گلو بٹ کو سزا ہونے سے ثابت
ہوگیا کہ ہمارا نظام حکومت اور ہمارانظام انصاف کتنا اچھا ہے بڑے مجرم آزاد
گھوم رہے ہوتے ہیں اور چھوٹے چوروں کو سزا دیدی جاتی ہے ابھی سانحہ ماڈل
ٹاؤن کا واقعہ تازہ تازہ ہی ہے اسے بہت سال نہیں گذرے وہاں پر جو قیامت خیز
لمحات گذرے اور انسانی جانوں سے جس طرح کھیلا گیا وہ کوئی بہت پرانا واقعہ
نہیں ہے اس واقعہ کے کرداروں کو جوڈیشل کمیشن بے نقاب کرچکا ہے مگر سزا
ہوئی تو صرف ایک گلو بٹ کو جسے ہمارے میڈیا نے ہیرو بنا دیا اور اسے
باقاعدہ طور پر فلموں میں کام کرنے کی آفر بھی ہونا شروع ہوگئی تھی اور ہر
تاریخ پیشی پر مونچھوں اور کپڑوں کو کلف لگا کر پیش ہونا اور پھر مختلف
اسٹائل بنا بنا کر میڈیا کے سامنے آنااور پھر اسے باقاعدہ بریکنگ نیوز کے
طور پر چلانا گلو بٹ کو ہیرو بنا گیا اور پھر اس نے ایک دو فلموں میں بطور
ہیرو کام کرنے کی حامی بھی بھر لی مگر عدالت نے اسے سزا سنا کر جیل بھیج
دیا اب جیل میں اسکی مزید تربیت ہوگی کیونکہ ہماری پنجاب کی جیلوں کو جرائم
کی یونیورسٹیاں بھی کہا جاتا ہے مگر اصل مسئلہ گلو بٹ نہیں ہے کیونکہ گلو
بٹ نے تو صرف چند گاڑیوں کے شیشے ہی توڑے ہیں وہ بھی پولیس کی سرپرستی میں
مگر جنہوں نے پولیس کو انسانی جانوں کے قتل عام کا حکم دیا اور پھر جنہوں
نے زندہ انسانوں کو سیدھی گولیاں ماری انہیں کچھ بھی نہیں ہوا نہ سزا ہوئی
اور نہ ہی نوکری سے نکالا گیاکیونکہ مسلم لیگ ن کی حکومت ایسے کاموں میں
مہارت رکھتی ہے اور اس بات کا ثبوت بڑا واضح ہے کہ حکومت نے سانحہ ماڈل
ٹاؤن کے موقعہ پر پولیس کی سرپرستی میں گاڑیوں کے شیشے توڑنے والے گلو بٹ
کو قربانی کا بکرا بنا کربلی چڑھا دیا جبکہ جسٹس باقر نجفی کی سربراہی میں
جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 15بے گناہ اور معصوم انسانوں کے قاتل
ملزمان وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف ،سابق وزیر قانون رانا ثناء سمیت
پولیس کے اعلی افسران حکومت کے مزے لوٹنے میں مصروف ہیں میرے پڑھنے والوں
کو یاد ہوگا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں 15معصوم اور بے گناہ افراد کو پولیس نے
حکومت کی ایما ء پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیاجسکی مختلف ٹیلی ویژن چینلز نے
براہ راست کوریج بھی دکھائی اس موقعہ پر گلو بٹ نامی مسلم لیگی جیالے نے
پولیس کی آشیر باد سے منہاج القران کے باہر کھڑی گاڑیوں کے شیشے توڑ دیے اس
تمام کاروائی کے بعد پولیس کے اعلی افسران نے گلو بٹ کو گلے سے لگایا اور
تھپکی دیکر شاباش دی جبکہ اسی طرح کی شاباش حکومت میں شامل افراد نے ان
پولیس والوں کو بھی دی جنہوں نے سیدھی گولیاں چلا کر 15بے گناہ اور معصوم
انسانوں کا قتل عام اور 100افراد کو زخمی کیاجسکے بعد وزیر اعلی پنجاب میاں
شہباز شریف نے ٹیلی ویژن پر آکر کہا کہ وہ اس تمام واقعہ کی جوڈٰیشل
انکوائری کروائیں گے اگر اس میں منہاج القران کی طرف سے لگائے جانے والے
الزامات درست ثابت ہوئے تو وہ استعفی دیدینگے حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے
واقعہ پرجسٹس باقر نجفی کی سربراہی میں جوڈٰیشل کمیشن بنادیا جسے منہاج
القران کی طرف سے مسترد کردیا گیا مگر اسکے باوجود جوڈیشل کمیشن نے نہایت
ہی ایمانداری اور جانفشانی سے کام کرتے ہوئے میرٹ پر فیصلہ دیتے ہوئے وزیر
اعلی پنجاب میاں شہباز شریف ،اس وقت کے وزیر قانون رانا ثناء اﷲ سمیت پولیس
کے اعلی افسران کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذمہ دار قرار دیدیااور ان ملزمان کے
خلاف کاروائی کی سفارش کی مگر حکومت کی ہمیشہ کی ہٹ دھرمی کی طرح اس بار
بھی صرف تین گاڑیوں کے شیشے توڑنے والے گلو بٹ کو مجرم بنا کر قربانی کا
بکرا بنا دیا گیا جبکہ 15افراد بے گناہ اور معصوم شہریوں کو سیدھی گولیاں
مروانے والے قاتلوں کو ابھی تک کوئی سزا نہیں ہوسکی اور انکے خلاف کٹنے
والی ایف آئی آر بھی عدالتی حکم کے بعد اسلام آباد احتجاج کے بعد درج ہوسکی
جس پر ابھی تک کوئی کاروائی نہیں ہوسکی یاد رہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے فوری
بعد منہاج القران کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے وزیر اعلی ،وزیر قانون
سمیت پولیس کے اعلی افسران کو ملزم نامز کردیا تھاجو آج تک حکومت اور
پراسیکیوٹر کو نظر نہیں آئے اور نہ ہی عوام تحریک کے کارکنوں کے علاوہ کسی
نے اس بات پر احتجاج کیا کہ ان بے گناہوں کا کیا قصور تھا جو اپنے حق کے
لیے آواز بلند کررہے تھے کیا وہ دہشت گرد تھے ، بھارتی ایجنٹ تھے یا
پاکستانی شہری نہیں تھے جنہیں اس طرح سرعام گولیوں سے بھون دیا گیااور کیا
ہمارا نظام انصاف بھی اتنا بوسیدہ اور غیر منصفانہ ہوچکا ہے کہ گاڑیوں کے
شیشے توڑنے والے کو 11سال سزا اور قاتلوں کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑا رہے
کیا پاکستان اسی لیے حاصل کیا گیا تھا کہ یہاں پر چوروں اور ڈاکوؤں کو
حکمران بنادیا جائے جو جتنا لوٹ سکیں لوٹ لیں ملک کی جڑیں کھوکھلی کرکے
بیرون ملک اثاثے بنالیں اپنی اولاد کو باہر کاروبار کروادیں اور خود
پاکستان کی خدمت کے نام پر لوٹ مار کا بازار گرم کردیں کیاایسا محسوس ہوتا
ہے کہ جیسے قبضہ گروپوں کے نرغے میں عوام پھنسی ہوئی ہے ایک طرف غربت ،مہنگائی
،بے روزگاری اور یوٹیلٹی بلوں کے اضافے نے مت مار رکھی ہے تو دوسری طرف
جھوٹے حکمرانوں کے لارے ہیں جو کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں ہر بات پر
جھوٹ بولنا انہوں نے اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے اپنے غیر ملکی آقاؤں کے پاؤں
چھوتے ہیں اور جن سے ووٹ لیکر اقتدار میں آتے ہیں انہیں اپنے جوتے کی نوک
پر رکھتے ہیں ۔ |