س:آپ کو اقبال ؒ پر کام کرنے کا شوق کہاں سے پیدا ہوا؟
ج:میں نے اقبال کو پڑھ کر دین اسلام کو سمجھا ہے۔ اقبال ایسا مفکر ہے جس نے
حیات کائنات کے مسائل پر غور کیاہے۔ پوری انسانی تاریخ کی روشنی میں بنی
نوع انسان کے لیے ایک لائحہ عمل تجویز کیاہے۔ وہ لائحہ عمل وہی ہے جو قرآن
تجویز کرتاہے۔ اقبالؒ نے کہا ’’میں نے جو کچھ کہاہے وہ سب قرآن سے ماخوذ ہے۔
‘‘ اقبال ؒ نے ایک خاص انداز میں کہا’’اگر میرا دل دھندلا آئینہ ہوا ور
میری باتوں میں قرآن کے سوا کوئی اور بات پوشیدہ ہو تو قیامت کے دن مجھے
ذلیل و رسوا کردیاجائے۔ رسول پاک ؐ کے بوسہ مبارک سے محروم کردیاجائے ۔ میں
نے سوچا جب اتنا بڑا مفکر اس نتیجے پر پہنچا کہ اسلام ہی انسان کی فلاح
کاراستہ ہے تو پھر اسی طریقے کو سمجھنا چاہیے۔
س:اُردو ادب کی صورت حال کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟
ج:اُرد و ادب دنیا کے کسی ادب سے پیچھے نہیں ہے ۔ مجھے دنیا کے مختلف ملکوں
میں پڑھانے کاموقع ملاہے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ اس وقت اُردو ادب کی دو اصناف
ایسی ہیں جو دنیا میں ہر جگہ بڑے فخر سے پیش کی جاسکتی ہیں۔ ایک جدید نظم
اور دوسرا اُردو افسانہ ۔
س: آپ کا پسندیدہ نثر نگار کون ہے ؟
ج:مجھے غالب پسند ہے۔ آج اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی ایسی نثر کوئی نہیں
لکھ سکا۔ ان کے مضامین میں زندگی سانس لیتی محسوس ہوتی ہے۔
س: آپ کی کتنی تصانیف شائع ہو چکی ہیں؟
ج: تعداد تو ٹھیک سے یاد نہیں۔میری تمام کتب انٹر نیٹ پر موجود ہیں۔میری
کتب نوجوانوں سے متعلق اور اقبال کے کام کے حوالے سے ہیں،میریتینشعری
مجموعے بھی شائع ہو چکے ہیں۔ان تصانیف کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں میں
شائع ہوچکے ہیں۔۔ لمحوں کا قرض،جہات،مکاتیب ظفر علی خان،علامہ اقبال کی
تاریخ ولادت،ایک مطالعہ،اقبال شناسی اور نوید صبح،اپنی دنیاآپ پیدا کر،لمحے
کی روشنی،پہلی سحر کا رنگ،ارمغان شیرانی،آئینہ کردار،تاریخ جامعہ پنجاب،نظم
مجھ سے کلام کرتی ہے، ستارہ سحر،کلیات و نثر ظفر علی خان،
س:ادب سے دوری کے اسباب کیا ہیں؟
ج:ترجیحات اس کا سبب ہے۔ ادب زندگی کے مسائل پر اطمینان سے غور کرنے اور
رائے قائم کرنے کا نام ہے۔ آج کا زمانہ بہت تیز ہے جبکہ ادب کی دنیا صبر
اور تحمل چاہتی ہے۔ معاشرہ جلد نتائج چاہتاہے جبکہ ادب اس کے برعکس ہے۔ اس
لیے معاشرے میں رہنے والے لوگ ادب سے دور ہو رہے ہیں۔
|