ایک دفعہ ایک شخص کی گاڑی کا ایک ٹائر پنکچر ہو گیا تو اس
نے گاڑی کو روکا اور ٹائر بدلنے لگا۔ جب وہ فالتو ٹائر لگا چکا اور اس نے
نٹس کی تلاش میں ادھر ادھر نگاہ دوڑائی تو اسے علم ہوا کہ نٹ تو گھومتے
ہوئے پاس ہی ایک گٹر کے اندر گر گئے ہیں۔ اب وہ بے حد پریشانی کے عالم میں
یہ سوچتا رہا کہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے کیا کرے۔ ادھر پاس ہی ایک پاگل
خانے کی عمارت تھی۔ اس میں سے ایک پاگل نے سر نکال کر سڑک پر موجود اس
پریشان شخص کو دیکھنا شروع کر دیا۔ اور پوچھا کہ آخر مسئلہ کیا ہے۔اس
پریشان شخص نے اس پاگل کو مسئلہ بتانے کے بعد کہا کہ تمہیں کسی آس پاس
مکینک کا پتہ ہے جس سے میں لے جا کر نٹس لے آؤں۔پاگل نے کہا تمہارے پاس
تین ٹائر تو موجود ہیں۔ ان میں چار چار نٹس بھی ہیں۔ تم ان تینوں میں سے
ایک ایک نٹ نکال کر چوتھو والے کو بھی چار سے سہارا دے لو اور گاڑی مکینک
تک لے جاؤ۔ پریشان شخص نے خوش ہوتے ہوئے کہا ہاں یہ تو میں نے سوچا نہ
تھا۔ تم نے کیسے سوچ لیا تم تو پاگل ہو۔ اس پاگل خانے میں موجود پاگل نے
کہا ہاں پاگل ضرور ہوں مگر بے وقوف نہیں ہوں۔
بے وقوفی تو یہ ہے کہ آُ پ دماغ میں کچھ بھی ڈالتے جائِیں بغیر سوچےسمجھے
اور پھر یقین رکھیں کہ آپکو دماغ میں ڈالا گیا الٹ مواد نتائج سیدھے ہی دے
گا۔ آج کا دور ٹیکنالوجی کا وہ دور ہے جس میں بے شمار معلومات، راز،
کہانیاں، عجیب و غریب باتیں اور حقائق تک رسائی کچھ مشکل نہیں ہے ۔ ہر قسم
کا میڈیا ہی آپ تک کچھ نہ کچھ پہنچانے میں ہر وقت لگا ہوا ہے۔ اسی طرح
انسان کا دماغ اس ساری مولومات کو عمل میں لانے میں مصروف رہتا ہے اور مزے
کی بات یہ ہے کہ ہماری شعوری آگاہی کے بغیر۔ اسی وجہ سے اکثر ہم ایسی بات
کہہ جاتے ہیں، ایسا انتاب کرتے ہیں، اچانک سے ایسا خیال آجاتا ہے، کچھ ایسا
انتخاب کر لیتے ہیں جس کے بارے میں شعوری طور پر کچھ سوچا نہیں ہوتا اور ہم
بے دھیانی میں مگر آرام سے کچھ انوکھا کرنے والے بن ضرور جاتے ہیں۔
اس انوکھے پن کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے کہیں نہ کہیں کبھی نہ کبھی ایسا انوکھا
دیکھا یا سنا ضرور تھا۔ آج کے دور کی ضرورت میڈیا بن چکا ہے۔ مگر یہ ضروری
نہیں کہ آپ اس میڈیا کا استعمال ہمیشہ ان کرائم شوز کو دیکھنے کے لئے ہی
کریں جس میں آپکو کسی کو قتل کس طرح اور کیوں کیا گیا ہی دکھایا جارہا ہو۔
ب یہ ہمیں دکھا یا جاتا ہے تو یہ صرف دیکھ کے بھولتے نہیں بلکہ ہمارا دماغ
اپنے پاس کہیں رکھ لیتا ہے۔
اب آپ کے پاس ایک نقصان دہ مواد موجود تو ہے ہی تو ایسا ہو سکتا ہے کہ جب
بھی آپکو کسی مجمع میں بات کرنے کا موقع ملے فٹ سے آپکا دماغ آپکو یہ واقعہ
دوسروں کے ساتھ شئرنگ کے لئے یاد دلا سکتا ہے۔ خاص طور پر ٹین ایج بچوں میں
اس چیز کا رجحان بہت ذیادہ ہے۔ اسی طرح بڑوں میں بھی یہ معاملہ کچھ کم شدت
کے ساتھ مگر ایسا ہی ہو سکتا ہے۔
اسی طرح بعض اوقات جب ہم کسی سے جھگڑیں یا لڑ پڑیں تو دماغ اس میں موجود وہ
کرائم والی دیکھی گئی معلومات اور پیش آںے والی صورتحال کی کڑیاں ملانے
لگتا ہے جس کی وجہ سے اس بات کا امکان برھ جاتا ہے کہ شوز دیکھنے والا
انسان ایسی صورتحال میں ایسا ہی خطرناک قدم اٹھا سکتا ہے۔ کیونکہ ایک ریسرچ
کے مطابق جب وہ قاتل جنھوں نے جنون میں آکر قتل کر دیا تھا ان سے پوچھا گیا
کہ وہ کیا بدلنا چاہیں گے تو انکا یہی کہنا تھا کہ وہ یہ لمحہ واپس لانا
چاہیں گے جس میں انسے غلطی اور جزبات میں قتل ہو گیا۔
معاشرے میں آج جزباتی طور پر کمزور ہونے کی ایک بہت بڑِی وجہ یہی ہے کہ ہم
اس طرح کا مواد دیکھتے رہتے ہیں اور جب بھی کوئی خبر سنتے ہی تو ہمیں خدشہ
اور پریشانی ایسے لاحق ہوتی ہے جسیے یہ ہمارے ساتھ وقوع پزیر ہو جائے گا
اور یا ہمارے کسی پیارے کے ساتھ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ریسرچ بتا تی ہے کہ
انسان کے آدھے سے ذیادہ خوف اور پریشانیاں بے بنیاد اور محض دماغی ہوتی ہیں
وہ کبھی بھی وقوع پزیر نہیں ہوتیں اور انسان انکے بارے میں سوچ کر بلاوجہ
کھپتا اور کڑھتا رہتاا ہے۔
اسی لئے زندگی کی خوبصورتی میں اضافے کے لئے اس میں اچھی چیزوں کا اضافی
کہیجئے تاکہ آپکا دماغ آپ کے لئے مزید خوبصورت چیزیں کھینچتا ہوا لے آئے۔
کیونکہ دماغ آپکے لئے کھینچ کر لانے کا تو زمہ دار ہے مگر یہ غلط اور صیح
میں تشخیص نہیں کر سکتا یہ تشخیص ہم خود کرتے ہیں۔ یہ صرف وہی لائے گا حیسا
ملتا جلتا آپ نے اسے دیا ہوگا۔ |