موت ایک اٹل حقیقت ہے اس سے فراراورانکارممکن نہیں ہے۔
لکھنے کو تواوربھی بہت سے موضوع ہیں۔ تاہم اس عنوان پر اس لیے لکھ رہاہوں
ہم اسے بھول گئے ہیں۔ہر ذی روح نے موت کاذائقہ چکھنا ہے کوئی چاہے کتناہی
اس دنیا میں جی لے ایک دن اس کوموت آنی ہے۔ موت کی تلخی کتنی زیادہ اورشدید
ہے اس کااندازہ اس سے لگائیں کہ کتاب قصص الانبیاء کے صفحہ پچاس پر ہے کہ
اﷲ پاک کے نبی حضرت ادریس علیہ السلام نے تین دن سے آئے ہوئے مہمان سے
تعارف توپوچھا تو اس نے جواب دیا کہ میں عزرائیل ہوں ۔ حضرت ادریس علیہ
السلام نے پوچھا کیا ساری مخلوقات کی جان تم ہی قبض کرتے ہو۔انہوں نے کہا
ہاں حضرت نے فرمایا شاید تم میری جان قبض کرنے آئے ہو۔ عزرائیل نے کہا نہیں
میں توآپ کے ساتھ خوش طبعی کرنے آیاہوں۔ حضرت ادریس علیہ السلام نے فرمایا
آج تین دن سے تومیرے پاس ہے اس عرصے میں بھی تونے کسی کی جان قبض کی۔وہ
بولے کل جان قبض کرناہمارے ہاتھ میں ایسا ہے۔جیساکہ تمہارے دونوں ہاتھوں کے
نیچے روٹی پڑی ہوئی ہے۔ یعنی جس کی اجل آتی ہے اﷲ کے حکم سے ہاتھ بڑھاکرجان
قبض کرلیتاہوں۔اوربولا میں آپ کے ساتھ رشتہ برادری کاکروں۔ حضرت ادریس علیہ
السلام نے فرمایامیں تیرے ساتھ رشتہ برادری کا تب کروں گا کہ تلخی جان کی
ایک بارگی مجھ کوچکھادے۔تاکہ خوف اورعبرت مجھ کوزیادہ ہو۔اورپھرعبادت اپنے
خالق کی زیادہ کروں۔ملک الموت نے کہا کہ اﷲ کی رضا کے بغیر کسی کی جان قبض
نہیں کرسکتا۔تب حضرت ادریس علیہ السلام نے خداوندقدوس کی درگاہ میں عرض
کی۔حکم ہواجان ادریس علیہ السلام کی قبض کر۔عزرائیل نے جان حضرت ادریس علیہ
السلام کی قبض کرلی۔پھر ملک الموت نے خداکی بارگاہ میں دعاکی پھر اﷲ پاک نے
حضرت ادریس علیہ السلام کوزندہ کیا۔حضرت ادریس علیہ السلام نے اٹھ
کرعزرائیل کواپنی گودمیں لے لیا۔دونوں نے آپس میں رشتہ برادری کالگایا۔پھر
ملک الموت نے پوچھا اے بھائی تلخی جان کنی کی کیسی تھی۔بولے جیسے زندہ
جانورکی کھال سر سے پاؤں تک کھینچی جاتی ہے۔ملک الموت نے کہا اے بھائی جیسا
احسان میں نے تیرے ساتھ کیا ہے۔ ایسا کسی کے ساتھ نہیں کیا۔ کتاب موت
کامنظرکے صفحہ ۸۶ پرہے کہ حضرت حسن رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جب اﷲ پاک نے
حضرت آدم علیہ السلام اوران ذریت کوپیداکیاتوفرشتوں نے کہا یااﷲ یہ تمام
ذریت زمین میں نہ سماسکے گی۔فرمایا میں موت کوپیداکروں گا۔فرشتوں نے عرض
کیاموت کوپیداکیاگیا توان کی زندگی خوشگوارنہیں رہے گی۔ اﷲ نے فرمایا میں
امیدکوپیداکروں گا۔اسی کتاب کے صفحہ نمبر۹ میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ
عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا میں تمہیں
دنیا کی حقیقت دکھاؤں میں نے عرض کیا ضرورارشاد فرمائیں۔حضورصلی اﷲ علیہ
والہ وسلم مجھے ساتھ لے کر مدینہ منورہ سے باہر ایک کوڑی پر تشریف لے
گئے۔جہاں آدمیوں کی کھوپڑیاں ، پاخانے، پھٹے ہوئے چیتھڑے اور ہڈیاں پڑی
ہوئی تھیں۔حضور صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے ابوہریرہ یہ
آدمیوں کی کھوپڑیاں ہیں۔یہ دماغ بھی دنیا کی اسی طرح حرص کرتے تھے۔جس طرح
تم سب زندہ آج کل کررہے ہو۔یہ بھی اسی طرح امیدیں باندھا کرتے تھے۔ جس طرح
تم لوگ امیدیں لگائے ہوئے ہو۔آج یہ بغیر کھال کے پڑی ہوئی ہیں اور چندروز
گزرجانے کے بعدمٹی ہوجائیں گی۔یہ پاخانے وہ رنگ برنگ کے کھانے ہیں جن کوبڑی
محنت سے کمایا حاصل کیا پھران کوتیارکیا اورکھایا۔اب یہ اس حال میں پڑے ہیں
کہ لوگ اس سے (نفرت کرکے) دوربھاگتے ہیں۔وہ لذیذ کھانا جس کی خوشبو دور سے
لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی تھی۔آج اس کا منشا یہ ہے کہ اس کی بدبوسے
لوگوں کو اپنے سے متنفرکرتی ہے۔یہ چیتھڑے وہ زینت کالباس تھا۔جس کو پہن
کرآدمی اکڑتا تھا۔آج یہ اس حال میں ہے کہ ہوائیں اس کو ادھرسے ادھرپھینکتی
ہیں۔یہ ہڈیاں ان جانوروں کی ہیں جن پر یہ سواریاں کرتے تھے۔ گھوڑوں پر بیٹھ
کر مٹکتے تھے۔اوردنیا میں گھومتے تھے۔ بس جسے ان احوال پراوران کے عبرتناک
انجام پرروناہو وہ روئے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں ہم سب بہت
روئے۔موت تو سب کو آنی ہے کوئی اس سے بچاہے نہ بچے گا۔تاہم ہرانسان کی موت
برابرنہیں۔ موئمن کی روح نرمی سے اورکافرکی سختی سے قبض کرتے ہیں۔اﷲ کے نیک
بندوں کی روح ایسے قبْض کی جاتی ہے جیسے آٹے میں سے بال نکالا جائے۔
اورکافرکی روح ایسے قبض کی جاتی ہے جیسے کانٹوں والی لکڑیوں پر کپڑا ڈال
کرکھینچا جائے۔ہمارے ضلع لیہ سے تعلق رکھنے والے معروف عالم دین علامہ اﷲ
بخش نیر رحمۃ اﷲ علیہ اپنی تقریروں میں کہا کرتے تھے کہ اولیاء کاملین
اورعلماء کرام کی موت اﷲ کی دعوت ہے۔مسلمان کی موت اﷲ کا سمن ہے اورکافر کی
موت اﷲ کا وارنٹ ہے۔ٹرکوں اوردیگر ٹرانسپورٹ پر یہ شعر لکھا ہواہوتا ہے کہ
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
ساماں سوبرس کا پل کی خبر نہیں
یہ بات سراسر غلط ہے کہ اپنی موت سے کوئی بشر آگاہ نہیں ہے۔ اﷲ کے نیک
بندوں کو پہلے سے علم ہوتاہے کہ کب ان کا آخری وقت آئے گا۔اﷲ کے ایسے بندے
بھی ہیں جواشاروں میں بتاجاتے ہیں کہ اب وہ اس دنیا سے جانے والے ہیں۔دنیا
والوں کوان کے ان اشاروں کی اس وقت سمجھ آتی ہے جب وہ اس دنیا سے چلے جاتے
ہیں۔کتاب خطبات محرم کے صفحہ ۳۶ پر ہے کہ حضرت ابوسعید خدری رضی اﷲ عنہ
فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہ وسلم اپنی اس علالت میں جس میں آپ
صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے وصال فرمایاگھرسے باہر تشریف لائے اس حال میں کہ
سرپر کپڑا باندھے ہوئے تھے۔منبرکی طرف تشریف لے گئے۔ اس پر رونق
افروزہوئے۔پھر آپ صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے ایک خطبہ دیا اور فرمایا قسم ہے
اس ذات کی۔جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔میں اس منبر پربیٹھے ہوئے حوض
کوثر دیکھ رہا ہوں۔پھر فرمایا خدااک ایک بندہ ہے۔ جس کے سامنے دنیا اوردنیا
کی زینت پیش کی گئی۔ مگر اس نے آخرت کواختیارکرلیا۔حضرت ابوسعید خدری رضی
اﷲ عنہ کا بیان ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے اس ارشاد کوحضرت
ابوبکرصدیق رضی اﷲ عنہ کے علاوہ کوئی نہ سمجھ سکا۔ان کی آنکھوں سے آنسو
جاری ہوگئے اور روپڑے اورعرض کیا یارسول اﷲ ہم اپنے ماں باپ کے ساتھ آپ
پرقربان ہوجائیں۔صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین حجرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ
عنہ کی اس بات کوسن کر متعجب ہوئے کہ وہ ایسا کیوں فرمارہے ہیں۔یہاں تک کہ
بعض نے کہا کہ اس بوڑھے کودیکھو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہ وسلم توایک بندہ
کا حال بیان فرمارہے ہیں۔جس کو خدائے عزوجل نے دنیا کی تروتازگی اور آخرت
کے درمیان اختیاردیا ہے۔اور وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم اورہمارے ماں باپ آپ
قربان ہوجائیں۔لیکن رازدارنبوت اسی وقت سمجھ گیا تھا کہ وہ بندہ خود
حضورنبی کریم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم ہیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم
نے فرمایا اے میرے صحابیو۔بلال سے کہو کہ وہ سارے مدینہ میں اعلان کردیں کہ
صرف دوروز رسول خدا صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے باقی ہیں۔ اورساتھ ہی یہ بھی
کہہ دیں کہ جس شخص کو دعوی کسی قسم کا مجھ پرہووہ آکر مجھ سے وصول
کرلے۔اوراپنا حق قیامت کے دن تک موقوف نہ رکھے۔پاکستانی سیاست کے
نامورکردارپیر آف پگاڑانے کہا تھا کہ میری زندگی میں انتخابات نہیں ہوں
گے۔ان کے اس بیان کویوں سمجھا گیاکہ اب انتخابات ہوں گے ہی نہیں۔جب وہ فوت
ہوئے توپھر یہ بات لوگوں کی سمجھمیں آئی کہ وہ انتخابات سے پہلے ہی اس دنیا
سے چلے جائیں گے۔راقم الحروف اپنے رشتہ داروں کے گھر گیا شام کے وقت اپنی
پھوپھی سے اجازت لینے لگاتو اس نے کہا کہ زندگی کا کوئی پتہ نہیں کل چلے
جانا۔راقم الحروف اسی گھرمیں سوگیا۔نمازفجر کی اذانیں ہورہی تھیں کہ خالہ
نے آکر بتایا کہ تیری پھوپھی فوت ہوگئی ہے۔سابق ناظم یونین کونسل لیہ سٹی۳
ساجد اخلاق خان کو عارضہ قلب کی وجہ سے ہسپتال لے کرجارہے تھے راستے میں ہی
کہا کہ میری کوئی غلطی ہوتومعاف کردینا۔ہسپتال جاتے ہی فوت ہوگئے۔ان کی
نماز جنازہ کے وقت سابق کونسلر شیخ خالداقبال گھڑا بتارہے تھے کہ حج پرجانے
سے پہلے کہہ رہے تھے کہ یہ میراآخری حج ہے۔اسی طرح اوربھی مثالیں موجودہیں
صرف نمونہ کے طورپر یہ مثالیں لکھ دی ہیں۔اس سے یہ ثابت ہوا کہ یہ بات غلط
ہے کہ آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں۔یہ شعر یوں لکھا اورپڑھا جائے
آگاہ اپنی موت سے ہربشر نہیں
موت سے فرارممکن نہیں تاہم اس کی آرزوبھی نہیں کی جاسکتی۔کتاب قانون شریعت
کے صفحہ نمبر۱۷۶ پر ہے کہ حدیث شریف میں ہے کہ لذتوں کی کاٹنے والی موت
کوکثرت سے یاد کرومگرکسی مصیبت پر موت کی آرزو نہ کرے کہ اس کی ممانعت
ہے۔اورناچارکرنی ہی ہے تویوں کہے یااﷲ مجھے زندہ رکھ جب تک زندگی میرے لیے
خیر ہواورموت دے جب موت میرے لیے بہترہو۔مرنا ہر انسان نے ہے تاہم
خودکومارنا خودکشی کرنا بھی حرام ہے۔اپنی زندگی کا خود خاتمہ کرلینا
انسانیت نہیں ہے۔علماء کہتے ہیں کہ جواس دنیا میں خود کشی کرے گا بروزقیامت
وہ اسی دوزخ میں خود کشی کرتا رہے گا۔موت برحق ہے تاہم کسی کوقتل کرنا بھی
بہت بڑا جرم ہے۔ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کاقتل ہے۔اﷲ پاک نے فرشتوں
کوزمین پر بھیجا کہ اس سے مٹی لے آئیں اس سے آدم کوبنایا جائے۔ جبرائیل،
میکائیل اوراسرافیل مٹی نہ لاسکے۔عزرائیل لے گیا۔اﷲ پاک نے فرمایا آدم کی
مٹی بھی تولایا ہے اس کی جان بھی توقبض کرے گا۔اس پر ملک الموت نے کہا یااﷲ
لوگ مجھ کوبرا کہیں گے۔اﷲ پاک نے فرمایا میں اسباب پیدا کردوں گا تیرا نام
کوئی نہیں لے گا۔جب بھی کسی کی وفات کی خبر شائع ہوتی ہے تواسباب بھی ساتھ
شائع ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ جب کسی کو کسی کے فوت ہونے کی اطلاع دی جاتی ہے
تو اسباب پوچھے جاتے ہیں۔حرکت قلب بند ہوجانا، دل کا دورہ پڑنا، زہر کھا
لینا، شراب نوشی کرنا ، منشیات کا استعمال کرنا، حادثات، فائرنگ، خود کش
حملے ،بم دھماکے،درندوں کا کھا جانا ، سانپوں کاڈسنا، دریا، سمندراورسیلاب
میں ڈوب جانا، آگ میں جل جانا اور تختہ دار پراموات کے عام اسباب ہیں۔ موت
کے وقت انسان کے بھرم کھل جاتے ہیں۔سابق ممبر قومی اسمبلی جماعت اہلسنت کے
نامورعالم دین وخطیب پیر سیّد خورشید احمد شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ اپنی
تقریروں میں کہا کرتے کہ جب بھی موت کا ذکر ہوتاحضرت عثمان رضی اﷲ عنہ بہت
روتے تھے۔پوچھنے پر فرمایا مرتے وقت انسان کے سارے بھرم کھل جاتے ہیں۔انسان
نیک ہو تو اس کا چہرہ نورانی ہوتا ہے۔اور گناہ گارہوتو چہرے کا رنگ سیاہ
ہوجاتا ہے۔بعض مردوں کی حالت تو یہ ہوتی ہے کہ آخری دیداربھی نہیں کرنے دیا
جاتا۔افسوس تو سب اموات پر کیا جاتاہے تاہم ایسی اموات بھی ہوتی ہیں زندوں
کوان کے اس طرح اس دنیا سے چلے جانے پررشک آتاہے۔نمازاداکرتے ہوئے روح
پروازکرجائے تواس سے بڑی خوش نصیبی نہیں اورجس کو آخری وقت میں دیدارمصطفی
ہوجائے تواس سے بڑا خوش نصیب بھی کوئی نہیں۔جس کو اﷲ کی راہ میں دشمن اسلام
سے لڑتے ہوئے موت آجائے وہ شہادت ہے اورشہید زندہ ہوتا ہے۔موت کا وقت
مقررہے مگر یہ ظاہر نہیں کیاگیا۔ اگر ظاہر کردیا جاتا توانسان دنیا کی
رعنائیوں سے لطف اندوز نہ ہوسکتا۔اس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ انسان اﷲ
اور رسول کریم کی نافرمانی نہ کرے۔کہ کہیں موت نہ آجائے۔موت زندگی کے کسی
بھی مرحلے اورکسی بھی لمحے آسکتی ہے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ فلاں کو اچانک
موت آگئی ۔ موت اچانک نہیں آیا کرتی اپنے مقررہ وقت پر آیاکرتی ہے۔اگر کسی
کو معلوم ہوجائے کہ فلاں دن اس کو موت آجائے گی تواس کی زندگی اجیرن ہوجائے
گی۔یہ بات اپنی جگہ درست اوربرحق ہے کہ موت کا وقت تبدیل نہیں
کیاجاسکتا۔تاہم صدقہ خیرات کرنے بھوکے کوکھانا کھلانے ، پیاسے کو پانی
پلانے اورضرورت مندکی ضرورت پوری کرنے سے اﷲ زندگی میں اضافہ کیا جاتاہے۔آج
معاشرے میں غلط کاموں اوربرائیوں کادوردورہ ہے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم موت
کو بھول گئے ہیں۔روزانہ فوتگی کے اعلانات سنتے ہیں نمازجنازہ اداکرتے ہیں،
قل خوانی میں شرکت کرتے ہیں،اپنے عزیزواقارب کو اپنے ہاتھوں سے دفن کرتے
ہیں ہمیں موت پھر بھی یاد نہیں آتی۔ ہم یہی سجمھتے ہیں کہ صرف اس نے مرنا
تھا ہم نے نہیں مرنا۔ہمیں موت کا یقین بھی ہے اوریاد بھی نہیں۔یہی کائنات
کی سب سے بڑی سچائی ہے۔ ہمیں موت یاد ہوتوہم برے کاموں کے نزدیک بھی نہ
جائیں۔ شریعت مطہرہ پر عمل کریں۔موت کی تلخی کم کرنے کے لیے برے نظریات،
برے عقیدے، برے خیالات، برے کاموں ، برے مذہب ، برے منصوبوں اورنرے ارادوں
سے اجتناب کرنا ہوگا۔عزت کے ساتھ دفن کیا جانا اورآگ میں جلادیا جانا عزت
اور ذلت کی نشانیاں ہیں۔نمازجنازہ اورقل خوانی میں شرکت صرف اورصرف اﷲ کی
رضا اورعبرت حاصل کرنے کے لیے کیا کریں۔ |