے کیا جائے گا اگر وہ اسوقت حیات ہوے۔ اب امام حسن علیہ
سلام کو زہر دے کر شہید کردیا گیا ۔ اب اس زہر کے پیچھے کون تھے ؟ کتب میں
صاف و واضع اشارے ملتے ہیں مگر میں یہاں سکوت کرکے آگے بڑھتا ہوں کیونکہ
امام حسن نے خود زہر والا معاملہ الله پر چھوڑا لہذا میں کون ہوتا ہوں بحث
کرنے والا۔ ابویعلی اپنی مسند میں روایت کرتے ہیں - رسول الله صلی الله
علیہ وسلم نے فرمایا میری امت ہمیشہ عدل وانصاف پر رہے گی یہاں تک کہ بنی
امیہ میں سے ایک شخص اس میں رخنہ ڈالے گا ۔ ( اس حدیث کو اہلحدیثوں کے جید
محدث ناصرالدین البانی نے سلسلہ الاحادیث صحیہ میں صحیح لکھا ہے ) ۔ جناب
امیر معاویہ نے اپنی حیات میں اپنے بیٹے کو ولیعہد مقرر کرکے اسکے حق میں
بیعت لینی چاہی جسے لوگوں نے پسند نہ کیا پھر تلواریں نیام سے نکل آئیں بیت
المال کا منہ کھول دیا گیا یزید کے حق میں بیعت لینے کی خاطر ۔ لوگوں کی
غالب اکثریت تلوروں کے ڈر سے خاموش ہوگئی اور دبک کر گھر بیٹھ گئے مگر چار
صاحب الرائے اشخاص نے کھل کر اس فعل کی ناصرف مذمت کی بلکہ یزید کی بیعت سے
علی الاعلان انکار کیا ۔ ان میں امام حسین علیہ سلام ، عبد الرحمان بن
ابوبکر ، عبدالله بن زبیر اور عبدالله بن عمر رضوان الله اجمعین شامل تھے ۔
یہ کوئی تاریخ کے قصے کہانی نہیں ۔ بخاری بخاری کی رٹ لگانے والوں کو بخاری
اور نسائی سے ایک روایت پیش کرتا ہوں ۔
امام بخاری اور امام نسائی ابن ابی حاتم سے روایت کرتے ہیں - جب مروان حضرت
معاویہ کی طرف سے حجاز کا حاکم ( گورنر ) تھا تو اس نے ایک دن مدینہ منورہ
میں خطبہ پڑھا اور کہا امیرالمئومنین ( معاویہ ) نے ایک اچھی رآئے سوچی ہے
کہ اپنے بیٹے کو خلیفہ بنائیں کیونکہ ابوبکر و عمر رضی الله عنھم نے بھی تو
خلیفہ بنایا تھا اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکر و عمر کے طریقے کے
موافق ہے ( یزید کو ولی عہد مقرر کرنا ) ۔ اس پر حضرت عبدالرحمان بن ابو
بکر نے اٹھکر کہا یہ نہ کہو بلکہ کہو ہرقل و قیصر کے طریقے کے موافق ہے ۔
کیونکہ حضرت ابوبکر رضی الله عنہ نے خلافت کو اپنی اولاد کے لئیے خاص نہیں
کیا اور نہ کسی اپنے رشتہ دار کے لئیے مقرر کیا اور حضرت معاویہ رض یہ کام
شفقت پدری کے تحت کررہے ہیں - مروان نے کہا تو وہی شخص نہیں ہو جس نے اپنے
والدین کو اف کہا تھا - عبدالرحمان بن ابی بکر نے کہا کیا تم لعنتی کے بیٹے
نہیں ہو ۔ تمہارے باپ پر رسول پاک صلی الله علیہ وسلم نے لعنت کی تھی - ام
المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا نے فرمایا ( پردے کے پیچھے سے کیونکہ عبد
الرحمان بن ابی بکر جان بچانے کی خاطر اپنی بہن عائشہ کے گھر گھس گئے تھے
اور آپ نے بہن سے کہا کہ مروان کہتا ہے کہ قرآن میں والدین کو اف نہ کہنے
والی آیت میرے لئیے نازل ہوئی تھی × نوٹ بریکٹ میں وضاحت سمجھانے کی خاطر
اور کتب سے بیان کررہا ہوں ) حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے فرمایا مروان
جھوٹ بولتا ہے کیونکہ قرآن مجید کی آیت ولا تقل لھما اف ولا تنھر
عبدالرحمان کی خاطر نازل نہیں ہوئی بلکہ وہ تو فلاں شخص کے حق میں نازل
ہوئی ہے لیکن رسول پاک صلی الله علیہ وسلم نے مروان کے والد کو لعنت کی تھی
اور مروان اسکی صلب میں تھا تو مروان کو کہو کہ وہ لعنت کا حصہ وصول کرے۔
علامہ جلال الدین سیوطی رح کی تاریخ الخلفاء اور علامہ ابن کثیر کی البدایہ
والنھایہ جلد نمبر ٨ کا مطالعہ کریں تو صحیح روایت سے واضع ہوگا کہ
عبدالرحمان بن ابوبکر کو یزید کی بیعت کے لئیے ایک لاکھ درہم کی رشوت پیش
کی گئی جسے آپ نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ میرا ایمان بکاؤ نہیں ۔ آخرکار آپ
پر دباؤ بڑھایا گیا اور زندگی اجیرن کردی گئی آپ مدینہ سے مکہ چلے گئے مکہ
سے پہاڑوں پر چلے گئے اور ایک دن پہاڑ کی کھوہ میں مردہ پائے گئے ۔ عائشہ
رضی الله عنہا نے آپکا جسد لاکر تدفین کی اور بھائی کی وفات پر بہت روئیں
اور آپ بھائی کی موت کو طبعی ماننے کے لئیے تیار نہ تھیں بلکہ قتل کی قائل
تھیں۔
خشک یزیدی ملاں کہتا ہے حسین علیہ سلام یزید کے خلاف کیوں اٹھے۔ ملاں جی
خلافت پر نقب لگ رہی تھی صحابہ سے بزور شمشیر بیعت لی جارہی تھی بیت المال
سے پیسہ رشوت پر خرچ کیا جارہا تھا کوئی اختلاف کی جرات نہ کرسکتا ۔ تین تک
نمازیں اکٹھی کرکے پڑھائی جانے لگیں ملاں جی جب بادشاہت آجائے تو دین بدلنے
لگتا ہے۔ ایسے میں امام حسین علیہ سلام کربلا کی خاک پر اپنے خون سے
اختلافی نوٹ نہ لکھتے تو کیا کرتے ۔ ( جاری ہے ) |