امت مسلمہ کی بے حسی
(Professor Masood Akhter, luton)
آج دنیا کے نقشے پر نظر دوڑائیں
تو چپے چپے پر مسلمانوں کا خون بکھرا نظر آتا ہے۔ ہر جگہ مسلمان رسوا ہو
رہے ہیں اور امت مسلمہ پستی کی جانب رواں دواں ہے۔ حالانکہ اپنے تو اپنے
غیر بھی جانتے ہیں کہ ہم ایسے تو نہ تھے۔ ہمارا ماضی بہت تابناک ہے۔ ایک وہ
وقت تھا کہ اسلام اور مسلمانوں کا ایک وقار تھا۔ رعب و دبدبہ تھا اور غیر
بھی ہمارے اسلاف کو نہ صرف قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے بلکہ ان کی مثالیں
دیا کرتے تھے۔ 1937 میں جب انڈیا میں کانگرس کی حکومت بنی تو گاندھی جی نے
اپنے پیروکاروں کو خطاب کیا جو اس وقت کے اخبارات نے صفحہ اول پر شائع کیا
تھا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ”سادگی کے حوالے سے میں رام چندر اور
کرشن کا حوالہ نہیں دیتا کیونکہ وہ اس لحاظ سے تاریخی شخصیات نہ تھے۔ میں
مجبور ہوں کہ سادگی کے عنوان سے ابوبکرؓ اور عمرؓ کا نام پیش کروں۔ بڑی بڑی
حکومتوں کے سربراہ ہونے کے باوجود انہوں نے فقیرانہ زندگی گزاری“۔
آج اللہ تعالیٰ کی انگنت اور بیشمار نعمتیں ہمارے پاس موجود ہیں۔ 57 کے
قریب مسلمان ممالک تیل، گیس۔ معدنی زخائر اور سونے چاندی کی کانوں سے
مالامال ہیں۔ گویا دنیا کے قدرتی وسائل کا 65 فی صد کے قریب حصہ مسلمانوں
کے پاس ہے یعنی مسلمان ملکوں میں ہے۔ ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ کلمہ گو مسلمانوں
کی تعداد ہے۔ گویا زمین پر بسنے والا ہر پانچواں یا چھٹا شخص مسلمان ہے۔
لیکن اس کے باوجود یہ ذلت اور رسوائی کیوں؟ مسلمانوں کی تباہی اور بربادی
کیلئے بڑی گہری سازشیں ہمیشہ سے کی جاتی رہیں۔ اسی کا تسلسل آج ہمارے گرد و
پیش کے حالات ہیں۔ یہ ایک پریشان کن صورت حال ہے کہ مسلمان حکمران اسلام
دشمنوں کے ہاتھوں میں کھلانا بنے ہوئے ہیں۔ مسلمان حکومتیں اپنے چھپے ہوئے
دشمن سے مل کر اپنے ہی بھائیوں کے خلاف بر سر پیکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ
دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمان آپس میں لڑ اورمر رہے ہیں۔
بدقسمتی سے مسلمانوں کی تاریخ نا اتفاقی، حسد اور طاقت کے حصول کیلئے باہمی
جنگ و جدل سے بھری ہوئی ہے۔ آج بھی لسانی، مذہبی اور نسلی فرقہ بندیوں نے
ہمیں کمزور کیا ہوا ہے۔ اس میں اپنوں کی منافقت اور کوتاہی اور غیروں کی
ریشہ دوانیاں بھی کا فرما ہیں۔ انتہائی افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ ایک خدا
کو سپر پاور مان کر اس کی بارگاہ میں سرجھکانے کی بجائے آج مسلمان حکمرانوں
کا قبلہ ”بلیک ہاؤس“ (کعبہ شریف) کی بجائے وائٹ ہاؤس بن چکا ہے۔ آرگنائزیشن
آف اسلامک کانفرنس (او آئی سی) 57 اسلامی ملکوں پر مشتمل ہے لیکن اس کا
کوئی قابل تعریف کردار نہیں۔ اس کا کردار اس حد تک قابل رحم ہے کہ کہ
مسلمانوں پر ظلم و ستم کے حوالے سے جب کوئی اشو سامنے آتا ہے تو یہ ھاتھ پہ
ھاتھ دھرے خاموش تماشائی کا کردار نبہاتی نظر آتی ہے۔
افغان جنگ ختم ہونے کے بعد سالوں تک یہ پلاننگ کی گئی کہ کس طرح مسلمانوں
کے خلاف صلیبی طرز کی جنگوں کا آغاز کیا جائے۔ اس طرح 9/11 جیسے ایک مشکوک
واقعے کے بعد ”وار آن ٹیرر“ کے نام سے مسلمانوں کے خلاف صف بندی کی گئی۔ وہ
طالبان جو افغان جنگ میں امریکہ کی آنکھوں کے تارے اور سر کے تاج تھے انہیں
دشمن نمبر ایک قرار دے دیا گیا۔ اس طرح اُس وقت سے آج تک مسلمانوں کے خون
سے ہولی کھیلی جارہی ہے۔ حال ہی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انکشاف کیا اور
ساتھ ساتھ اس پر اپنی تشویش کا اظہاربھی کیا ہے کہ 2004 سے امریکہ کے
(Joint Forces Staff College for Officers) میں اسلام کے خلاف بڑے منظم
طریقے سے امریکی فوج کے نصاب میں نفرت انگیز مواد پڑھایا جا رہا ہے۔ اور اب
تک 800 افسران یہ نصاب مکمل کر چکے ہیں۔ اس نصاب کو چار حصوں مین تقسیم کیا
گیا ہے۔
1 مسلمانوں کے درمیان اخوت اور بھائی چارے کی فضاء نہ پیدا ہونے دی جائے۔
ان کو فرقوں اور ٹکڑوں میں تقسیم کر کے کمزور کیا جائے۔
2 اسلام کو عیسائت کا حقیقی دشمن بنا کر پیش کیا جائے۔
3 اسلام کے مثبت تاثر کو زائل کرکے اسے فسادی اور بنیاد پرست مذہب ظاہر کیا
جائے۔ اسلام کے انسانیت کی بھلائی کے کاموں کو منفی انداز میں پیش کی جائے۔
4 عوام الناس کے دلوں کو اس طرف مائل کیا جائے کہ وہ مکہ اور مدینہ پر حملے
کو قبول کر لیں۔ (نعوز باللہ)
امریکی صحافی (Bob Woodward) نے اپنی کتاب Bush at war میں وہ انکشافات کیے
ہیں جو کہ امت مسلمہ کی آکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں۔ اس کتاب کو آن لائن
پڑھا جا سکتا ہے۔ کالم کی طوالت کے ڈر سے اقتباسات شامل کرنے کی گنجائش
نہیں۔
افسوس یہ نہیں کہ بے حس ہوئے ہیں ہم
افسوس تو یہ ہے کہ احساس بے حسی بھی نہیں
اس وقت مسلم امہ کو ایسی فعال قیادت کی ضرورت ہے جو بالغ نظر ہونے کے ساتھ
ساتھ اسلام دشمنوں کے گہرے منصوبوں پر بھی نظر رکھنے والی ہو۔ بیشمار
خداداد وسائل کو استعمال کر کے اسلام کی عظمت رفتہ کی بحالی کی طرف کوشاں
ہو۔ قوموں کا عروج و زوال انسانی تاریخ کا حصہ ہے۔ لیکن قرآن کا واضح حکم
ہے کہ خدا تعالی ان ہی قوموں کی حالت کو بدلتے ہیں جو خود اپنی حالت کو
بدلنے کیلئے کوشاں ہوتی ہیں
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
|
|