خودی کیاہے۔۔۔؟اسے کیونکر حاصل جاسکتا ہے؟
علامہ اقبال ؒ واحد شاعر ہیں جنہوں نے "خودی کا فلسفہٗ پیش کیا۔اور انسانوں
کو بتایا کہ تم تب تک آسمان کی بلندیوں کو نہیں چھوسکتے جب تک اپنی"خودی"کو
نہ پہچان لو۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
خودی ہے کیا؟اقبالؒ نے کس چیز کو خودی کہا ہے؟
خودی"تلاش اور کھوج کا دوسرا نام ہے۔جس کو آج کی دنیا میں انتھروپولوجی
(ANTHROPOLOGY)کہا جاتا ہے۔جو "انسانیات"کا علم ہے۔انسانی رویوں،اس کی چھان
بین اور تلاش کا علم ہے۔جس پر انسان کےماضی ،حال اور مستقبل کا دارومدار
ہے۔یہ علم ہمیں بتاتا ہے کہ"انسان"سوچتا کیوں ہے؟انسان دنیا کی واحد مخلوق
ہے جس کے دل میں یہ خیال ابھرتا ہے کہ میں کون ہوں اور مجھے جانا کدھر
ہے؟دراصل انسان کی ساری تلاش اسی ایک سوال کے گرد گھوم رہی ہوتی ہے۔دنیا کے
وہ تمام لوگ جنہوں نے کامیابیاں حاصل کیں،نام کمایا اور تاریخ کا حصہ
بنے۔یہ وہ سارے لوگ تھے جن کا سفر میں کون ہوں سے شروع ہوا؟علامہ اقبال ؒ
بھی ایک ایسے ہی مرد قلندر تھے جنہوں نے یورپ کی رنگین فضاؤں میں رہ کر
اپنے آپ کو پہچانا۔۔۔
علامہ اقبال ؒنے انسان کو خودی کا درس دیا ہے، علامہ اقبال کی خودی، خود
پرستی نہیں ہے، خود سوزی نہیں ہے بلکہ خود شناسی ہے۔ یعنی انسان کو اﷲ نے
اس دنیا میں کیوں بھیجا ہے کہاں جانا ہے کس لئے آیا ہے۔جیسا کہ ان کے اشعار
ہیں
قوموں کے لئے موت ہے مرکز سے جدائی
ہو صاحب مرکز تو خودی کیا ہے خدائی
ہر چیز ہے محو خود نمائی ہر ذرہ شہید کبریائی
بے ذوق نمود زندگی موت تعمیر خودی میں ہے خدائی
اقبالؒ کی شاعری میں "خودی "پر بے شمار اشعار بکھرے پڑے ہیں ۔۔یہ اشعار ہی
تھے جنہوں ایک غلام اور مردہ قوم میں روح پھونک دی۔۔۔انکی سوچ کے در وا
کیے۔۔۔ان کی خودی کو جگا کر خود شناسی اور پھر خدا شناسی سے روشناس
کروایا۔اور ایسا کیوں نہ ہوتا اقبالؒ کا سورس قرآن مجید تھا جو تمام کتابوں
سے اعلیٰ اور ارفع ایک زندہ بولنے والی کتاب ہے۔کہا جاتا ہے کہ قرآن کا اگر
آج کی دنیا کا سب سے بڑا معجزہ تلاش کیاجائے تو وہ اس کا لائیو بات چیت
کرنا ہے۔۔۔ہاں!آپ حیران ہوں گے مگر یہ سچ ہے قرآن آپ سے لائیو(live)بات
کرتا ہے۔آپ کے ذہن میں ابھرنے والے سوالوں کے جواب دیتا ہے۔۔۔شرط یہ ہے کہ
آپ کو لائیو بات کرنا آئے یعنی قرآن کی زبان اور سمجھ اور شوق سے بھرپور
دل۔۔اقبالؒ کا خاصا یہ تھا کہ انہوں نے بچپن سے ہی یہ فن سیکھ لیا تھا اور
پھر اس حکمت بھری کتاب کو شعروں میں ڈھال کر انسانوں تک پہنچایا جبھی تو
انھیں قرآن کا شاعر اور شاعروں کا قرآن کہا جاتا ہے۔ قرآن کے اس شاعر نے نہ
صرف فلسفہء خودی پیش کیا جو قوم و کی بقا اور عروج و زوال کا باعث
ہے۔پاکستان کے معروف ٹرینر قاسم علی شاہ اپنے ایک لیکچر میں فرماتے ہیں۔کہ
"واصف علی واصف سے پوچھا گیا کہ خودی کیا ہے؟فرمایا "ہر چیز کا ایک بنیادی
مقصد ہے جوہر ہےاگر وہ نہ رہے تو وہ بے کار ہے ادھوری ہے۔ایک چیز ہے لکھنا
اگر اس سے لکھنے کا کام نہ لیا جائے تو وہ قلم نہیں رہے گا اسی طرح کرسی ہے
اگر اس سے بیٹھنے کا کام نہ لیا جائے تو کرسی نہیں کہلائے گی۔۔کیوں؟کیونکہ
اس کا بنیادی وصف ختم ہو چکا ہے۔کسی نہ کسی چیز کی وہ صفت جو اس کے دوام
اور بقا کے لیے کام کر رہی ہے وہ اس کی خودی ہے۔پوچھا گیا کہ کیا جاندار
ںکی بھی کوئی ایسی صفت ہو سکتی ہے جو نکال دی جائے تو اس کا بنیادی وصف ختم
ہو جائےگافرمایا مرغے کی اگر ٹانگ نکال دو ،پر نکال دو تو وہ مرغا مرغا ہی
رہے گا مگر اگر اس کی بانگ نکال دو تو مرغا مرغا نہیں رہے گا۔اسی طرھ شیر
کی اگر ہر چیز سلامت ہے اور دھاڑنا اور جھپٹناباقی نہیں رہا تو شیر شیر
نہیں کہلائے گا تو پتہ چلا دنیا کی ہر چیز کی ایک خودی ہے ایک شناخت ہے ایک
پہچان ہے جو اس کو دوام بخشنے اور ترقی دینے کے لیے ہے۔"
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان اپنے اندر"خودی"کو بیدار کیسے کرے؟
ہمارے نظام تعلیم کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ انسان کی "خودی"کو نہیں
جگا پاتا۔بلکہ الٹاسے سلا دیتا ہے۔خماراور نشہ میں مبتلا کر دیتا ہے جس کے
نشے میں انسان اپنا آپ فراموش تو کرتا ہی ہے اپنی زندگی کے مقصد کو بھی
بھلا دیتا ہے۔یہی وجہ کہ جو "تلاش"اللہ نے انسان کے اندر "خودی"کو کھوجنے
کے لیے رکھی ہے۔وہ پردوں میں چھپی کی چھپی رہ جاتی ہے۔اور بسا اوقات انسان
اسی مد ہوشی میں دنیا سے چلا جاتا ہے۔
خودی کو بیدار کرنے کے لیے ضروری ہے انسان "علم"کے ہتھیار سے لیس ہو۔دین
اور دنیا ،دونوں کا علم۔۔۔اس کے ساتھ ضبط نفس پر کنٹرول اور "دعا"۔۔۔یہ
دونوں چیزیں انسان کو منزل پر پہنچانے کا باعث بنے گی۔اس کے ساتھ ساتھ ایسے
لوگوں کی زندگی کا مطالعہ جو "خودی "جیسی دولت سے بہرہ ور ہوئے۔۔۔جنہوں نے
اس راز حیات کو پالیا۔جانیئے کہ انہوں نے کون کون سے ٹول استعمال کیے۔۔؟کون
کون سے طریقے اپنائے؟
اور سب سے بڑی بات تعلیمی نظام کو بدلا جائے۔اسے بدلے بغیر ہم خاطر خواہ
نتائج حاصل نہیں کر سکتے۔جس طرح ہرفرد کی ایک"خودی"ہوتی ہے اسی طرح قوموں
کی بھی خودی ہوتی ہے۔اور قوم تب قوم بنتی ہے جب کھڑی ہو کیونکہ لفظ قوم کا
مادہ قام ہے ۔(مطلب کھڑا ہونا)قام ،یقوم جس سے قوم بنتا ہے۔ہم قوم نہیں ہیں
کیونکہ ہم اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہیں۔قوم بننے کے لیے ہمیں "خودی"کو جگانا
پڑے گا۔ہمارے نظام تعلیم کو ایسے اساتذہ کی ضرورت ہے جو قرآن کی حقیقی
روح،اقبال کا فلسفہ خودی اور جدید علوم سے بہرہ ور ہوں۔جو ہر طرح کے مفاد
سے پاک ہو کر قوم کو قوم بنانے میں مدد کرے۔جبھی اجتماعی خودی پیدا ہو سکتی
ہے۔
خدا اس مسافر کی ہمت بڑھاتا ہے جو "خودی"کا مسافر ہوتا ہے۔جو مسافر منزل
سمجھ کر خودی کی تلاش میں گم ہوجاتے ہیں تو پھر خودی طاقت بن کر اس کے دل
کو وہ قوت دیتی ہے کہ پھر سمندر،پہاڑاور آسمان کی وسعتیں اپنا دامن پھیلائے
کھڑ ی ہوتیں ہیں کہ آؤ اور ہمیں سر کرو۔۔۔بقل اقبالؒ
دونیم اس کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ اس کی ہیبت سے رائی!
یاد رکھیے !خودی کا سفر واحد سفر ہے جو اندر سے شروع ہوتا ہے۔خودی کو خد
میں تلاش کریں۔
خودی کیا ہے راز دورنِ حیات
خودی کیا ہے بیدارئی کائنات
ازل اس کے پیچھے ابد سامنے
نہ حداس کے پیچھے نہ حد سامنے
زمانے کی دھارے میں بہتی ہوئی
ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی
ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر
ہوئی خاک ِ آدم میں صورت پذیر
خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے |