پروفیسر حکیم نعیم الدین زبیری ۔ایک شخصیت ایک مطالعہ
(Dr Rais Samdani, Karachi)
تاحیات پروفیسر و ڈائریکٹر۔ہمدرد
انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانسڈ اسٹڈیز اینڈریسرچ،ہمدرد یونیورسٹی ،کراچی
(شہید حکیم محمد سعید کے دستِ راست جامعہ ہمدرد کے تاحیات پروفیسر حکیم
نعیم الدین زبیری سے یہ مکالمہ ر اقم الحروف نے اپنی پی ایچ ڈی تحقیق کے
حوالے سے ۲۹ دسمبر ۲۰۰۳ء کوکیا یہ موضوع کی تحقیقی ضرورت تھا۔انٹر ویو
مقالے میں شامل ہے۔ مقالے کا عنوان ہے ’’ پاکستان میں لائبریری تحریک کے
فروغ اور کتب خانوں کی تر قی میں شہید حکیم محمد سعید کا کردار ‘‘ ۔ اس
تحقیق پر راقم الحروف کو ۲۰۰۹ء میں جامعہ ہمدرد سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض
ہوئی۔ پروفیسر حکیم نعیم الدین زبیری میرے ریسرچ سپر وائیزر بھی تھے۔ تحقیق
کی تکمیل میں انہوں نے میری بھر پور رہنمائی کی ۔ جامعہ ہمدرد کے بورڈ آف
ایڈوانس اسٹڈیز اینڈ ریسرچ کے بعض اراکین نے بورڈ کی منٹنگ میں عنوان کی
مخالفت کی جس کے باعث ایم فل سے پی ایچ ڈی میں کنورٹ ہونے میں مشکلات پیش
آئیں اور وقت بھی بہت لگ گیا۔ محترم زیبری صاحب مرحوم نے اس معاملے کو
عمدگی سے اور دلائل کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کی اوروہ اس میں کامیاب ہوئے۔
مقالہ ۲۰۰۶ء میں جمع کرادیا گیا تھا ڈگری ۲۰۰۹ء میں جاری ہوئی جس کی وجہ
جامعہ کے ہی بعض احباب تھے۔ زبیری صاحب اب اس دنیا میں نہیں ۔ مجھے یہ ڈگری
ان کی زندگی میں ہی ایوارڈ ہوگئی تھی۔ اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین)
تعارف :
پروفیسر حکیم نعیم الدین زبیری حکیم محمد سعید اور ہمدردلائبریری کے حوالے
سے ایک معتبر اور منفردمقام رکھتے ہیں۔آپ کو حکیم محمد سعید کے قریبی ساتھی
ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔آپ ۱۹۶۱ء میں ہمدرد سے منسلک ہوئے،حکیم محمد سعید کی
ذاتی لائبریری سے بیت الحکمہ تک تمام مراحل آپ کی زیرنگرانی تکمیل
کوپہنچے۔آپ کی ۳۵ سالہ ہمدرد لائبریری خدمات حکیم محمد سعید اور لائبریری
سے محبت کا واضح ثبوت ہے۔اس وقت زبیری صاحب’ انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانسڈ اسٹڈیز
اینڈریسرچ،‘ہمدرد یونیورسٹی کے ڈائریکٹر ہیں۔لائبریری کے علاوہ تحقیق بھی
آپ کا میدان عمل ہے۔کئی کتابوں اور بے شمارتحقیقی مضامین کے مصنف ہیں۔مقالے
کی تکمیل کے سلسلے میں زبیری صاحب سے کیاگیا انٹرویو ذیل میں درج ہے۔یہ
انٹرویو آپ کے دفتر واقع بیت الحکمہ(ہمدرد یونیورسٹی لائبریری)مدینتہ
الحکمہ میں بروز پیر بتاریخ ۲۹ دسمبر ۲۰۰۳ء کولیاگیا۔
۱: آپ ہمدرد سے کب اورکیسے منسلک ہوئے۔ہمدردسے آپ کا منسلک ہونا ایک مشن
تھا یا محض روزگار؟
ج: ۱۹۶۱ء میں ہمدرد سے منسلک ہوا،میں نے حیدرآباد دکن سے طب کی تعلیم حاصل
کی تھی،پاکستان آکر روزگار کی تلاش تھی،اس وقت تو ہمدرد سے منسلک ہونا محض
ایک روزگار ہی تھا لیکن بعدمیں یہ ایک مشن بن گیا۔
۲
: ہمدردمیں آپ سب سے پہلے کس حیثیت میں آئے اور ہمدرد لائبریری کی سربراہی
تک کے مراحل کس طرح طے کیے؟
ج: میں نے ہمدرد ایک طبیب کی حیثیت سے ہی جوائن کیا تھا لیکن میں اپنے آپ
کو مطب کے ماحول میں فٹ نہیں سمجھتا تھا کیوں کہ میری تعلیم ’دارالعلوم
ندواۃ العلماء ‘ لکھنو میں ہوئی تھی اس وجہ سے پڑھنے لکھنے کی جانب رجحان
تھا،کتاب سے دلچسپی تھی ۔ لائبریری سے قربت اور لائبریری کے تنظیمی معاملات
میں میری دلچسپی کی ایک وجہ یہ بھی بنی کہ حیدر آباد دکن میں امریکن سینٹر
کی لائبریری میں لائبریری کے استعمال پرایک تربیتی کورس منعقد ہوامیں نے اس
کورس میں پورے انہماک سے شرکت کی،اس کورس نے مجھے لائبریری کے قریب کردیا
اورمجھے لائبریری کی تنظیم سے دلچسپی ہوگئی۔میں نے عربی کی ابتدائی تعلیم
بھوپال میں حاصل کی تھی۔طالب علمی کے زمانے میں تاج المساجد بھوپال میں ایک
مدرسہ تھا اس میں ایک لائبریری بھی تھی میں نے اس لائبریری کی ترتیب وتنظیم
بھی کی تھی۔اس طرح میں کتاب اور لائبریری سے محبت کرنے لگا یہی سبب مجھے
مطب سے ہمدرد لائبریری تک لے گیا۔مجھے معلوم ہوا کہ ہمدرد لائبریری کوجو اس
وقت حکیم صاحب کی ذاتی لائبریری تھی لائبریرین کی ضرورت ہے میں نے خواہش کا
اظہارکیا۔حکیم صاحب نے منظورکرلیا اور میں لائبریری میں آگیا۔یہ لائبریری
قائداعظم کے مزارکے پاس ہمدرد ہاؤ س میں تھی۔اس وقت کتابوں کی تعداد تقریباً
۱۵۰۰۰ ہزار تھی۔۱۹۷۰ء کے بعد لائبریری المجیدسینٹر ناظم آباد منتقل ہوگئی
اور پھر یہی لائبریری آج بیت الحکمہ ہے۔مجھے حکیم صاحب کی ذاتی لائبریری سے
بیت الحکمہ تک کی سربراہی کا اعزاز حاصل رہاہے جس پر مجھے فخر حاصل ہے۔
۳: حکیم صاحب آپ پر بھرپور اعتماد کرتے تھے کیا اس کی کوئی خاص وجہ تھی؟
ج: دراصل حکیم صاحب آدمی پر اتنا اعتماد کرتے تھے کہ اس میں از خود اعتماد
پیدا ہوجاتاتھا۔ اس کی باقاعدہ کوشش نہیں کی بس حکیم صاحب کو اعتماد ہوگیا۔
۴: آپ شہید پاکستان کے ہم پیشہ ہیں یعنی طب آپ کا بنیادی شعبہ ہے لیکن آپ
نے کتب خانہ کے سربراہ کی حیثیت سے زندگی کا زیادہ وقت گزارا،اس کی کوئی
خاص وجہ ۔کتاب سے محبت یا حکیم صاحب کی خواہش کی تکمیل؟
ج: ابتدائی سوال کا جواب میں آپ کے پہلے سوال میں ہی دے چکاہوں کہ حالات
اور واقعات جن کا میں نے اوپر ذکر کیااس نے مجھ میں کتاب سے محبت اور
لائبریری سے قربت پیدا کردی تھی۔طب میں میری دلچسپی زیادہ ترطبی لٹریچر میں
تھی۔رفتہ رفتہ کتاب اورلائبریری سے محبت حکیم صاحب سے دلچسپی میں بدل گئی۔
۵: بیت الحکمہ سب سے پہلے ’کتب خانہ حکیم محمد سعید ‘ تھا پھر ہمدرد
لائبریری بنی اس کے بعد بیت الحکمہ معروض وجود میں آیا۔اس منصوبے میں آپ
یقینا شریک رہے ،یہ مدارج کیسے طے ہوئے اس پر تفصیل سے روشنی ڈالیے؟
ج: حکیم صاحب کے ذہن میں جوتبدیلی آئی اس کے ساتھ ساتھ لائبریری کے نام
بدلتے رہے۔ ابتداء میں یہ لائبریری حکیم صاحب کی ذاتی لائبریری تھی اور
زیادہ تر ان کتابوں پرمشتمل تھی جوحکیم صاحب ہندوستان سے قیام پاکستان کے
وقت اپنے ہمراہ لائے تھے اس وقت ان کی تعداد بہت کم تھی،بعد میں ان میں
اضافہ اور یہ تعداد تقریباً۱۵۰۰۰ ہزار ہوگئی۔اس وقت یہ لائبریری ’کتب خانہ
حکیم محمد سعید‘ کہلاتی تھی۔۱۹۷۳ء میں جب کہ کتابوں کی تعداد ایک اندازہ کے
مطابق ۳۳ ہزار تھی حکیم صاحب نے اس لائبریری کو ادارہ کی لائبریری میں بدل
دیا اور اس کانام ’’ہمدرد لائبریری آف حکیم محمد سعید‘‘ قرار پایا۔گویا اب
یہ لائبریری ذات سے ہٹ کر ادارہ کی جانب آگئی اور یہ ہمدرد ہاوس اور کچھ
حصہ حمید منزل سے المجید سینٹر،ناظم آباد منتقل ہوگئی۔اب یہ لائبریری تیسرے
مرحلے میں داخل ہوتی ہے،حکیم صاحب شہرعلم مدینتہ الحکمہ کا منصوبہ تشکیل
دیتے ہیں۔اس شہر علم میں سب سے پہلے تعمیر ہونے والی عمارت لائبریری کی ہی
ہے جس کانام حکیم صاحب نے بیت الحکمہ رکھا،۱۹۸۹ء میں بیت الحکمہ کی عمارت
مکمل ہوئی اور اور یہ لائبریری المجید سینٹر،ناظم آباد سے اس عالی شان
عمارت میں منتقل ہوگئی اور اب یہ ’’بیت الحکمہ‘‘ہے۔۱۹۶۴ء سے ۱۹۷۳ء تک میں
نے اس کے ذمہ دار کی حیثیت سے کام کیا،المجید منتقل ہوجانے کے بعد لائبریری
کے کام بہت بڑھ گئے تھے،میری توجہ بھی طب اور ریسرچ پر زیادہ تھی چنانچہ
لائبریرین کے طورپر کئی پروفیشنلز اس لائبریری میں آئے ان میں جناب عبیداﷲ
سیفی،مولانا عارف الدین،جلیل نقوی،خورشید عالم اورجب یہ لائبریری بیت
الحکمہ بنی تو مرحوم رشید الدین احمد اس کے چیف لائبریرین تھے۔اس دوران میں
بدستور لائبریری کاڈائریکٹررہا۔بیت الحکمہ نے بہت وسعت اختیار کرلی،میں
ریسرچ کی جانب مائل ہوگیا ساتھ ہی میری رٹائرمنٹ ہوگئی اور میں فاؤنڈیشن سے
یونیورسٹی میں آگیا اب بیت الحکمہ کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے لوگ آئے ان میں
مولانا عارف الدین،ممتاز الاسلام شامل تھے ، اس وقت افضال احمد اس کے
ڈائریکٹر ہیں۔ایک اوربات واضح کردوں کہ بیت الحکمہ یعنی لائبریری ہمدرد
فاؤنڈیشن پاکستان کی ملکیت ہے اس کا اسٹاف بھی فاؤنڈیشن کاملازم ہے بلکہ
مدینتہ الحکمہ بھی فاؤنڈیشن کی ملکیت ہے۔
۶: لائبریری میں کتابوں کے حصول کے سلسلے میں حکیم صاحب کی کیاپالیسی ہوا
کرتی تھی؟
ج: ڈان اخبار کے ایک صاحب نے حکیم صاحب سے سوال کیا کہ لائبریری کابجٹ کتنا
ہوتاہے آپ نے جواب دیاکہ ’ ہمارابجٹ ہماری ضرورت ہے‘حکیم صاحب کی یہ ہدایت
تھی کہ کوئی بھی کتاب اگر ضروری اور اہم ہوتو لے لی جائے،اُسے ہرگز نظر
اندازنہ کیاجائے۔
۷: کتابوں کی خریداری کے لیے آپ کوکوئی خاص ہدایت ہواکرتی تھی یا Free
Handحاصل تھا؟
ج: جی ہاں فری ہینڈ حاصل تھا۔ایک مرتبہ کا ذکرہے کہ ہندوستان میں کتابوں کی
نمائش تھی میں نمائش میں کتابوں کاانتخاب کررہاتھا حکیم صاحب امریکہ گئے
ہوئے تھے وہ بھی اچانک وہاں پہنچ گئے میرے پاس رقم ختم ہوچکی تھی ،میں نے
حکیم صاحب سے کہا،آپ نے اپنے جیب میں ہاتھ ڈالا جوکچھ تھا دے دیا جب احساس
ہوا کہ یہ رقم کم ہے تو اپنے بڑے بھائی کے پاس سے مزیدرقم لے لی یہ بھی دے
دی اس طرح کل رقم نوہزار ڈالرتھی۔
۸: آپ بیت الحکمہ کے اولین بانی ڈائریکٹر ہیں،اس کی ترتیب وتنظیم کیسے عمل
میں آئی؟
ج: لائبریری ابتداء ہی سے لائبریری سائنس کے اصولوں کے مطابق ترتیب وتنظیم
پارہی تھی یعنی جب یہ لائبریری حکیم صاحب کی ذاتی لائبریری تھی اس وقت بھی
درجہ بندی اور کیٹلاگ سازی کی جاتی تھی،المجید سینٹر ناظم آباد منتقل
ہوجانے کے بعد لائبریری مکمل طورپر منظم ومرتب ہوگئی، بیعت الحکمہ میں
لائبریری کوکمپیوٹرائز کرنے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی، اس کے لیے
لائبریری سوفٹ ویئر بنوایاگیا اور اب یہ لائبریری بڑی حدتک ایک جدید اور
کمپیوٹراز لائبریری ہے۔
۹: ’’مدینتہ الحکمہ‘‘میں قائم ہونے والی پہلی عمارت’بیت الحکمہ‘تھی نہ صرف
عمارت بلکہ لائبریری اپنی موجودہ صورت میں سب سے پہلے تکمیل کو پہنچی اور
یہ تمام ترسرگرمیوں کامرکز ہوا کرتی تھی۔آپ کے خیال میں اس کی کیا وجہ تھی؟
ج: حکیم صاحب نے ’’بیت الحکمہ‘‘عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے قائم کردہ
ادارے بیت الخکمت کی طرز پر قائم کیا جو اس وقت لائبریری کے ساتھ ساتھ علم
وحکمت کامرکزتھا۔چنانچہ بیت الحکمہ کے قیام کے بعد یہ تمام ترعلمی
اورتحقیقی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔بیت الحکمہ کی اہمیت کا اندازہ ا س بات
سے لگایاجاسکتاہے کہ حکیم صاحب نے اپنی شہادت سے کچھ دن قبل اپنی آخری آرام
گاہ یعنی اپنی لحد کا انتخاب ازخودبیت الحکمہ کے سامنے انتہائی دائیں جانب
کردیاتھا۔
۱۰: بیت الحکمہ میں چار لاکھ سے زیادہ کتابیں ہیں جب کہ مجلد رسائل
اوراخبارات کے تراشاجات ہزاروں میں ہیں۔یہ ذخیرہ کتب آپ کی زیر نگرانی جمع
ہوا۔یہ سب کیسے ہوا؟
ج: دراصل لائبریری پرحکیم صاحب کی مکمل توجہ رہاکرتی تھی۔ کتابوں کے انتخاب
کے علاوہ شعبہ تراشہ جات حکیم صاحب کی خصوصی توجہ کامرکز تھا آپ ۱۹۵۱ء سے
اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود اخبارات کاازخود مطالعہ کرتے اور ان پر
نشانات لگایا کرتے تھے ان اخبارات کی تعداد ۱۸ کے قریب تھی۔کتابوں کے
انتخاب اورحصول کے لیے مجھے مکمل آزادی تھی،ایک بار میں کتابوں کے انتخاب
اورخریداری کے سلسلے میں مصر(Egypt) گیاحکیم صاحب نے ۵۰ ہزار ڈالر(تقریباً
۵ لاکھ روپے)لے جانے کو کہا،ہم اسٹیٹ بنک گئے اورمدعا بیان کیا،اسٹیٹ بنک
نے پہلے توانکار کردیا لیکن حکیم صاحب کا ہر جگہ خیال کیا جاتاتھا،ان کی
وجہ سے یہ رقم مجھے مل گئی،واپسی پر جورقم یعنی Foreign Exchange بچا وہ
اسٹیٹ بنک کو وپس کر دیا گیا اس پر بنک کے متعلقہ لوگ بہت حیران بھی ہوئے
در اصل حکیم صاحب جب کبھی ملک سے باہر جاتے توواپسی پر جو رقم بچتی وہ تما
م کی تمام Foreign Exchangeکی شکل میں اسٹیٹ بنک کوواپس کردیا کرتے تھے یہ
ان کا معمول اورعادت تھی،شاید ہی کوئی اورمثال ایسی ہو ۔تو میں آپ کو یہ
بتارہاتھا کہ ہر وہ کتاب خواہ اس کی قیمت کتنی ہی کیوں ناہو اگر لائبریری
کے لیے ضروری اوراہم ہوتی مجھے خریدنے کا پورا اختیار تھا ،پاکستان کے
علاوہ جب بھی ملک سے باہر جاتے جوکتاب انھیں اچھی لگتی لے لیا کرتے،واپسی
پر ان کے ہمراہ کتابیں ضرور ہواکرتی تھیں۔میں کئی بار ملک سے باہر کتابوں
کے حصول کے لیے گیا۔اس طرح لائبریری میں کتابوں کااضافہ ہوتاچلاگیا۔
۱۱ : کتابوں کے انتخاب اورخریداری کے لیے کیاپالیسی رائج تھی؟
ج: کوئی پالیسی نہیں تھی،مکمل آزادی اوراختیار حاصل تھا ہر اچھی کتاب
خریدنے کا۔
۱۲: کتابوں کی خریداری کے سلسلے میں آپ حکیم صاحب کے ہمراہ ملک سے باہربھی
تشریف لے گئے اس دوران حکیم صاحب کی کیا خواہش ہوتی کہ کتابیں کس قسم کی لی
جائیں، سستی یا اس سلسلے میں وہ دریا دل تھے؟
ج: کتاب کے سلسلے میں حکیم صاحب دریا دل تھے،کتاب کی اہمیت کے سامنے قیمت
کی کوئی حیثیت نہ تھی۔
۱۳: حکیم صاحب کو کتاب اور کتب خانہ سے عشق تھا،کیا آپ اس پرروشنی ڈالنا
پسندکریں گے۔
ج: کتابوں سے حکیم صاحب کوواقعی عشق تھا،لائبریری میں جگہ کا مسئلہ پیدا
ہوا تو میں نے حکیم صاحب سے کہاکہ اس سلسلے میں کچھ کیاجائے،ہمار ے بار
بارکہنے پر حکیم صاحب نے اس مسئلے کے حل کے لیے مقتدرحضرات کی ایک کمیٹی
تشکیل دی،ان احباب میں خالد اسحاق،ڈاکٹر جمیل جالبی،ڈاکٹرمعین الدین عقیل
اور دیگر شامل تھے،کمیٹی نے رپورٹ میں یہ تجویز پیش کی کہ پرانی کتابوں
کولائبریری سے نکال دیاجائے اورانہیں دیگر لائبریریز کودے دیاجائے،حکیم
صاحب نے کمیٹی کی اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا ، حالانکہ لائبریریز میں جگہ
کی کمی کاایک حل یہ بھی ہوتاہے۔کتاب سے حکیم صاحب کو بے پناہ محبت تھی،آج
بیت الحکمہ میں ہزاروں کتابیں ایسی ہیں جن پر حکیم صاحب کے اپنے دستخط
موجود ہیں۔
۱۴: لائبریری اسٹاف کے انتخاب ، انہیں مراعات دینے میں اور ان کے کام سے
حکیم صاحب کس حدتک مطمئن تھے؟
ج: عام طورپر لائبریری کے لیے جب بھی اسٹاف کے انتخاب کی ضرورت ہوتی اس کے
لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جاتی،کمیٹی جو تجویز بھی حکیم صاحب کو دیا کرتی آپ
اس سے اتفاق کیاکرتے تھے،اسٹاف کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کیاکرتے۔
۱۵: حکیم صاحب کے قائم کردہ کتب خانوں کی تعداد تقریباً ۱۵ ہے آپ ان کے اس
اقدام کوکس نظرسے دیکھتے ہیں؟
ج: ہمدرد یونیورسٹی کے قیام کے بعدمختلف ادارے وقفہ وقفہ سے قائم ہونا شروع
ہوئے ہرایک ادارے کی اپنی ضروریات سامنے آئیں اور بیت الحکمہ کے لیے ان
اداروں کی لائبریری ضروریات کوپوراکرنا مشکل ہوگیا چنانچہ حکیم صاحب نے
طلبہ اور اساتذہ کی لائبریری خدمات کی تکمیل کے لیے سیمینار لائبریری کے
قیام کا سلسلہ شروع کیا،بیت الحکمہ کے علاوہ اس وقت ہمدرد کے مختلف اداروں
کی الگ الگ سیمینار لائبریریز ہیں۔بیت الحکمہ کو مرکزی لائبریری کی حیثیت
حاصل ہے۔
۱۶: حکیم صاحب ابتداء ہی سے کتب خانوں کے قیام ترقی اور فروغ کے لیے کوشاں
تھے ۱۹۶۰ء میں SPILکاقیام شہید پاکستان کی سربراہی میں عمل میں آیا اورآپ
اپنی شہادت تک اس کی سرپرستی کرتے رہے۔آپ حکیم صاحب کے اس اقدام کو کس
نظرسے دیکھتے ہیں؟
ج: حکیم صاحب کتب خانوں کو بہت اہمیت دیا کرتے تھے۔آپ کاخیال تھا کہ عوام
میں مطالعہ کا فروغ کتب خانوں کے باعث ہی ممکن ہے۔چنانچہ جب ملک کی
مقتدرعلمی شخصیات نے ملک میں کتب خانوں کے قیام،ترقی اور فروغ کے لیے
’اسپل‘ (SPIL) کے نام سے ایک ادارہ کی بنیاد رکھی اورحکیم صاحب سے اس کی
سرپرستی کی درخواست کی توآپ نے اسے خوشی سے قبول کرلیا،حکیم صاحب کی صدارت
میں اس ادارہ نے بے مثال خدمات انجام دیں۔لائبریری کے قیام میں حکیم صاحب
نے ہمیشہ خوش دلی اورگرم جوشی کا مظاہرہ کیا بدین،کوئٹہ حتی کہ ملک کے دور
دراز کے علاقوں میں بھی اگر لائبریری کے قیام کی بات ہوئی توحکیم صاحب نے
اسے سراہا اورعملی تعاون کیا۔
۱۷: اسپل(SPIL)کے تحت ملک میں کتب خانوں کی ترقی اور فروغ کی ایک طویل
جدوجہد نصف صدی پر محیط ہے جس میں قومی اور بین الاقوامی سیمینار،ورکشاپ
اورکانفرنسیز کا انعقاد شامل ہے آپ کی رائے میں پاکستان لائبریرین شپ پر ان
کے کیااثرات مرتب ہوئے؟
ج: لائبریرین شپ سے تعلق رکھنے والوں میں حکیم صاحب کا اعتماد بحال ہوا وہ
اپنے مختلف،مسا ئل کے سلسلے میں حکیم صاحب سے رجوع کرنے لگے اور وہ بھی ان
مسائل کوحل کرنے میں پوری پوری دلچسپی لیاکرتے بے شمار خطوط جو انھوں نے
حکومت کے اعلیٰ عہدیداران کولائبریریز کے معاملات کے سلسلے میں تحریرکئے اس
کا واضح ثبوت ہیں۔
۱۸: اسپل(SPIL)کے تحت ملک میں کتب خانوں کی ترقی،فروغ ،بہتر منصوبہ بندی
،لائبریری قانون کے نفاذ،لائبریری تعلیم کے فروغ کے لیے حکیم صاحب کے
کارناموں کوآپ کس نظرسے دیکھتے ہیں؟
ج: حکیم صاحب تعلیم کو بنیادی اہمیت دیاکرتے تھے اس کے لیے آپ نے ہر ایک
فورم کا استعمال کیا،کیوں کہ تعلیم کی ترقی اور فروغ کا انحصار کتب خانوں
کے ذریعہ ہی ممکن ہے یہی وجہ ہے حکیم صاحب کتب خانوں کی ترقی اورفروغ کے
لیے جدوجہد کرتے رہے۔آپ کو اس بات کا ادراک تھا کہ ملک میں لائبریری قانون
کانفاذ لازمی ہے اس کے بغیر ملک میں لائبریری کا فروغ مشکل ہوگا چنانچہ آپ
نے ابتداہی سے اس کے لیے کوشش کی،اسی طرح سے آپ نے لائبریری ترقیاتی منصوبہ
تیار کرایا مقصدیہ تھا کہ ملک میں کتب خانوں کوفروغ حاصل ہو ملک کا شاید ہی
کوئی لائبریرین ایسا ہوجوحکیم صاحب کی کتب خانوں کے لیے کی گئی جدوجہد سے
واقف نہ ہو۔
۱۹: حکیم صاحب انتھک محنت کیاکرتے تھے اس کاراز کیاتھاْ
ج: مقصدیت،حکیم صاحب نے اپنی زندگی کامقصدمتعین کرلیا پھر اس کے حصول کے
لیے کوششیں کرتے رہے،آپنے اپنی زندگی کے معمولات کواپنے مقاصدکی تکمیل کے
لیے وقف کردیاتھاوہ اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو تھکا دیاکرتے تھے۔
۲۰: حکیم صاحب کی شخصیت کے خاص پہلو جنھوں نے آپ کو متاثرکیا؟
ج: بروقت فیصلہ کرنے کی صلاحیت غیر معمولی تھی اورکا م کو اسی وقت نمٹا
دینایعنی کوئی چیز Pendingمیں نہ رکھنا۔آپ فائل کو کبھی روکتے نہ تھے۔آپ کی
خواہش ہواکرتی تھی کہ ساتھ کام کرنے والوں میں بھی یہ عادت پیداہوجائے۔
۲۱: حکیم صاحب نے طب وسائنس کے علاوہ تعلیم کے میدان کا انتخاب کیا اوراپنی
بقیہ زندگی تعلیم کے فروغ میں لگادی۔
آپ کے خیال میں کیا یہ اقدام درست تھا؟
ج: جی ہاں بالکل درست تھا،کیوں کہ وہ سمجھتے تھے کہ ہمارے ملک کے
سیاسی،معاشی اور سماجی مسائل حتیٰ کہ امتہ مسلمہ کے مسائل کی جڑ تعلیم کا
فقدان ہے جب تک اسے درست نہ کردیا جائے اس وقت تک زندگی ممکن نہیں۔
۲۲: حکیم صاحب سے آپ کی آخری ملاقات کب اور کہاں ہوئی؟
ج: ہمدرد یونیورسٹی میں بدھ کا دن تھا،لائبریری کے معاملات پر ان سے تبادلہ
خیال ہوا،دو دن بعدیعنی ہفتہ کی صبح آپ کوشہید کردیاگیا۔
۲۳: آپ کو حکیم صاحب کی کس عادت نے سب سے زیادہ متاثرکیا؟
ج: اپنے سابقہ فیصلوں اور اشخاص کو یاد رکھنے کی عادت نے مجھے سب سے زیادہ
متاثرکیا۔
(یہ انٹرویو مور خہ ۲۹ دسمبر ۲۰۰۳ء کو زبیر ی صاحب کے دفتر واقع بیت
الحکمہ(ہمدرد یونیورسٹی لائبریری)میں لیاگیا) |
|