’ شیخ محمد ابراہیم آزادؔ ۔شخصیت و شاعری‘ ادیب و محقق محمود عزیز کی نظر میں
(Dr Rais Samdani, Karachi)
(ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کی
تصنیف شیخ محمد ابراہیم آزادؔ ۔شخصیت و شاعری پر یہ تبصرہ اردو کے معروف
ادیب و محقق جناب محمود عزیز نے تحریر کیا جو انجمن ترقی اردو کے معروف
ادبی ماہنامہ’ قومی زبان ‘کی جلد ۸۶ شمارہ ۱ جنوری ۲۰۱۴ء میں شائع ہوا)
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کا تعلق لائبریری سائنس کے شعبہ سے ہے مگر ان میں
علم و ادب ، شاعری رچی بسی ہے۔ ان کے خانوادہ میں اکثر افراد صاحب دیوان
شاعر ہیں اور بے دیوان شاعروں میں بھی علم و ادب اور شاعری کی یہی چٹیک ان
کو بھی لگی ہوئی ہے۔ گزشتہ ۳۸ برسوں میں رئیس احمد صمدانی نے ۳۲ کتابیں اور
۲۵۰ مضامین تحریر کیے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب مصنف کے پر دادا شیخ محمد ابرہیم
آزادؔ شخصیت و شاعری کا احاطہ کرتی ہے۔آزادؔ استاد ا؛شعرا افتخار املک سید
وحید الدین احمد بیخودؔ دہلوی جانشین فصیح الملک داغؔ دہلوی کے شاگرد
تھے۔راجستھان کے معروف نعت گو شاعر تھے، نعت کے علاوہ حمد، قصیدہ، رباعیات،
قطعات، سلام اور دیگر اصناف شاعری پر بھی حاوی تھے۔خوبصورت انداز بیان کے
یہ شاعر جن کے بارے میں حضرت بیخودؔ نے ارشاد فرمایا کہ ان کا ذوق شعری
اصلاح کا چنداں محتاج نہیں، آزادؔ کا زمانہ ۱۸۶۸ء ۔۱۹۴۷ ء کا ہے ۔ یہ وہ
زمانہ ہے کہ جس میں اردو زبان کے ممتاز شعرا اپنے کلام سے برصغیر کی فضاء
کو گرمائے ہوئے تھے۔جن میں مولانا حالیؔ، داغؔ،ا میر مینائیؔ، علامہ اقبالؔ،
حسرتؔموہانی، جیسے سخنور شامل تھے۔ آزادؔ کے ہم عصروں کی ان کے کلام کے
بارے میں رائے تھی کہ آزادؔ کے کلام میں رسول اکرم ﷺ کے لیے خلوص و محبت ،
عقیدت و احترام کا والہانہ جذبہ پایا جاتا ہے اور ان کا دل و دماغ عشق رسول
ﷺ سے سر شار اور روح بالیدہ ہے۔آزادؔ کو زبان و بیان پر غیر معمولی قدرت
حاصل تھی ۔ اس کی وجہ ان کا اردو ، فارسی اور عربی پر عبور تھا اس کے علاوہ
ان کی دینی علوم پر بھی گہری نظر تھی۔ ان کا نعتیہ کلام سلیس و بلیغ اور
رواں ہے دلکش تراکیب اور محاوروں کے برجستہ استعمال سے ان کے کلام میں
دلاآیزی پیدا ہوگئی ہے۔وہ نعت میں اَفراوتَفرِیط سے بچتے ہیں۔ ان کی قادر
الکلامی کے چند نمونے دیکھیے
تری سیرت کی تو کیا بات ہے میرے مولا
تری صورت سے تو بن جاتے ہیں سیرت والے
مغرب کی طرف سے یہ بات پھیلائی جاتی ہے کہ اسلام تلوار سے پھیلا اس کو
موضوع سخن بناتے ہوئے آزادؔ کہتے ہیں
یا نبی تیر ا مبارک ہو ا آنا کیسا
تجھ سے پہلے تھا جہالت کا زمانہ کیسا
پھونکی اک نئی روح تیرا آنا کیسا
اﷲ اﷲ بنا تجھ سے زمانہ کیسا
جُھوٹ کہتے ہیں کہ تلوار سے پھیلا اسلام
کام باتوں سے لیا تیغ چلانا کیسا
اور اس سے پہلے وہ خاک کے پتلے کو انسان سے مسلمان بنانے پر حق تعالیٰ کی
شکر گزاری یوں کرتے ہیں
اﷲ تونے خاک کو انسان بنادیا
انسان کیا بنا یا مسلماں بنا دیا
مطلع نے حمد کے مجھے سحباں بنادیا
مطلع نے نعت کے مجھے حساں بنادیا
آزادؔ نام جپتے ہیں اُس بے نیاز کا
رحمت سے جس نے ہم کو مسلماں بنادیا
آزادؔکے دل میں امت کا درد تھا جس کا اندازہ ان کے د ل سوز اشعار سے لگایا
جاسکتا ہے ۔ پہلے تو اپنی صورت کو بگاڑ نے کے باب میں کہتے ہیں
ہم نے خودپاؤں میں اپنے ہی کلہاڑی ماری
توڑ کر دین کے ارکان رسولِ ؑ اکرم
پھر ملت اسلامیہ کا اجتماعی صورت حال پر نظر ڈالتے ہوئے اس کی سلامتی کے
لیے دعاگو ہوتے ہیں
علم مولا میں ہے جو حال مراکش اب ہے
کیسا مظلوم ہے ایران رسولِ اکرم
شہ کو معلوم ہیں اٹلی کے مظالم جو ہیں
اب غضب ڈھاتا ہے بلقان رسولِ اکرم
سلطنت مُلک مراکش کی بھی رکھنا قائم
اور سلامت رہے ایران رسولِ اکرم
اس پہ سایا رہے الطاف و کرم کا تیرے
جو یہ کابل کا ہے سلطان رسولِ اکرم
ہند والے بھی مسلماں ہوں ایسے آقا
جیسے تھے اگلے مسلماں رسولِ اکرم
ختم آزاد ؔ کی فر یاد ہے مولا اس پر
ہو درود آپ پہ ہر آن رسولِ اکرم
آزاد ؔ نے تمام زندگی نعت کہی اور عشقیہ شاعری سے احتراز کیا۔
شیخ محمد ابراہیم آزادؔ ۲۵ فروری ۱۸۶۸ء کو یوپی کے ضلع مظفر نگر کے قصبے
حسین پور میں پیدا ہوئے ۔انھوں نے ۷۹ سال عمر پائی۔ وہ بیکانیر کے اپنے
آبائی قبرستان مین مدفون ہوئے۔ آزادؔ نے اس طویل زندگی کو بے مقصد نہیں
گزارا بلکہ زندگی کو اﷲ کی امانت سمجھتے ہوئے اس کی ہدایت کے مطابق گزانے
کی کوشش کی۔ وہ ایک دین دار اور متقی شخص تھے۔ وہ عام لوگوں میں گھل مل کر
رہتے تھے۔ ان کی خوشی و خم میں حصہ لیتے تھے اور سادہ زندگی گزارتے تھے۔ وہ
بیکانیر کے چیف جسٹس رہے اور اپنی نیک سیرتی سے بڑانام کمایا۔ وہ ذات
برادری کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ وہ شاعر ہونے کے علاوہ ایک
اچھے نثر نگار بھی تھے۔ تحریک نسواں کے تعمیری کاموں کے حامی اور مددگار
تھے۔ ان کا نثری سرمایہ محفوظ نہ کرنے کی وجہ سے ضائع ہوگیا۔ ان کا نعتیہ
دیوان ۱۹۳۲ء میں آگرہ میں چھپا اور اس کی اشاعت دوم ۲۰۰۵ء میں کراچی میں
ہوئی۔ ان کی وفات کے ۶۶ سال بعد ان کے پڑ پوتے ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کو
اﷲ نے توفیق دی کہ وہ اپنے اجداد کی میراث کو محفوظ کریں چنانچہ ان کی
شخصیت اور شاعری پر زیر تبصرہ کتاب وجود میں آئی۔ اس کتاب میں نہ صرف یہ کہ
آزادؔ کی شخصیت اور شاعری ااور ان کی سرگرمیوں سے ان کے اہل وطن اور اردو
ادب پر خوش گوار اثرات مرتب ہونے کا پتا چلتا ہے بلکہ ان کے آبائی شہروں
بیکانیر ، مظفر نگر ، حسین پور کی امتیازی خصو صیات کا بھی علم ہوتا ہے۔
آخر میں مصنف کے سادہ مگر دلنشین اسلوب کا ایک نمونہ ملاحظہ ہو۔
’’دبلے پتلے ،مِیانَہ قد ،کتابی چہرہ، سانو لا نکھرا نکھرا رنگ ، چہرے پر
معصومیت، جسم و جسہ معدوم و موہوم ، متانت اور سنجیدگی ، معمولی مونچھوں کے
ساتھ کالی داڑھی، کھڑے نقش، ستواں ناک، کرنجی آنکھیں، کشادہ پیشانی، جھدرے
بال ، ہنستا مسکراتا چہرہ ، ہنستے وقت دانت نمایاں ہوا کرتے،مخروطی
انگلیاں،نرم گفتار،سبک رفتار، مرنجاں مرنج،خوش لباس گھر میں کرتا پاجامہ
عدالت جاتے وقت سر پر راجستھانی امامہ‘‘۔
کتاب میں اور بھی محاسن ہیں مثلاً نعت کے ارتقا پر نظر ڈالی گئی ہے۔ آزادؔ
صاحب کے ہم عصروں کی ان کی شاعری کے بارے میں آرا ہیں۔ ان کے خاندان اور
مصنف نے صاف گوئی سے اپنے اور اپنی فیملی کے بارے میں ذکر کر کے قاری کو
اپنا بے تکلف دوست بنالیا
ہے۔(شائع شدہ ماہنامہ’قومی زبان‘ ، انجمن ترقی اردو، جنوری ۲۰۱۴ء جلد ۸۶
شمارہ ۱ص ۷۸ ۔۸۰) |
|