جنت میں جہنم

چلیے!
دھواں بھری سانسوں، شور سے اُبلتی سماعت اور خوف سے کانپتے دلوں کو الماری میں دَھر کے۔۔۔شانت بستی کی اور۔۔۔۔۔ روپ نگر کی سمت، تھوڑی سی زندگی جی لیں۔

جانے کتنے راستوں کو ٹائروں تلے روند کر، جانے کتنے منظروں سے گزر کر، جانے کتنے موڑ مُڑ کر ہم نے تھر کی ڈگر پالی، ناگ سی بل کھاتی کالی سڑک پہاڑوں سے اترتی چڑھتی بتارہی ہے کہ مسافرو! جس دیس جا رہے ہو، وہاں ایسی ہی اونچ نیچ ہے۔

اور وہ نگر آگیا۔ سندرتا کی دھرتی، بھید بھرا تھر!

گُل بُوٹے سجے پہاڑوں سے سنسناتی ہواؤں والے صحرا تک پھیلا تھر!

پہاڑوں کی چوٹیوں سے دامن تک پھیلی سفید پھولوں سے بھری جھاڑیوں اور اچُھوتے رُوپ کے پودوں کو چُھوکر آتی ہوا کیسی صاف کتنی تازہ ہے، کائنات میں چلنے والی پہلی ہوا بھی شاید ایسی ہی ہوگی۔ اپنی شاخوں سے مختلف خوب صورت شکلیں بناتے پیڑ!

شان سے چلتے اونٹوں کے ریوڑ جھاگ بہاتے بڑی دھیرج سے چراگاہوں کو جارہے ہیں۔

آسمان سے زمین تک بچھی دھوپ میں ’’چونرے‘‘ سائے سے بھرے ہیں، سرما کی ٹھنڈک میں ان کی گھانس پھونس کی چھت اور مٹی کی دیواریں دھوپ بن جاتی ہیں، برکھا ان کے چاروں اور جَل تھل کردیتی ہے، مگر مجال ہے جو یہ ایک بوند بھی اپنے سائے تلے آنے والوں تک پہنچنے دیں۔

جھاڑیوں میں مور دوڑتے پھر رہے ہیں۔ ایک مور نے پنکھ پھیلائے، اُڑان بھری اور چونرے کی چوٹی پر جا بیٹھا، دوسرے کی پرواز نے درخت کی سب سے اونچی شاخ کو منزل بنایا۔

لال، پیلے، نیلے گھاگھرے کرتی پہنے سانولی عورتیں پاتال کو جاتے کنوؤں پر کھڑی ڈول سے پانی بھر رہی ہیں۔ پیڑوں کی چھاؤں میں بچھی چارپائی پر چڑھی مونچھوں، کشادہ پیشانیوں والے راجپوت بیٹھے دھیمے لہجے میں ٹھہر ٹھہر کر گفتگو کر رہے ہیں۔ تھری لفظوں کی بھینی بھینی خوشبو مہک رہی ہے۔

بھیل، کولہی، میگواڑ۔۔۔۔پانچ ہزار برسوں کی دھوپ میں جھلسے چہرے، اپنے جھونپڑوں میں مٹی کے برتن اور مٹکے بنارہے ہیں۔

جھاڑیوں میں سانپ سرسرا رہے ہیں، سرخ آنکھوں والے سنپیرے، ان کی ناگوں کو بلاتی بین۔۔۔۔۔سانپوں اور سنپیروں کا بندھن۔۔۔تھر کی گرد میں لپٹا بھید!

چونروں کے گرد مٹی کی چھوٹی سی منڈیر اعتماد، سکون اور اطمینان کی لکیر ہے۔ یہ منڈیر کہہ رہی ہے کہ اس کے حصار میں رہنے والوں کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں۔

امن، سکون، تحفظ، حُسن، تاروں اور دھوپ سے چھلکتا آسمان، فطرت کے نظاروں سے بھری زمین، جیسے جنت کا عکس!

مگر اس جنت میں ہزاروں جہنم دہکتے ہیں۔ پیٹھ سے لگے پیٹوں میں دہکتے نرک۔ تھر کے گگن سے بادل روٹھ جائیں تو اس دھرتی پر پیاس برستی ہے، بھوک اُگتی ہے۔ آسمان اور زمین کے سوا ان کا ہے کون؟ سو اُوپر کو اٹھی نظریں بادلوں سے خالی آسمان کا سُونا پن لیے پلٹی ہیں اور امید کی لو جلتی چٹختی زمین کی دراڑوں میں بُجھ جاتی ہے۔ اب یہ ان کا مسئلہ ہے کہ موت کا انتظار کریں یا اپنا وجود کھینچتے نقل مکانی کرجائیں۔

مملکت کے ایک کونے میں ماس کھاتی بھوک اور خون پیتی پیاس سے حکومت کو کیا غرض، ریاست کو کیا سروکار، اور سچ تو یہ ہے کہ ہمیں اور آپ کو بھی کیا لینا دینا۔

آئیے! تھر کی زمین پر ناچتے مور کی دل کش تصویر بنائیں، گھاگھروں کرتوں کے رنگ کینوس پر اتاریں، تھریوں کے چونروں کوکیمرے سے نکلتی روشنی کی زنجیر میں قید کریں، ان کی دست کاریاں ٹَکوں میں خرید کر ہزاروں میں بیچیں، ان کی ثقافت کا دن منائیں، اس کا قصیدے پڑھیں، تھر دھرتی پر کلیلیں بھرتے ہرنوں کے گوشت کی دعوت سے زورآوروں کا دل لبھائیں، تھر کے مور پکڑ کر حکام کی خدمت میں پیش کریں اور تعلقات بنائیں۔ رہے تھری! تو وہ ہمارے کس کام کے؟ یوں بھی ’’ٹکا خانی‘‘ نعرہ ’’ہمیں لوگ نہیں، زمین چاہیے‘‘ ہمارا غیراعلانیہ حکومتی اور ریاستی منشور ہے۔

واپس چلیے!
میں تو آپ کو سپنوں جیسے سوندھے منظر دکھانے لایا تھا، حسن و اسرار کے طلسم نگر کی سیر کرانے لایا تھا۔ مگر یہاں تو بھوک کی ڈائن کلیجے کھارہی ہے، پیاس رگوں میں زہر اتار رہی ہے، افلاس کپڑے نوچ رہا ہے، مور پنکھ پھیلانا بھول گئے ہیں، چونروں میں سسکیاں اور آخری ہچکیاں گونج رہی ہیں، قبروں کے چوکھٹے کُھل رہے ہیں، چتائیں جسموں کو دھواں کر رہی ہیں۔ آپ بور ہوگئے ہوں گے! واپس چلیے۔ دھواں بھری سانسوں، شور سے اُبلتی سماعت اور خوف سے کانپتے دلوں کو الماری سے نکال کر چومیے کہ دھواں، شور اور خوف رفتہ رفتہ جان لیتی اس بھوک سے بہت اچھے ہیں جس کے درشن آپ کر آئے ہیں۔ دُور کے ڈھول سہانے بابا!

برسات میں آئیں گے، جب تھر گلزار ہو، بہت مزہ آئے گا، بہت انجوائے کریں گے آپ!
M Usman Jamaie
About the Author: M Usman Jamaie Read More Articles by M Usman Jamaie: 36 Articles with 29345 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.