جلد آرہا ہے ’’لَش پَش‘‘ چینل
(M Usman Jamaie, Karachi)
سیٹھ ٹوکری والا نے کھانے سے بھری توند کی گولائی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے
ہمارے عین منہ پر گوشت کی باس سے مہکتی ڈکار ماری اور بولے،’’اے تو اپنے
دھندے کے کچھ گُر تو بتا‘‘
’’دھندا‘‘۔۔۔۔ ہم کچھ دیر کے لیے سوچ میں پڑگئے کہ خدایا! ہم کس پیشے سے
وابستہ ہیں۔ بے خیالی میں اپنے کندھے کو ٹٹولنے کے بعد جیب میں ہاتھ ڈالا،
اطمینان ہوا کہ رومال جیب میں تھا۔
’’ارے یہ جو تیرا کھبروں کا کام ہے نے اکھبار والا‘‘ سیٹھ صاحب نے ہماری
پریشانی بھانپتے ہوئے پیک سے رنگے دانت نکال کر وضاحت کی تو سکون ملا کہ وہ
ہمارے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار نہیں، ہمیں صحافی ہی سمجھتے ہیں۔
’’آپ صحافت کے گُر جان کر کیا کریں گے سیٹھ صاحب‘‘ ہمارے سوال پر انھوں نے
سرگوشی کرتے ہوئے انکشاف کیا وہ اپنا ٹی وی چینل لانا چاہتے ہیں۔ ہمارے
’’کیوں‘‘ پر گویا ہوئے،’’یار سارے دھندے کرلیے، یہ بھی سہی۔‘‘
ہم نے کہا ضرور کیجیے، مگر ہم تو پرنٹ میڈیا سے وابستہ ہیں، ہمیں الیکٹرانک
میڈیا کا کوئی تجربہ نہیں۔ ’’مجھے پتا ہے، پر تو ہے بہت۔۔۔۔‘‘ انھوں نے
اپنی دانست میں ہماری تعریف کی۔ عرض کیا، ’’حضور! آپ کے پاس سرمایہ ہے،
لگائیے، ایک کیا دس چینل لائیے۔‘‘ بڑے انداز سے بولے،’’وہ تو مسئلہ نہیں،
چینل ’لگادوں‘ گا، پر تو مجھے کچھ ترکیبیں بتا کہ اتنے سارے چینلوں میں
میرا والا چل جائے۔ وارا نہیں آیا تو پھائدہ ایسے دھندے کا۔‘‘
زبان پر سیٹھ صاحب کے نمک کا ذائقہ تھا، سو ہم پورے خلوص سے انھیں چینل کی
کام یابی کے گُر بتانے لگے۔
جب ہم نے بولنا شروع کیا تو ’’ہمہ تن گوشت‘‘ سیٹھ صاحب ہمہ تن گوش ہوگئے۔
’’سیٹھ صاحب!‘‘۔۔۔۔ ہم نے سگریٹ کا دھواں ان کے منہ پر مارتے ہوئے ان کی اس
قے آور ڈکار کا انتقام لیا جس سے ہماری طبیعت ابھی تک متلارہی تھی۔
’’دیگر چینل اپنی خبریں گانوں سے سجاتے ہیں، آپ خبروں ہی کو گیت کی شکل دے
دیجیے۔ اور یاد رکھیے، اس کے لیے صرف بھارتی گانوں کی طرز اپنائیے گا۔ نیوز
بلیٹن شروع ہو تو نیوز ریڈر تھرکتے ،مٹختے ،لہراتے بل کھاتے آئیں اور یوں
گا کر خبریں سنائیں:
مذاکرات سے گھونگٹ اٹھا رہا ہوں میں
سمٹتی جاتی ہے دہشت شرم سے بانہوں میں
بلکہ ہم تو کہیں گے کہ چینل بھارتی گانوں اور اداکاروں کے بل پر چلانے کے
بجائے اپنا چینل بھارت ہی سے چلائیں۔ نیوز بلیٹن سے ٹاک شوز تک ہر پروگرام
میں بالی ووڈ کے اداکاروں کو بٹھا دیجیے، پھر دیکھیے ریٹنگ کیسے راتوں رات
آسمان کو چھوتی ہے۔
’’مارننگ شوز‘‘میں دوسرے شادیاں کروارہے ہیں، آپ طلاقیں کروائیے، پہلے
میاں بیوی کو لڑوائیے اور پھر مطلقہ کو رلائیے، یاد رکھیے، یہ شوز خواتین
کے لیے ہوتے ہیں، اور رونا ہماری خواتین کا محبوب مشغلہ ہے، وہ شادی والے
شوز بھی اس لیے دیکھتی ہیں کہ رخصتی کے وقت روئیں، تو ان کی آنکھوں میں
آنسو لائیے، ریٹنگ بڑھائیے۔
دیگر چینل اپنے مارننگ شوز میں ’’جِن‘‘ کے زیرِاثر خواتین اور عاملوں کے
لاتے ہیں، آپ سیدھے سیدھے جِنوں، بھوتوں اور چڑیلوں بلاکر اسٹیج پر دھواں
اُڑائیے، اندھیرا پھیلائیے، اندھیر مچائیے، ڈرائیے، ریٹنگ بڑھائیے۔
برائیوں کے سدباب کے لیے ایک ’’چھاپہ مار‘‘ پروگرام شروع کیجیے، جس کے لیے
کسی تربیت یافتہ لیڈی پولیس اہل کار کو اس کی تنخواہ اور اوپر کی کمائی سے
دہرا معاوضہ دے کر حاصل کیجیے، اگر وہ خوبرو بھی ہو تو کیا کہنے۔ اب اسے
چھاپوں پر لگادیجیے۔ پارکوں اور چھوٹے موٹے ہوٹلوں میں میل ملاقات کرتے
جوڑوں، خواجہ سراؤں اور سڑکیں چھاپ کر پیشہ کرتی کال گرلز کو نشانہ
بنائیے، ریٹنگ بڑھائیے، برائیوں کا سدباب بھی، انٹرٹینمینٹ بھی اور
کارِثواب بھی۔ لیکن اپنے کیمروں کو چھوٹوں کی برائیوں ہی پر فوکس رکھیے گا،
کسی فائیو اسٹار ہوٹل یا جیمخانے کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی مت دیکھیے گا۔
’’بریکنگ نیوز‘‘ کی دوڑ میں سب سے آگے رہیے۔ اس کے لیے ایکسکلوسیو
(exclusive ) یا اہم ترین خبریں تلاش کرنے کے جھنجٹ میں مت پڑیے، بس
’’ٹھشوں، ٹھشوں‘‘ کی دل ہلادینے والی آوازوں کے ساتھ گھوم گھوم کر نظروں
اور دماغ کو چکرا دینے والا ’’بمپر‘‘ یا لفظوں کا چوکھٹا گھماگھماکر آپ
کسی ایسی اطلاع کو جو کسی طور خبر کے معیار پر بھی پوری نہ اترتی ہو بریکنگ
نیوز بنائیے، جیسے،’’وزیراعظم کو کام کرتے ہوئے چھینک آگئی فائلیں
تتربتر۔۔۔ٹِھشوں۔۔۔۔۔، وزیراعظم کو چھینک آگئی، ٹھشوں وزیراعظم کو چھینک
آگئی۔‘‘ چینل لائیے، یہ گُر آزمائیے، ریٹنگ بڑھائیے۔
حیرت سے منہ کھولے اور چمکتی آنکھوں کے ساتھ ہماری تجاویز سنتے سیٹھ صاحب
نے جوش اور خوشی کی حالت میں ہماری ران پر ہاتھ مارا بولے،’’یار کیا اُدھم
ترکیبیں بتائی ہیں تو نے، اب چینل کا کوئی مست سا نام بھی تو ہی رکھ دے۔‘‘ |
|