خوابوں کی جنّت
(M.Ibrahim Khan, Karachi)
پاکستانی معاشرے اور خوابوں کا
چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کیوں نہ ہو؟ پاکستان بجائے خود ایک خواب کی تعبیر کی
صورت منصۂ شہود پر نمودار ہوا۔ خواب عظیم تھا اور تعبیر عظیم تر۔ ہم نے
خواب کو تو خیر بہت پہلے بُھلادیا تھا، اب تعبیر کا بھی وہ حشر کیا ہے کہ
اگر علامہ اقبالؔ کی روح کو اندازہ ہوجائے تو کہیں سے ٹائم مشین کا انتظام
کریں اور اُس کے ذریعے ماضی میں جاکر وہ خواب ہی نہ دیکھیں جس کی تعبیر آج
اُنہیں خُون آنسو رُلانے کے لیے کافی ہے!
خواب کیوں نہ دیکھے جائیں؟ جو کچھ بھی سنگین حقائق کی دُنیا میں ممکن نہیں
وہ خوابوں کی حسین وادیوں میں ممکن سے بڑھ کر ہے۔ اِنسان زندگی بھر محنت
کیوں کرتا ہے؟ زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانے کے لیے۔ خوابوں کے ذریعے
اگر چند آسانیاں آسانی سے میسر آجائیں تو خواب تو اچھے ہوئے نا!
ویسے تو ہمارے ہاں خواب کون نہیں دیکھتا مگر اپنے خوابوں کو بیان کرنے کا
حوصلہ کم ہی لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ منظور وسان اپنے خوابوں کو سات پردوں
میں لپیٹ کر ایک طرف نہیں رکھ دیتے بلکہ بخوشی بیان کرتے ہیں۔ یہ نہ سمجھیے
گا کہ وہ خوابوں کے ذریعے خبروں میں in رہنا چاہتے ہیں۔ منشاء غالباً یہ
ہوتا ہے کہ ایک عام آدمی سیاسی تبدیلیوں کو آسانی سے سمجھ لے۔ ہم منظور
وسان صاحب کے احسان مند ہیں کہ باقاعدگی سے خواب دیکھتے ہی نہیں، بیان کرکے
ہمارے لیے کچھ آسانی بھی پیدا کرتے ہیں۔ منظور وسان صاحب کے بیان کردہ
خوابوں سے چند نکات کشید کرکے ہم قلم گھسیٹتے ہیں اور داد پاتے ہیں۔
منظور وسان فرماتے ہیں کہ اُنہوں نے خواب دیکھا ہے کہ عمران خان جلد دھرنا
ختم کریں گے اور متحدہ بھی جلد دوبارہ سندھ حکومت کا حصہ بنے گی۔ ساتھ ہی
اُنہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ شیر کا شکار صرف پیپلز پارٹی کرسکتی ہے۔
پیپلز پارٹی میں اب ذہانت رکھنے والوں کی شدید کمی ہے۔ جوش میں ہوش کھونے
والے بہت ہیں۔ منظور وسان کو داد دینا پڑے گی کہ وہ خواب دیکھنے کے معاملے
میں بھی ہوش کا دامن نہیں چھوڑتے! یعنی بہت سوچ سمجھ کر، عین اُس وقت خواب
دیکھتے ہیں جب تعبیر کی ضرورت ہی باقی نہ رہی ہو! سیاست نے منظور وسان کو
بخوبی سکھا دیا ہے کہ اُتنا سوچو جتنا ضروری ہو اور اُتنے ہی خواب دیکھو
جتنے ڈھنگ سے بیان کئے جاسکتے ہوں۔ منظور وسان اچھی طرح پکی ہوئی صورتِ حال
کے خواب دیکھنے میں یدِ طُولیٰ رکھتے ہیں۔
شریف امروہوی کو اِس بات پر اعتراض ہے کہ منظور وسان صوبائی وزیر جیل خانہ
جات ہونے کے باعث خوابوں کی کال کوٹھڑی میں قید رہتے ہیں۔ آنکھیں کھول کر
حقیقت کی فضا میں سانس لیں، آئینے میں اپنا سراپا دیکھیں تو کچھ اندازہ ہو
کہ کتنے پانی میں ہیں۔ ہم نے شریف امروہوی کو منظور وسان کا تازہ ترین خواب
سُنایا تو کہنے لگے۔ ’’منظور وسان خوابوں کی کال کوٹھڑی میں ہیں اور خود
اُن کی پارٹی غلط فہمیوں یا خوش فہمیوں کی سلاخوں کے پیچھے ہے۔ کارکن بھی
خوابوں اور خیالوں کی منزل میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ ہمیں تو حیرت ہے کہ
منظور وسان نرم و نازک اور بے ضرر قسم کے خواب کیونکر دیکھ لیتے ہیں۔ حقیقت
یہ ہے کہ اب پیپلز پارٹی کا سُنہرا دور بھی خواب و خیال ہوکر رہ گیا ہے اور
پارٹی کے بہت سے رہنما اپنے ہی کارکنوں کے لیے ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہوگئے
ہیں!‘‘ شریف امروہوی صاحب کی ہر بات سے ہمارا یا آپ کا متفق ہونا ضروری
نہیں۔ ویسے ہمیں شریف امروہوی صاحب کا بھی شکر گزار ہونا چاہیے کہ بعض
حقائق بڑی روانی اور بے خوابانہ انداز سے بیان کرجاتے ہیں!
خواب تو شاہ سائیں یعنی سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ بھی دیکھتے
ہیں۔ فرق صرف اِتنا ہے کہ منظور وسان نیند کو زحمت دیتے ہیں جبکہ شاہ سائیں
دِن کے اُجالے میں، کُھلی آنکھوں سے بھی خواب دیکھ لیتے ہیں! سیاسی روحانیت
کا یہ بہت بڑا درجہ ہے۔ ابنِ انشاء نے اپنے مشہور اِنشائیے ’’اُستادِ
محترم‘‘ میں اپنے محترم اُستاد کے جو ’’اوصاف‘‘ گِنوائے ہیں اُن میں بیٹھے
بیٹھے کچھ دیر کے لیے نیند کے مزے لینے اور پھر اُٹھ بیٹھنے کا ’’کمال‘‘
بھی شامل تھا۔ یہ ’’خوبی‘‘ اﷲ نے شاہ سائیں کو بھی عطا کی ہے۔ وہ بھی دِن
کے اُجالے میں، حالتِ بیداری میں بھی نہ صرف یہ کہ نیند کی مطلوبہ dose لے
لیتے ہیں بلکہ اِسی دوران خواب بھی دیکھ لیتے ہیں۔ شاہ سائیں فرماتے ہیں کہ
بھائیوں میں تو ناچاقی اور ناراضی چلتی رہتی ہے۔ ہم شاہ سائیں سے اختلاف کے
اظہار کا تو حوصلہ نہیں رکھتے مگر اِتنا ضرور پوچھنا چاہیں گے کہ بھائیوں
میں ناچاقی و ناراضی ضرور پائی جاتی ہے مگر یہ ضروری تو نہیں کہ موقع ملتے
ہی ایک دوسرے کے لیے برادرانِ یوسفؑ ثابت ہونے کی کوشش کی جائے!
شیر کے شکار پر نکلنے والی بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔ منظور وسان نے
وضاحت نہیں فرمائی کہ یہ محض بیان ہے یا اُنہوں نے ’’باضابطہ‘‘ خواب دیکھا
ہے کیونکہ ایسا تو اب محض خواب ہی دیکھا جاسکتا ہے۔ جو پارٹی اب خود معمولی
درندوں کا شکار بنتی جارہی ہے وہ بھلا شیر کے شکار پر کیا نکلے گی؟ اور اگر
شریف امروہوی صاحب کی طرح حقیقت بیانی سے کام لیا جائے تو کہنا پڑے گا کہ
اب پیپلز پارٹی پنجرے میں بند شیر کو بھی آسانی سے شکار کرنے کی پوزیشن میں
نہیں۔
ہم منظور وسان صاحب کے خواب پر طبع آزمائی کر رہے تھے کہ شاہ سائیں کے
بھارت کی ملنے والی سرحد سے ملحق علاقے نگر پارکر کے دورے کی خبر آئی۔
معلوم ہوا کہ اِس دورے میں اُنہوں نے پورا دن سوکر گزار دیا! خوراک کی قلت
سے دوچار غریب عوام امداد کے منتظر رہے۔ شاہ سائیں خوابِ خرگوش کے مزے
لوٹنے کے بعد بیدار ہوئے، مختصر خطاب کیا اور امداد تقسیم کئے بغیر ہی چل
دیئے۔
چینلز پر یہ خبر پڑھ کر ہم سوچتے ہی رہ گئے کہ شاہ سائیں نے نگر پارکر میں
خوابِ خرگوش کے مزے لُوٹتے ہوئے کون سا خواب دیکھا ہوگا۔ شاہ سائیں اب عمر
کے اُس مرحلے میں ہیں جہاں اُنہیں زیادہ سے زیادہ آرام کرنا چاہیے۔ وہ جب
بیداری کی حالت میں ہوتے ہیں تو خاصے ’’باہوش‘‘ انداز سے گفتگو یا خطاب
کرکے سُننے والوں کے حواس لُوٹ لیتے ہیں۔ اور آنکھیں جاگتے رہنے پر آمادہ
نہ ہوں تو شاہ سائیں خوابِ خرگوش کے مزے لُوٹتے ہیں۔ یہ بھی اﷲ کا کرم ہے
کہ شاہ سائیں حواس یا پھر خوابِ خرگوش کے مزے لوٹتے ہیں، ورنہ آج کل تو
اہلِ سیاست نے ملک کی ہر چیز کو لُوٹ کا مال سمجھ رکھا ہے!
منظور وسان خواب دیکھنے کے ٹاسک کا کچھ حصہ ’’آؤٹ سورس‘‘ کردیں یعنی شاہ
سائیں تو دے دیں تو کچھ ہرج نہیں۔ ایک مثالی وزیر اعلیٰ ایسا ہی ہونا چاہیے
جو کسی بھی ٹینشن کو ذہن یا دل پر نہ لے اور حکومت کے اہم ترین اتحادیوں کے
ناراض ہوجانے پر بے فکری و بے نیازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈٹ کر سوتا رہے۔
جب غالبِؔ خستہ کے بغیر کام بند نہیں ہوئے تھے تو ایک شاہ سائیں کے ذرا سے
سو لینے سے کون سی قیامت آجائے گی!
سندھ میں پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے تلخ و شیریں تعلقاتِ کار نے
اب ہر ذی ہوش کے لیے لازم سا کردیا ہے کہ آنکھیں بند کرکے اپنے تمام
تمنّاؤں کی تکمیل کا خواب دیکھتا رہے۔ ترقی و خوش حالی کی منزل تک پہنچنے
کا اور کوئی راستہ بچا ہی نہیں۔ کوئی یہ نہ سوچے کہ وزیر اعلیٰ اور وزیر
جیل خانہ جات خوابوں کی جنّت میں مزے کر رہے ہیں۔ عوام کو بھی اِس راہ پر
گامزن ہونے سے کسی نے نہیں روکا۔ اُن کے لیے بھی خوابوں کی جنّت میں آباد
ہونے کا آپشن موجود اور intact ہے۔ جس کا جی چاہے وہ اِس جنّت کی سَیر کرکے
حالات کے جبر سے اُسی طور آزاد ہوسکتا ہے جس طور وزیر اعلیٰ اور اُن کے
وزیر جیل خانہ جات آزاد ہولیتے ہیں۔ |
|