1971ء کی جنگ میں پاکستان کی
حمایت کے الزام میں بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے سربراہ مطیع الرحمن
نظامی کو سزائے موت سنا دی گئی۔ 71سالہ سربراہ مطیع الرحمان نظامی کو
16مقدمات کا سامنا تھا جن میں نسل کشی، قتل، تشدد اور ریپ کے الزامات شامل
تھے۔ خصوصی عدالت نے اس مشہور مقدمے کا فیصلہ سنایا تو عدالت کھچا کھچ بھری
ہوئی تھی۔ 1971ء میں مطیع الرحمان نظامی جماعت اسلامی کی ایک ذیلی تنظیم سے
منسلک تھے اور ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ’’البدر‘‘ نامی ملیشیا کے کمانڈر
کے حیثیت میں علیحدگی پسند بنگالی کارکنوں کی نشاندہی کرنے اور انہیں ہلاک
کرنے میں پاکستانی فوج کی اعانت کی تھی۔ استغاثہ کا کہنا تھا کہ البدر نے
جنگ کے دوران باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت آزادی پسند اساتذہ، انجینئرز اور
صحافیوں سمیت کئی کارکنوں پر تشدد کیا اور انہیں موت کے گھاٹ اتارا۔ مطیع
الرحمان نظامی کے وکلا کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں
گے۔بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی حکومت نے 1971 میں پاک فوج کے ساتھ تعاون
اور بنگالی عوام کے خلاف جرائم کے ذمہ داروں کے تعین اور انہیں سزا دینے کے
لئے خصوصی ٹریبونل قائم کیا تھا جو جماعت اسلامی بنگلادیش کے رہنما علی
احسن محمد مجاہد کو سزائے موت اور غلام اعظم کو 90 سال قید کی سزا سنا چکا
ہے۔ تاہم جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سابق رہنما مطیع الرحمن نظامی کوپھانسی
کی سزا سنائے جانے کے بعد جماعت اسلامی نے دھمکی دی ہے کہ وہ عبد القادر
ملا کے خون کا انتقام لیکر رہے گی۔ مطیع الرحمن نظامی پر عدالت کی جانب سے
جنگی مجرم ہونیکا الزام عائد کیا گیا تھا۔ مطیع الرحمن نظامی کو دو روز بعد
پھانسی کی سزا سنائی گئی وہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی
حکومت مخالف جماعتوں کے کلیدی لیڈروں میں سے ہیں۔ مطیع الرحمن نظامی کو
پھانسی کی سزا سنائے جانے پر سخت ردعمل سامنے آیا ہے اور جماعت اسلامی نے
اس سزا کے خلاف تین روزہ عام ہڑتال کی کال دے دی ہے۔ جماعت اسلامی کے
رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مطیع الرحمن نظامی کو پھانسی کی سزا، سیاسی محرکات
کے تحت سنائی گئی ہے۔ اس اقدام سے حکمراں جماعت عوامی لیگ کا مقصد، اسلامی
جماعتوں کا صفایا کرنا ہے۔مطیع الرحمن نظامی کو پھانسی کی سزا سنائے جانے
کے بعد بنگلہ دیش میں حالات کشیدہ ہوگئے ہیں۔انسانی حقوق کے بین الاقوامی
گروہوں نے ان کو پھانسی کی سزا سنائے جانے کے اقدام کی مذمت کی ہے۔ بنگلہ
دیشی عوام کہتے ہیں کہ شیخ حسینہ واجد کی سیکولر حکومت ، اس ملک میں تمام
اسلامی گروہوں اور پارٹیوں کی سرگرمیوں پر پابندی لگانے کے لئے کمر باندھ
چکی ہے اور بنگلہ دیش کے سیاسی میدان سے اسلام پسندوں کے خاتمے کے لئے ایک
بہت بڑا رسک لیا ہے اور بنگلہ دیش کی اسلامی تنظیموں میں سب سے بڑی، جماعت
اسلامی کے لیڈروں کو پھانسی تک کی سزا دی ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب اس
ملک کے عوام نے عملی طور پر ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ بنگلا دیش سے اسلامی
قوانین کیخاتمے کے لئے حسینہ واجد کی سیکولر حکومت کے سامنے نہیں جھکیں گے
اور ان کی حکومت کی اسلام مخالف پالیسیوں کا ڈٹ کرمقابلہ کریں گے۔جنگی
جرائم کے ٹربیونل کی جانب سے جماعت اسلامی کے سربراہ مطیع الرحمن نظامی کو
سزائے موت سنائے جانے کے بعد ملک میں جاری احتجاج فسادات کی شکل اختیار
کرگیا ہے۔ بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت کو بھارت کی پشت پناہی حاصل ہے اور وہ
پاکستان سے نرمی و پیار کے حامل افراد اور تنظیموں پر سخت سے سخت سزا لگا
رہی ہے اور ان کے جلسے جلوسوں پر ربڑ کی گولیاں اور آنسو گیس کا بے دریغ
استعمال کررہی ہے۔ بنگلہ دیش کے جنگی جرائم کے ٹربیونل نے جماعت اسلامی کے
سربراہ مطیع الرحمٰن نظامی کو 1971میں پاکستان سے محبت اور پاک فوج کی
حمایت کرنے پر انسانیت کے خلاف جرائم بشمول نسل کشی، تشدد اور کے الزامات
لگاکر سزائے موت سنائی تھی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کے کارکنوں
نے ٹربیونل کے فیصلے کے فوراً بعد مظاہرہ کیا اور اس دوران لگ بھگ 90لوگوں
کو حراست میں لے لیا گیا۔ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے 2010ء میں ایک خصوصی
ٹربیونل قائم کیا تھا جس کے ذمے 1971ء میں ملک کی ’’جنگ آزادی‘‘ کے دوران
تقریباً 30لاکھ لوگوں کی ہلاکت کے مبینہ واقعات کی تحقیقات کرکے ان میں
ملوث افراد کو سزائیں دینا ہے۔امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کہتے
ہیں کہ بنگلہ دیش میں پاکستان سے محبت کرنے والے لوگوں کو جیلوں میں ڈالا
اور پھانسیوں پر چڑھایا جا رہا ہے۔ یہ نام نہاد ٹریبونل کا ظالمانہ فیصلہ
ہے اور انصاف کا خون کرتے ہوئے ایک بے گناہ شخص کو موت کی سزا سنائی گئی ہے۔
بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں سے اپنے اقتدار
کو طول نہیں دے سکتی۔ پاکستان کی حکومت نے مشرقی پاکستان میں فوج کا ساتھ
دینے والے محب وطن پاکستانیوں کی سزا پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے
اگر وہ چاہتی تو شیخ مجیب الرحمٰن اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان ہونے
والے معاہدے کو دنیا کے سامنے پیش کر کے پاکستان کا ساتھ دینے والے جماعت
اسلامی کے لوگوں پر مقدمات کو ختم کرایا جاسکتاتھا جس میں یہ طے کیا گیا
تھاکہ دونوں ممالک کسی پر جنگی جرائم کا مقدمہ نہیں چلائیں گے۔ پہلے ملا
عبدالقادر کو ظالمانہ سزا سنا کر پھانسی دے دی گئی اور اب مطیع الرحمٰن
نظامی کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی ہے۔پھانسیاں اور قیدو بند کی صعوبتیں حق
کی آواز کو نہیں دبا سکتیں۔ماضی میں حکومتی ذمہ داران کی جانب سے عبدالقادر
ملا کی پھانسی کو بنگلہ دیش کااندرونی معاملہ قرار دیا گیا ‘ ہم سمجھتے ہیں
کہ یہ سوچ درست نہیں ہے۔ اس مسئلہ کو ہر فورم پر اٹھانا چاہیے اور بھارتی
شہ پر کئے جانے والے اس ظلم کے خلاف بھرپور آواز بلندکرنی چاہیے۔امیر
جماعۃالدعوۃ پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید نے بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی
کے امیر مطیع الرحمن نظامی کو سزائے موت سنائے جانے کے فیصلہ پر شدید ردعمل
ظاہرکرتے ہوئے کہا ہے کہ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی قائدین کوبھارتی
اشاروں پرپھانسی کی سزائیں سنائی جارہی ہیں۔ حکومت پاکستان کو خاموشی اختیا
رکرنے کی بجائے اس مسئلہ کو سلامتی کونسل اور او آئی سی میں اٹھانا چاہیے۔
پہلے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے قائد عبدالقادر ملا کو پھانسی دی گئی پھر
مولانا غلام اعظم سزا سنائے جانے کے بعد جیل میں فوت ہوئے جو یقینا پوری
مسلم امہ کیلئے صدمہ کا باعث ہے اور اب مولانا مطیع الرحمن نظامی کو پھانسی
کی سزا سنادی گئی ہے‘ ہم سمجھتے ہیں کہ ان قائدین نے قومیت اور وطنیت کیلئے
قربانیاں پیش نہیں کی تھیں بلکہ ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ لاالہ الااﷲ کا
نعرہ بلند کرتے ہوئے بھارتی فوج کے سامنے ڈٹ گئے اور واضح طور پر کہا تھا
کہ ہمیں بھارتی فوج کا پاکستانی سرزمین پر وجود برداشت نہیں ہے۔اس لئے ہمیں
اپنے ان محسنوں کی قدر کرنی چاہئے۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی قائدین کو
پھانسیوں کی سزائیں سنانے سے ایک بار پھر نظریہ پاکستان زندہ ہورہا ہے۔
پھانسیاں اور قیدو بند کی صعوبتیں حق کی آواز کو نہیں دبا سکتیں۔ماضی میں
حکومتی ذمہ داران کی جانب سے عبدالقادر ملا کی پھانسی کو بنگلہ دیش
کااندرونی معاملہ قرار دیا گیا ‘ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سوچ درست نہیں ہے۔ اس
مسئلہ کو ہر فورم پر اٹھانا چاہیے اور بھارتی شہ پر کئے جانے والے اس ظلم
کے خلاف بھرپور آواز بلندکرنی چاہیے۔امیر جماعت اسلامی صوبہ پنجاب و
پارلیمانی لیڈر صوبائی اسمبلی ڈاکٹر سید وسیم اخترنے مولانامطیع الرحمان
نظامی کی سزائے موت کے خلاف قرار داد پنجاب اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع
کروادی۔جمع کرائی جانے والی قرار دادمیں کہاگیا ہے کہ’’یہ ایوان مولانامطیع
الرحمان نظامی امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش کو پاکستان سے وفاکرنے کے جرم
پر سزائے موت سنائے جانے کے انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کے فیصلے کی شدیدمذمت
کرتا ہے اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت کو اس
فیصلے پر عمل در آمد کرنے سے روکے‘‘۔وزیر اعظم میاں نوازشریف جماعت اسلامی
بنگلہ دیش کے قائدین کوسیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے خلاف عالمی سطح پر
معاملے کو اٹھائیں۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنماؤں کو حب الوطنی
اورمتحدہ پاکستان کا دفاع کرنے کی پاداش میں نشانہ بنایاجارہا ہے۔امن کے
علمبردار ممالک،انسانی حقوق کی ترجمان این جی اوز اور اقوام متحدہ ان مظالم
کانوٹس لیتے ہوئے بنگلہ دیشی حکومت پر دباؤڈالیں۔بے گناہ افراد کو سزائیں
دینا انسانیت کی تذلیل کے مترادف ہے۔ |